ذمے دار کون ؟

خالد محمود رسول  ہفتہ 22 اپريل 2023

نصابی کتابوں کا اللہ بھلا کرے، ان کے لکھنے اور لکھانے والوں کی حسن نیّت کی خیر ہو کہ کچی عمروں میں یہ سبق پکا کروا دیا ؛ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔

اس کے دشمنوں کو یہ ملک پہلے دن سے دلی طور پر قبول نہ تھا،اس لیے وہ اس ملک کے خلاف سازشوں میں پہلے دن سے ہی مصروف ہو گئے۔ہم سیدھی سادی قوم اپنے کام سے کام رکھنے میں مصروف، کسی کے لینے میں نہ دینے میں لیکن پھر بھی دنیا کو چین نہیں آیا، ہمیشہ ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف رہی۔

دشمنوں کی ان ہی ریشہ دوانیوں کا کیا دھرا تھا کہ پاکستان کو دولخت کر دیا، اس پر بھی باز نہیں آئے جمہوریت کی چلتی گاڑی کے سامنے بار بار رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں۔

ایک جمہوریت ہی کیا ، دشمن ہماری معیشت سے بھی جلتے ہیں بلکہ ہر وقت کڑھتے رہتے ہیں۔ دور کیا جانا، ہم آئی ایم ایف کے ممبر ہیں، بقول ایک وزیر با تدبیر کوئی بھکاری نہیں ، آئی ایم ایف پر کچھ حق رکھتے ہیں تو ہر نئی حکومت بنتے ہی ان سے قرض کا تقاضا کرتے ہیں ناں۔ بہت سے باقی ملکوں کو یہ توفیق نہیں ہوتی یا پھر ان کی سوجھ بوجھ ہی قابل رحم ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے کی فیوض و برکات سے آگاہ نہیں ہوتے ، تو اس میں ہمارا کیا قصور؟

پچھلے پچاس برسوں میں لگ بھگ بائیس مرتبہ ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے، ہر مرتبہ قرض لے کر لوٹے لیکن اس بار آئی ایم ایف دشمنوں کے کہنے میں آ گیا۔ قرض دینے پر تیار ہی نہیں ہو رہا۔ تمام پیشگی اقدامات پورے کرنے پر اسے ہمارے قرض پر بونس قرض بھی دینا چاہیے تھا لیکن نہیں، اپنے خزانے کی کنجیاں چھپائے بیٹھے ہیں۔ کبھی ایک اعتراض تو کبھی دوسرا، ہماری مذاکراتی ٹیم نے صاف صاف اور بار بار بتایا کہ ہم اتنے گئے گذرے نہیں کہ صرف ان کے ایک سوا ارب پر تکیہ کر کے بیٹھے ہیں۔

اللہ کا کرم اور فضل ہے کہ ایک عالم میں ہمارا بھرم ہے، چین، سعودی عرب اور یو اے ای کو اس سے کہیں زیادہ قرضوں پر منا لیا ہے لیکن آئی ایم ایف دشمنوں کی باتوں میں ایسا پھنس گیا ہے کہ مان کر نہیں دے رہا۔ بقول ہمارے دوست عبدل؛ جناب یہ سب ایک عالمی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ اگر امریکا کو ہماری آج ضرورت ہوتی تو یہ قرض کب کا منظور ہو چکا ہوتا۔ یہ پاکستان کے خلاف سازش ہے جناب سازش، آپ سمجھ نہیں رہے۔

عبدل کی بات بالکل صحیح ہے ہمیں یہ بالکل سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ سب دشمنوں کی کسی سازش کے تحت ہی ہو رہا ہوگا ورنہ ہم ایسا ملک … ہمارے ناقدرے قرض خواہوں کو ہماری قدر معلوم ہوتی تو پاؤں دھو دھو کر نہ پیتے مگر کم از کم خزانے کی کنجیاں سامنے رکھ دیتے کہ آپ پر بے اعتباری کیسی، جب چاہیں جتنا چاہیں قرض وصول کر لیں۔ انھیں معلوم ہے کہ جب بھی کوئی قرض واجب الادا ہوا ہم نے اسی لمحے ایک نیا قرض لے کر پرانے قرض کو چکا دیا۔

سود بھی اسی تندہی سے ادا کیا، سو صاحبو ہم ایسا کھرا کسٹمر آئی ایم ایف کو کہاں ملے گا۔ اس معیار پر لے دے کر ارجنٹائن ہے یا ہم یا پھر کچھ دور سری لنکا۔ ایسے کھرے اور مستقل گاہک کی قدر افزائی کے بجائے دشمنوں نے اسے ورغلا لیا۔ اڑھائی ماہ ہونے کو آئے، ابھی تک لٹکایا ہوا ہے بقول فیض احمد فیض؛

ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں

اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے

دشمنوں کو اللہ سمجھے، انھیں شاید کوئی اور کام دھندا نہیں۔ پچھلے سوا سال سے ہماری سیاست کو بھی نظر لگا دی۔ بھلی چنگی حکومت چل رہی تھی کہ اچانک’کچھ‘ ہوا۔ اب اس کے بعد چل سو چل کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے ۔ کہانی میں اب ایک نیا ٹوسٹ آ گیا ہے ، مذاکرات ۔ اعلیٰ عدالت کا بھی مشورہ ہے کہ مل بیٹھیں، کوئی حل نکال لیں تو عدالت بھی کچھ گنجائش نکالنے کی کوشش کرے گی۔

پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ہم تو کب سے کہہ رہے ہیں کہ ہم سے الیکشن کی تاریخ طے کریں۔ دوسری جانب وزیر اعظم کا خیال ہے کہ مذاکرات ہونے چاہیں لیکن مولانا فضل الرحمان اور شاہ زین بگتی کا خیال ہے ان تلوں میں تیل ہے ہی نہیں تو مذاکرات کاہے کے۔ جماعت اسلامی نے بھی اپنی سی کوششیں شروع کر دی ہیں ۔ میڈیا پر رونق ہے عوام مصروف ہیں، عید کا ہنگام ہے ، ایک کامیاب ملک اور اس کے عوام کو اور کیا چاہیے۔

ایسا نہیں کہ حکومت اس دوران بے خبر تھی کہ عوام کو ریلیف کی ضرورت ہے۔ ریاست اور سیاست بچاؤ میچ کا نتیجہ جو بھی نکلے حکومت کو اپنی ترجیحات کا خوب اندازہ ہے۔

عدالتی فیصلوں کے باوجود حکومت نے پنجاب میں الیکشن اخراجات کے لیے21 ارب نہیں دیے لیکن عوام کے مفت آٹے کی فراہمی کے لیے71ارب روپے خدا جانے کہاں کہاں سے اکٹھے کر دیے۔ اب دشمن لاکھ کہتے پھریں کہ آٹا سپلائی میں کئی جانیں چلی گئیں، بد نظمی ہوئی لیکن دشمنوں کے برا چاہنے سے کیا ہوتا ہے ، وہی ہوتا ہے جو منظور حکومت ہوتا ہے۔

الیکشن کے سلسلے میں بھی ایک وہ چاہت ہے جو اپوزیشن کی ہے، ایک وہ ہدایت ہے جو عدالت کی ہے لیکن دوسری طرف حکومت مصرہے کہ ہوگا وہی جو منظور حکومت ہو گا۔ دشمنوں کے بقول ہمارے ہاں تماشا لگا ہوا ہے لیکن انھیں کیا معلوم کہ جمہوریت کس کس کے لیے بہترین انتقام ہے۔صد شکر کہ ہماری نصابی کتابوں نے ہمارے ذہن صاف کر رکھے ہیں۔

ہمیں معلوم ہے کہ دشمنوں کی سازش اپنا جوبن دکھا رہی ہے ورنہ ہمارے سیاست دان میر درد کے سے مقام پر نہ سہی کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں لیکن عرفان کے اس مقام سے زیادہ دور بھی نہیں۔ رہے پریشان حال عوام توانھیں اپنے نصابی سبق یاد ہیں کہ ہمارے ملک میںجب بھی جہاں بھی کچھ غلط ہوا وہ دشمنوں کی سازش تھی، آج بھی اگر کچھ غلط ہورہا ہے تو دشمنوں کی ہی کارستانی ہو گی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔