کہاں تک سناؤں

م ش خ  جمعـء 31 مارچ 2023
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

کالم کا آغاز سنجیدگی اور طنزومزاح سے کر رہا ہوں، سنجیدگی کا جملہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ بے شمار مسائل ہیں اور قوم تکلیف میں ہے کہ تعمیری اور مثبت کام نہیں ہو رہے۔ سیاسی بے مقصد تصادم رمضان المبارک میں بھی جاری ہے۔

شہرقائد میں مختلف جگہوں پر بچت بازار لگائے گئے ہیں ، اول تو ان کی تعداد بہت کم ہے ، دوم یہ ایک دوسرے سے اتنے زیادہ فاصلے پر ہیں ، ان تک عوام کی رسائی تقریبا نا ممکن ہے۔ ان بچت بازاروں تک پہنچنے کے لیے کرائے کی مد میں 400 روپے تک خرچہ آرہا ہے۔

اس سے بہتر ہے کہ عوام اپنے علاقے سے چیزیں خرید لیں مثلاً کیماڑی، برنس روڈ، لالوکھیت، نارتھ ناظم آباد اور ناظم آباد، دستگیر ، فیڈرل بی ایریا خاص طور پر کچی آبادیوں کے قرب و جوار میں بچت بازار لگائے جائیں تاکہ غریب لوگ مستفید ہو سکیں۔

ایکسپو سینٹر میں بچت بازار لگا دیا گیا ہے جو علاقے تحریر کیے ہیںان سے یہ کافی دور ہے اس کے علاوہ شہر میں لاقانونیت کا بازار بھی گرم ہے۔ رقم چھیننے کے باوجود یہ بدمعاش، شریف شہری کو گولی مار دیتے ہیں۔ شدید اضطراب کی کیفیت پائی جا رہی ہے کراچی کی سیاسی جماعتیں صرف تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔

دوسری جانب مزے کی بات یہ دیکھیں کہ چاند دیکھنے کے لیے ملک کے مختلف شہروں مرکزی اور ذیلی رویت ہلال کمیٹیوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں،تو اس میں تقریباً 200 افراد شامل ہوتے ، اس کے بعد بھی فیصلہ تاخیر سے ہوتا ہے جب کہ 400 آنکھیں چاند کی تلاش میں پھر رہی ہوتی ہیں اوران 200 افراد کے کھانے کا بندوبست بھی ہوتا ہے اب اخراجات کے حوالے سے لکھنا بے کار ہے ۔

اس مہنگائی میں ویلفیئر تنظیمیں اور صاحب حیثیت افراد کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا JDC کے ظفر عباس بھی بہت کام کر رہے ہیں ،لوگ ان کے میسج کو نظرانداز نہیں کرتے۔

انھوں نے مہنگائی کے خلاف بھر پور رہنمائی کی اور کئی مواقع پر پھلوں کا بائیکاٹ کرنے کے لیے کہا ہے انھوں نے پولٹری فارم کی مرغی کے حوالے سے بھی پیغام دیا تھا غریب تو ان کی بات سننے کے بعد توجہ دیتا ہے مگر اس کا کیا حل ہے کہ جو صاحب حیثیت ہیں وہ اس پر عمل نہیں کر رہے جس کی وجہ سے غریب مستفید نہیں ہو پا رہا کہ جو مہنگائی کے دادا گیر ہیں۔

ان کے مقاصد تو پورے ہو ہی جاتے ہیں لہٰذا صاحب حیثیت افراد JDC کے ظفر عباس کی بات پر عمل کریں آپ کے پاس تو سب کچھ ہے آپ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر آپ حضرات کے تعاون نہ کرنے کی وجہ سے غریب بے چارا پریشان ہے لہٰذا صاحب حیثیت افراد خود ساختہ مہنگائی کا بائیکاٹ کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کوششیں تو بہت کر رہے ہیں مہنگائی کے اختتام کی مگر دکھ اس بات کا ہے کہ انھیں لاعلم رکھا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں مہنگائی کے حوالے سے انھیں بتایا گیا مگر مرغی کے حوالے سے انھیں نہیں بتایا گیا اور آج مرغی 700 روپے کلو بک رہی ہے پرائس کنٹرول والے کہاں ہیں ،ریٹ آویزاں کیے جائیں جس پر ADC، DC کے دستخط ہوں مگر کوئی لسٹ کسی دکان یا ٹھیلے پر نظر نہیں آتی اور ہاں مہنگائی کی لسٹ دکانداروں نے اپنے سینے پر سجا رکھی ہے۔

بس قوم کے لیے یہ کافی ہے اور پھر ایک وقت آئے گا کہ چاند ہوا یا چاند نہیں ہوا اس فیصلے کے بعد رمضان اپنی عمر پوری کرکے چلا جائے گا اور بات ختم ہو جائے گی ایک مسئلہ ہو تو تحریر میں لایا جائے مسائل کے انبار ہیں مگر ہم ٹھرے عوامی صحافی جو خود مسائل کے پہاڑوں تلے دبے ہوئے ہیں۔

عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو انھوں نے کچھ کام کیے تھے جو اب تقریباً ختم کردیے گئے ہیں، یہ سیاسی جنگ ہے حالانکہ قوم کو ان کے اس عمل سے بہت فائدہ ہوا تھا۔ 22 جنوری 2021 کو بیت المال قائم ہوا جس کے ایم ڈی عون عباس تھے جس میں تقریباً 400 افراد کھانا کھاتے تھے یہ رئیس نہیں تھے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔

اس میں تقریباً 50 افراد مفت رہائش کے حوالے سے رہتے تھے، اپریل 2022 کو عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اس کے فوری بعد اس کو ختم کردیا گیا اور اس شیلٹر ہوم کو بند کردیا گیا یہ 5 شیلٹر ہوم کوئٹہ، چمن، فاران، گوادر اور لسبیلہ (بلوچستان) میں قائم تھے جو بند کردیے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری مہنگائی کے خلاف بھرپور کام کر رہے ہیں اور قوم ان کاموں کی وجہ سے ان کی شخصیت کو بہت پسند کر رہی ہے جب کہ گورنر کے حوالے سے ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی انھوں نے عوام کے لیے گورنر ہاؤس میں عام آدمی کے لیے افطاری کا اہتمام کیا یہ ایک اچھی روایت کا آغاز ہے۔

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اس پر خاص توجہ دیں کہ رمضان المبارک میں صبح کے اوقات میں گیس بالکل نہیں ہوتی عجیب لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے جو بیمار ہیں، کینسر کے مریض ہیں، عمر رسیدہ ہیں دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں کیا انھیں غذا کی ضرورت نہیں ہے۔

روز کا معمول ہے کہ صبح 7 بجے گیس چلی جاتی ہے نہ آنے کے لیے۔ معذرت کے ساتھ کیا وزیر اعلی کے گھر، ان کے وزیروں اور مشیروں کے گھر میں گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اگر نہیں ہوتی ہے تو قوم پر بھی رحم کی نگاہ ڈالیں۔

آپ یقین کریں پی پی پی کی حکومت کو دیکھتے ہوئے اس شہر کے لوگوں کو بے نظیر بہت یاد آتی ہیں وہ ہر پہلو کا جائزہ لیتی تھیں اس کے بعد آرڈر دیتی تھیں، رب انھیں جنت میں اعلیٰ مقام دے۔ زاہد خان کیماڑی میں رہتے ہیں ایک بڑے ویلفیئر ادارے کو چلاتے اور ایکسپریس اخبار کے بہت مداح ہیں، نے ایک ملاقات میں بتایا کہ کیماڑی کا ایک بڑا حلقہ ایکسپریس پڑھتا ہے کیماڑی میں لوگوں کو گیس کی بہت تکلیف ہے کبھی کبھی تو افطار اور سحری کے موقع پر بہت کم گیس آتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے مکین بہت پریشان ہیں۔

رمضان المبارک میں سندھ حکومت پہلی فرصت میں رمضان میں گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کرے کچھ تو قوم پر رحم کریں ، بے شمار جگہ گیس دریافت ہوتی ہے مگر اس پر توجہ نہیں دی جاتی جب کہ ایسے پروجیکٹ پر پہلی فرصت میں توجہ دی جائے جب اس سندھ میں جگہ جگہ گیس نکل رہی ہے وہ اخبارات کی زینت بنتی ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ اخبارات میں ہی دفن ہو جاتی ہے۔ یہ المیہ ہے قوم کا، گزارا کچھ اس طرح کے بیانات سے ہو رہا ہے جو سیاسی ہوتے ہیں شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔

دہشت گردوں کو امن برباد نہیں کرنے دیں گے، دشمن ہماری شرافت کو کمزوری نہ سمجھے، اس واقعے کی انکوائری کی جائے گی، کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، نوٹس دے کر اجلاس طلب کرلیا گیا، آئین سے کوئی بھی ماورا نہیں، وزیر اعظم عوام میں گھل مل گئے، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے، قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائیگی، غریب کو اس کی دہلیز پر انصاف ملے گا، ہر صورت میں میرٹ قائم رکھا جائے گا، قوم بیرونی دشمنوں کے خلاف متحد ہے، کرپشن ختم کرکے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔