اردو ہماری عزت

شہلا اعجاز  جمعـء 7 اپريل 2023

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مہنگائی کی شرح بلند سطحوں پر پہنچی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس مہینے میں ابھی بھی محبت کی خاطر لوگوں کو جمع کر کے ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پچھلے برس کی نسبت اس دفعہ لوگ زیادہ تھے اور جوش و خروش بھی تھا۔ سینئر جونیئر ساتھیوں کے ساتھ ان کے بچے بھی شامل تھے۔

برسوں بعد بہت سے لوگوں سے بھی ملنا رہا ایک خوش گوار ماحول تھا پر نجانے کیوں طبیعت میں ایک اداسی سی گھل گئی۔ ہمارے اپنے بچے مادری زبان اردو کے بجائے انگریزی میں گفتگو کر رہے تھے۔

ایسا نہ تھا کہ وہ اردو زبان سے نابلد تھے کیونکہ ان کے والدین اردو زبان اچھے، انداز سے بولنے کے عادی تھے۔ سیدھے سادے سے بچے لیکن گفتگو میں انگریزیت کا عنصر بتایا گیا تھا کہ وہ بچے کچھ باہر سے بھی تعلیم حاصل کر کے آئے تھے اور یہاں بھی فرنگی لیول کر رہے ہیں۔

اس میں برائی کوئی نہیں ہے ہماری نئی پود کو تعلیم کے اس معیار کو ضرور حاصل کرنا ہے جہاں سے انھیں مقابلے کی جستجو کو پکڑنا ہے لیکن ایک اسے ادارے سے منسلک ماحول یعنی ریڈ یو پاکستان جہاں طالب علمی کے دور میں ہمیں غلط تلفظ، لہجے پر سرزنش کی جاتی تھی۔

سمجھایا جاتا تھا کہ اس لفظ کو واضح کرکے ادا کیجیے اور اتفاقاً اب بھی اردو سے منسلک اشاعتی ادارے میں ہیں تو ظاہر ہے کہ سیکھنے کا عمل تاحال جاری ہے لہٰذا اپنی مادری اردو زبان سے محبت کا اثر برقرار ہے۔

اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہونیوالے حمزہ ہارون یوسف جنھوں نے اپنی ساری تعلیم ہی بیرون ملک حاصل کی اور اب 27 مارچ 2023 کو انھوں نے ایک بڑا معرکہ سر کرلیا لیکن ان کی وجہ شہرت ایک اور بھی بنی، انھوں نے اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان میں حلف اردو زبان میں لیا۔

اس کی ویڈیوز دیکھی جا چکی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ حمزہ پاکستان میں نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے جہاں انھوں نے اپنے محلے داروں سے لے کر اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کے معیار تک انگریزی زبان کو ہی اختیار کیا تھا، اس لحاظ سے ان کی مادری زبان انگریزی بھی رہی تھی۔ وہ کیا وجہ تھی کہ جس نے حمزہ کو اردو زبان میں حلف لینے پر مجبورکیا۔

اسکاٹ لینڈ میں یہ روایت ہے کہ اس حلف کے ہر حوالے کی پاس داری کرنی ہے اور منتخب نمایندے کو اس کے ایک ایک نقطے کو سمجھ کر حلف لینا ضروری ہے اور چونکہ انسان اپنی زبان اپنی روایات سے جڑا ہوتا ہے۔

لہٰذا یہ قرارپایا کہ اس بڑے اہم اور ذمے دار عہدے کے لیے حلف اسی زبان میں اٹھایا جائے جو ان کی اپنی مادری زبان ہے۔

حمزہ کے پاس اختیار تھا کہ وہ انگریزی کو منتخب کرے لیکن اس نے انگریزی کے بجائے اردو کا انتخاب کرکے جہاں اردو زبان کے تشخص کو ایک عزت دی، وہیں اردو بولنے والے لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنایا جس کا ثبوت ان کے حلف کے وقت کی ویڈیوز ہیں جو وائرل تھیں۔’’ براہ کرم اگر کسی کے پاس اردو رسم الخط کا کی بورڈ ہو یا اس کی کوئی تصویر ہو تو مجھے سینڈ کردے۔‘‘

یہ صدا امریکا سے ابھری تھی اور وہ بہت پرجوش تھیں انھیں اردو زبان کے سلسلے میں کچھ کام تھا کسی نے ان کا یہ کام کیا یا نہیں مصروفیات میں یاد نہیں لیکن بیس سال سے زائد امریکا میں مقیم فرحانہ شاہد حسین کی اردو زبان کی شائستگی، ادائیگی اور تہذیب خاصی متاثر کر گئی تھی۔

پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں سے فارغ التحصیل نوجوان ہوں یا مغربی طرز پر چلنے اسکولوں کے معصوم بچوں سے اگر کبھی ملاقات ہو تو آپ کو ان کے لہجے سے صاف پتا چل جائے گا کہ یہ موصوف اعلیٰ تعلیمی ادارے کے سپوت ہیں۔

بلاوجہ متاثر کن احساسات گھیر لیتے ہیں، یہ بہت ذہین ہے۔ اس قسم کے جملے اندر ہی اندر شور مچاتے ہیں، چاہے وہ بچہ اپنی جماعت کا اعلیٰ درجے کا نکما ہو۔ ہر امتحان میں اس کی زبردستی ترقی کی سند پوشیدہ ہو لیکن بظاہر زبان اسے کامیاب قرار دیتی ہے۔

دراصل ہم احساس کمتری کے جس بخار میں مبتلا ہیں اس کی پہلی نشانی یہ زبان ہی ہے۔’’میری دونوں بیٹیاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور یقین مانیے یہاں امریکا میں ڈاکٹر بننا اس کی تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔

پڑھنے کے حوالے سے یہ جان جوکھوں کا کام ہے، بچے بہت محنت کرتے ہیں تب کہیں جا کر ڈاکٹر کی ڈگری حاصل ہوتی ہے اور ان کی فیسیں بھی بہت ہوتی ہیں، ایک سیمسٹر کی فیس پینتیس ہزار ڈالر۔ ذرا آپ سوچیے یہ فیس کم نہیں ہے بہت زیادہ ہے اور سیمسٹر بھی ایک نہیں کہ آپ نے اسے ادا کیا اور بس۔ پاکستان کی حاصل کردہ میڈیکل کی ایم بی بی ایس کی ڈگری کو یہاں نہیں مانا جاتا، اس بچی کو یہاں آ کر دوبارہ پڑھنا پڑے گا۔‘‘

فرحانہ شاہد حسین سے کسی اور موضوع پر بات ہو رہی تھی اور اسی میں انھوں نے اپنی بیٹیوں کا پہلی بار تذکرہ کیا تھا۔ ان کے چاروں بچے زیر تعلیم ہیں اور ان کی تعلیم کے اخراجات وہ دونوں میاں بیوی پورے کرتے ہیں۔ بظاہر پاکستان میں ہمیں باہر کی زندگی بہت سمپل اور پرتعیش دکھائی دیتی ہے لیکن اصل حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔

بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کا عنصر بہت اہم ہے ایسے میں اگر بچے کسی بھی ایک مقام سے لڑھک جائیں تو والدین کے لیے وہ مرحلہ بڑا کٹھن ہوتا ہے اور ایسی کئی کہانیاں آپ کو ملیں گی جس میں بچے والدین سے الگ ہو کر دوسرے کلچر میں ضم ہو کر اپنی شناخت بھلا بیٹھتے ہیں۔’’میں ایک بزنس وومن بھی ہوں اپنا گھر بھی دیکھتی ہوں، کھانا بھی پکاتی ہوں، آفس بھی دیکھتی ہوں، بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کرنا ہو وہ بھی کرتی ہوں۔

یقین مانیے یہ زندگی جو دور سے بہت رنگین نظر آتی ہے بہت صبر آزما اور محنت طلب ہے۔‘‘مادری زبان کے دن کے حوالے سے وہ خاصی پرجوش تھیں کیونکہ انھیں اردو دان جان کر ان سے اس سلسلے میں مدد طلب کی گئی تھی اور وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں۔

’’میری بیٹیوں کو تو بڑا افسوس ہے کہ انھیں اس طرح رہتے ہوئے (پاکستان میں) اردو بولنے کا موقعہ نہیں ملا۔‘‘ یعنی وہ لوگ نہیں ملے جن سے وہ کھل کر اردو میں بات کرسکیں، ان کے گھر میں شائستہ اردو بولی جاتی ہے، بچے اسی مغربی انداز میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے بھی اپنی مادری زبان سے جڑے ہیں اور اس پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ہم پاکستان میں رہتے ہیں۔

یہاں کے حالات پر غم زدہ ہو جاتے ہیں لیکن یقین جانیے پاکستان سے سات سمندر پار بسنے والے لوگ نہ صرف اپنے ملک کے لیے پریشان ہو جاتے ہیں بلکہ دل سے اس کی سلامتی کے لیے دعا بھی کرتے ہیں۔

فرحانہ شاہد حسین بھی ایک ایسی ہی پاکستانی ہیں جو امریکا میں بستی ہیں لیکن اپنے ملک میں مسائل کے انبار دیکھ کر روتے ہوئے اس کے لیے دعائیں کرتی ہیں اور آنسو جھوٹ نہیں بولتے ہم پاکستانی اس مٹی کا حق کیسے ادا کرسکتے ہیں۔

ہمارے آنسو جھوٹ نہیں بولتے، ہم پاکستانی اس مٹی کا حق کیسے ادا کرسکتے ہیں ہم تو اب بھی زبان کے سحر میں گرفتار ہیں حالانکہ ہمیں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں اردو زبان کی صورت میں ایک خوب صورت تحفہ ملا جس کی اہمیت کو جانتے ہوئے اب بھارت میں بھی کام ہو رہا ہے، حمزہ ہارون نے ایک بار پھر ہمیں یہ جتا دیا کہ پہلے آپ اپنی عزت کرنا سیکھیے پھر دنیا بھی آپ کی عزت کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔