کیا انتخابات سے دور رکھنے کیلیے عمران خان پر مقدمات درج کیے جارہے ہیں؟ لاہور ہائیکورٹ

محمد ہارون  منگل 2 مئ 2023
(فوٹو : فائل)

(فوٹو : فائل)

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجفی نے کہا ہے کہ ایک ایسا شخص جس پر زندگی بھر کوئی مقدمہ نہ ہو اقتدار سے نکلتے ہی اس پر اتنے مقدمات کیوں درج ہوگئے؟ ایسی صورتحال میں عدالتیں خاموش تماشائی نہیں بن سکتیں۔

سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے خلاف 121 مقدمات میں کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواست میں ذاتی حیثیت میں لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ  نے درخواست پر سماعت کی۔

فاضل جج نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ ہم نے آپ کی درخواست پڑھی ہے، پٹیشن اچھی ڈرافٹ کی گئی ہے لیکن درخواست میں زیادہ تر پی ٹی آئی کی کارکردگی کے بارے میں لکھا ہے۔

جسٹس باقر اور جسٹس عالیہ نیلم نے عمران خان کے وکیل کو ہدایت دی کہ پٹیشن کے پیرا 7 سے آگے پڑھیں کیوں کہ اس سے پیچھے تو آپ نے درخواست گزار کے بارے میں ہی بتایا ہے۔

جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ کیا 121 ایف آئی آر میں عمران خان نامزد ہیں ؟ عمران خان کے وکیل کا موقف تھا کہ عدالت مجھے پندرہ منٹ کا وقت دے میں اپنا سارا کیس عدالت کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ حکومت طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔

سرکاری وکیل نے عمران خان کے خلاف ملک بھر میں درج مقدمات کی تفصیلات عدالت میں جمع کروادیں جس کے مطابق عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں 31، لاہور میں 30 ، فیصل آباد میں 14، بھکرمیں 6، شیخوپورہ میں 3، گجرانوالہ میں 2، جہلم میں 3، اٹک میں 4، راولپنڈی میں 10، بہاولپور میں 5، رحیم یار خان میں چار اور چکوال میں دو مقدمات درج ہیں۔

رپورٹ کے مطابق عمران خان پر کوئٹہ، کراچی، وزیر آباد، میانوالی، ملتان، بہاولنگراور نارروال میں ایک ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

عمران خان کے بیرسٹر سلمان صفدر کا موقف تھا کہ عمران خان پر سیاسی بنیادوں پر مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ مقدمات کو خارج کروانا چاہتے ہیں تو وہ نکات بیان کریں۔

یہ بھی پڑھیں : عمران خان کا 120 سے زائد مقدمات کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع

وکیل عمران خان کا موقف تھا کہ عمران خان کے خلاف ایک ہی مدعی یعنی پولیس کی مدعیت میں مقدمات درج کیے جارہے ہیں جو بھی واقعہ ہوتا ہے مقدمہ عمران خان پر درج کیا جاتا ہے اس کی مثالیں موجود ہیں، ظل شاہ قتل کیس، وزیر آباد حملہ کیس، ارشد شریف قتل کیس سمیت دیگر مقدمات کی مثالیں موجود ہیں۔

عدالت نے عمران خان کے وکیل کو ہدایت دی کہ آپ کیسز کی نشاندہی کری جب کہ جسٹس طارق سلیم نے استفسار کیا کہ آپ عمومی باتیں کررہے ہیں۔ وکیل عمران خان کا موقف تھا کہ کیسز ڈسچارج ہورہے ہیں ضمانتیں ہورہی ہیں کوالٹی تو اس سے پتا چل جاتی ہے، یہ کیس 71 سالہ شخص کا ہے جو پاکستانی شہری ہے اور اسے ہر روز ضمانت لینا پڑتی ہے جو ممکن نہیں ہے، ایک واقعے پر ایک سے زیادہ مقدمات درج کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے یہ سب سیاسی بنیادوں پر ہو رہا ہے تاکہ الیکشن نہ ہوں اور کیمپین نہ کی جا سکے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ ان مقدمات میں ایک ایسا مقدمہ بھی ہے جس میں 2500 افراد کے خلاف کیس بنایا گیا لیکن اس کیس میں صرف عمران خان نے ضمانت لی، اس وقت ایک روٹ لگا ہوا ہے جو ہاتھ آتا ہے اسے لاہور، کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ کا چکر لگوایا جاتا ہے یہ کوئی بس کا روٹ نہیں ہے بلکہ موجودہ دور میں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔

جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ یہ روٹ پہلی بار نہیں لگا، ماضی میں بھی ایسے روٹ لگتا تھا جو کہ افسوس ناک ہے، جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ آپ ایف آئی آر کی نشاندہی کریں جس میں عمران خان نامزد ہیں، دیگر رہنماؤں پر مقدمات درج ہونا اور بات ہے درخواست گزار کی حد تک وہ مقدمات کی کاپیاں دیں۔

جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ ابھی آپ کے دلائل عمومی ہیں۔ جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آپ پوائنٹ ٹو پوائنٹ بات کریں۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ عمران خان کے خلاف کتنے مقدمات درج ہیں؟

وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 25 مقدمات میں عبوری ضمانتیں کروا لی ہیں۔ جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ آپ نے مقدمات کا اخراج نہیں مانگا؟ وکیل عمران خان کا موقف تھا کہ مقدمات کے اخراج کی استدعا میں نے ہٹا دی ہے جسٹس عالیہ نیلم نے نشاندہی کی کہ اگر آپ مقدمات کا اخراج مانگتے تو جو مقدمات خارج ہوچکے ہیں اس پر آفس کا اعتراض لگ جاتا ہے۔

جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں اور استدعا کیا کررہے ہیں ؟ وکیل عمران خان کا موقف تھا کہ میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا کہ 3 ماہ میں 140 مقدمات درج ہوگئے ہوں، اب تک ہم نے 25 مقدمات میں ضمانت لے لی ہے، وکیل عمران خان کا مزید موقف تھا کہ عمران خان کے خلاف انہیں کوئی فنانشل کرپشن نہیں ملی تو اس کے بعد انہوں نے فوج داری مقدمات درج کر دئیے اور دہشت گردی، غداری اور مذہب سے متعلق سنگین دفعات کو مقدمات کا حصہ بنایا گیا ہے۔

جسٹس عالیہ نے کہا کہ درخواست گزار کو سمن بھیجا گیا لیکن سمن کی تعمیل نہیں ہونے دی گئی، کیا رکاوٹ نہیں ڈالی گئی؟ سمن تعمیل کی راہ میں رکاوٹ کا ایک اور پرچہ ہو گیا۔ جسٹس عالیہ نے کہا کہ کیا وارنٹ کے تممیل والے دن کوئی پولیس افسر زخمی نہیں ہوا؟

عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ پولیس افسر زخمی ہوا ہوگا اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر پولیس افسر زخمی ہوا ہوگا تو اس کے بارے میں انویسٹی گیشن درکار ہے، انویسٹی گیشن افسر بتائے گا کہ کیا ہوا اس لیے انویسٹی گیشن ہونے دیں۔

وکیل عمران خان کا موقف تھا کہ عمران خان کو بطور سابق وزیر اعظم سیکیورٹی بھی نہیں دی گئی، کاغذوں میں عمران خان کو سیکیورٹی دے گئی ہے جو کہ حقیقت نہیں، عمران خان جھوٹے کیسز میں انصاف لینے جان ہتھیلی پر رکھ کر روز عدالت آتے ہیں۔

جسٹس باقر نے استفسار کیا کہ جب سے کیس لارجر بینچ کے سامنے لگا ہے کوئی نئی ایف آئی آر ہوئی ہے؟ وکیل عمران خان کا موقف تھا کہ نہیں اب کوئی نئی ایف آئی آر نہیں ہوئی ہر کیس میں عمران خان کو فٹ کردیا جاتا ہے، جب وزیر آباد واقعے کا ملزم گرفتار ہوا تو کسی کے کہنے پر ملزم کا اعترافی بیان دے کر ٹی وی چینلز پر نشر کردیا جاتا ہے؟

وکیل عمران خان کا مزید موقف تھا کہ جب سے نگران حکومت آئی ہے ہمیں بطور سابق وزیر اعظم سیکیورٹی نہیں ملی، سکیورٹی کاغذات میں موجود ہے مگر حقیقت میں سکیورٹی نہیں ہے ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر روز عدالت جاتے ہیں اور ہمیں عدالت کے اندر نہیں جانے دیا جاتا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی ساری باتیں ٹاک شو کے لیے اچھی ہیں مگر میں تو قانونی نکات ہی مرتب نہیں کر پا رہا آپ کو درخواست میں ترمیم کرکے دوبارہ سے قانون کے دائرہ اختیار میں لانا چاہیے۔

وکیل عمران خان نے آگاہ کیا میں پہلے ہی درخواست میں ترمیم کرچکا ہوں میں نے مقدمات کے اخراج کی استدعا نکال دی ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری وکیل صاحب اس صورتحال میں عدالتیں خاموش تماشائی نہیں بن سکتیں، ایک ایسا شخص جس پر زندگی بھر کوئی مقدمہ نہ ہو اقتدار سے نکلتے ہی اتنے مقدمات کیوں درج ہوگئے؟

جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ کیا انہیں انتخابات سے دور رکھنے کے لیے ایسا ہورہا ہے؟ جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ پاکستان بننے کے بعد کتنے لوگوں پر 150 مقدمات درج ہوئے؟ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ 150 مقدمات درج کر دیے جائیں اور کہیں کہ قانون کا سامنا کریں۔

دوران سماعت سابق وزیر اعظم عمران خان روسٹرم پر آئے اور عدالت سے کچھ کہنے کی اجازت مانگی۔ عدالت نے کہا کہ کیا آپ اپنے وکیل کے دلائل سے مطمئن نہیں ہیں؟ عمران خان نے کہا کہ بتایا کہ بیرسٹر سلمان صفدر بہترین کیس پیش کررہے ہیں، اسلام آباد دہشت گری کی عدالت میں مجھے قتل کا منصوبہ بنایا گیا تھا اگر میں اندر چلا جاتا تو یہ مجھے قتل کر دیتے، میں آج آپ کے سامنے کہہ رہا ہوں کہ یہ مجھے قتل کرنے کا تیسرا پلان بنا رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کو تمام مقدمات میں شامل تفتیش ہونے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ہدایت کی کہ جمعہ کے روز 2 بجے پولیس تفتیش جوائن کریں۔

بنچ نے پنجاب حکومت کو تفتیش مکمل کر کے 8 مئی تک مکمل رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی بھی ہدایت کی اور کیس کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کردی۔

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔