زرد صحافت

امتیاز بانڈے  اتوار 7 مئ 2023

صحافی عموماً ان کو کہا جاتا ہے جو صحافت یا اس سے متعلقہ شعبے جیسے مواصلات یا انگریزی میں بیچلر ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ کچھ لوگ صحافت میں نشریاتی یا تحقیقاتی رپورٹنگ جیسے شعبے میں ماسٹرز حاصل کرنے کے بعد شامل ہوتے ہیں۔

صحافت کسی بھی معاملے یا خبر کے بارے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے اور صحافت بطور پیشہ اختیار کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو کہ تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو حقیقت سے باخبر رکھنے کا ہے۔

کوئی بغیر ڈگری کے بھی صحافی بننا چاہے تو کم ا ز کم موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اس کے پاس کمپیوٹر کے استعمال اور لکھنے کی کچھ بنیادی مہارتیں ہونی چاہئیں۔ ایک صحافی کے لیے روایتی قابلیت جیسے انگریزی مواصلات، تحریر اور تخلیقی صلاحیتیں ضروری ہیں۔

صحافت کی ایک اصطلاح جسے ’’ (yellow journalism) ‘‘ یا ’’زرد صحافت ‘‘ پکارا جاتا ہے، اخباری رپورٹنگ کا ایک انداز تھا جس میں حقائق کو پیش کرنے کے بجائے خبر کو سنسنی خیز بنا کر لوگوں تک پہنچانے پر زور دیا جاتا تھا۔

19 ویں صدی کے آخر میں اپنے عروج کے دور میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کو کیوبا اور اسپین کو فلپائن میں جنگ میں دھکیلنے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ زرد صحافت کا بھی بہت عمل دخل رہا۔ توسیعی طور پر، زرد صحافت کی اصطلاح آج کل کسی بھی صحافت کی مذمت کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو خبروں کو غیر پیشہ ورانہ یا غیر اخلاقی انداز میں پیش کرتی ہے۔

ایسی خبریں جو بہتر طریقے سے رپورٹ شدہ خبروں کو پہنچانے کے بجائے لوگوں کی توجہ مبذول کرنے پر مرکوز ہوں انھیں زرد صحافت کہا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں کسی بھی خبر، تصویر یا وڈیو کو فوری طور پر لوگوں تک پہنچانے کا سب سے موثر ذریعہ واٹس ایپ ہے جسے Statistaکے حالیہ سروے کے مطابق دنیا بھر کے تقریباً دو سو کروڑ فعال صارفین استعمال کرتے ہیں۔

واٹس ایپ کو ایک برنس مین اور بیوروکریٹس سے لے کر ایک بس ڈرائیور اور حتیٰ کہ مزدوری کرنے والا شخص بھی استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے بہت معمولی اور چھوٹے چھوٹے واقعات کی بھی وڈیوز وائرل ہو جاتی ہیں ،کیونکہ واٹس ایپ استعمال کرنے والے نوے فیصد بناء کسی تصدیق کے ہر وڈیو یا مسیج کو فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے استعمال کے بعد پچھلے چند سالوں میں ’’صحافیوں‘‘ کی ایک نئی کھیپ متعارف کروائی گئی ہے جو نہ صرف تعلیمی بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی صحافت کی الف، ب تک سے ناواقف ہیں لیکن خود کو صحافی گردانتے اور کہلواتے ہیں۔ ان کی تعلیمی قابلیت معلوم کی جائے تو کچھ ایسے ہیں، جنھوں نے صرف میٹرک یا انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی ہوگی، اگر ان کی رپورٹنگ کی بات کی جائے تو انگریزی تو کجا انھیں اردو بھی ٹھیک سے نہ بولنا آتی ہے اور نہ لکھنا، لیکن پھر بھی رپورٹنگ کرتے ہیںکیونکہ ان کا مقصد صحافت نہیں بلکہ بلیک میلنگ ہوتاہے۔

یہ صحافی نما لوگ مختلف مضحکہ خیز ناموں سے ڈمی اخبار چھپوا کر اور واٹس ایپ پر عجیب و غریب ناموں سے نیوز گروپس بنا کر صرف سرکاری ملازمان و افسران اور خصوصاً پولیس کے افسران و ملازمان کو بلیک میل کرنے میں سرگر م عمل رہتے ہیں، کیونکہ انھیں اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ پولیس کا محکمہ ہی ایسا ہے کہ جہاں سزا پہلے سنائی جاتی ہے اور انکوائری بعد میں کروائی جاتی ہے، اگر کہیں ان کی ایک جھوٹی خبر سے کوئی پولیس کا افسر یا ملازم معطل ہو گیا تو سمجھیں کہ ان کی ’’ مارکیٹ ویلیو ‘‘ بڑھ گئی۔

پھر دیگر کرپٹ پولیس کے افسران و ملازمان ان جیسے صحافی نما لوگوں سے تعلقات بہتر رکھنے کے لیے ان کا ’’ہفتہ یا ماہانہ وظیفہ‘‘ باندھ دیتے ہیں۔ ایسے صحافی نما لوگ پہلے کسی بھی علاقے میں ہونیوالے جرم کی ادھوری اور سنسنی خیز سرخی بنا کر گروپس میں وائرل کرتے ہیں اور آخر میں لکھ دیتے ہیں۔

’’ تفصیل جلد جاری کی جائے گی۔‘‘ اب جس شخص یا ادارے سے متعلق یہ معاملہ ہوتا ہے اگر وہ اس رپورٹر سے ’’رابطہ‘‘ کر لے تو پھر ’’ تفصیل ‘‘ کبھی شایع نہیں ہوتی، جس میں ’’ عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ‘‘ اور جہاں کسی خبر کے ساتھ آپ ’’ دبنگ‘‘ لکھا ہوا دیکھ لیں تو سمجھ جائیں کہ اس رپورٹر کے اس شخص سے کیسے ’’ تعلقات ‘‘ ہیں جس کے حق میں خبر چلائی جا رہی ہے۔

صرف وہ سرکاری افسران جو کسی غیر اخلاقی یا غیر قانونی کام میں شامل نہ ہوں ان جیسے صحافی نما لوگوں سے نہیں ڈرتے لیکن ایسے افسران و ملازمان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ایسی رپورٹنگ یا صحافت کو زرد نہیں بلکہ ’’ سیاہ صحافت‘‘ (Black Journalism) کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے ،کیونکہ زرد صحافت میں تو خبر کو سنسنی خیز بنا کر پیش کرنا اور اخبار بیچنا یا اپنے گروپ کی فالوونگ کو بڑھانا مقصود ہوتا ہے لیکن ’’سیاہ صحافت‘‘ میں صرف اور صرف جھوٹی خبر چلا کر کسی کی کردار کشی کرنا اور اس خبر سے ڈرا کر بھتہ خوری کرنا مقصود ہوتا ہے۔

حیرت تو یہ ہے ایسے نام نہاد صحافیوں کو چند اعلیٰ سرکاری افسران بھی اپنے دفاتر میں بٹھا کر چائے پلاتے ہیں، جس کا مقصد ان کے ایک جانب اپنی قصیدہ خوانی کروانا او ر دوسری جانب اپنے کچھ مخالف کے خلاف خبریں چلوانا بھی مقصود ہوتا ہے۔ ایسے افسران ان صحافیوں کے ’’ کچھ چھوٹے بڑے کام ‘‘ بھی کر دیتے ہیں جن سے ان کا کچن کا خرچہ پورا ہوجاتا ہے۔

مجھے ایک سینئر صحافی نے جس سے میری گزشتہ بیس سالوں سے دوستی ہے بتایا کہ ایک دن کراچی کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے کہا کہ آپ کی برادری کے کچھ افراد میرے پاس آتے ہیں اور کراچی کے تھانوں میں ہیڈ محرر اور ایس ایچ اوز لگوانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے یہ فرمائش ’’ فی سبیل اللہ ‘‘ تو نہیں کی جاتی ہو گی۔ ایسے ایس ایچ اوز یا ہیڈ محررز ان حضرات کے تمام ’’ مفادات ‘‘ کا خیال رکھتے ہیں۔

اس وقت سوشل میڈیا پر ایسے جعلی صحافیوں اور رپورٹرز کی بھر مار ہے جن کا ذریعہ معاش ہی بلیک میلنگ ہے۔ پولیس کو خصوصاً اس لیے ٹارگٹ کیا جاتا ہے کہ زیادہ تر آرگنائزڈ جرائم چلتے ہی پولیس کی سرپرستی میں ہیں۔ ایسے رپورٹرز ان جرائم کی نشاندھی اس لیے نہیں کرتے کہ انھیں ان جرائم سے نفرت ہے بلکہ وہ ان جرائم پیشہ لوگوں سے اپنا ’’حصہ‘‘ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت کراچی میں سب سے زیادہ پیسہ گٹکا ، ماوا اور چھالیہ وغیرہ کی فروخت سے کمایا جا رہا ہے۔

کسی بھی علاقے میں ’’سمجھدار‘‘ پولیس افسر کسی آرگنائزڈ کرائم کی ’’موکل‘‘ دیتے ہوئے، جرائم پیشہ شخص سے اس بات کی ضمانت لیتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ’’ برساتی صحافیوں ‘‘ کو سنبھالنا ان کی ذمے داری ہے۔ یعنی وہ جرائم پیشہ شخص ایسے تمام نام نہاد اور جعلی میڈیا گروپس کے برساتی صحافیوں کو باقاعدگی سے ان کا حصہ پہنچاتا ہے تاکہ اس جرم کی خبر کسی گروپ میں نہ چلائی جا سکے۔

آرگنائزڈ کرائم کے ختم نہ ہونے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے نہ صرف پولیس کی روزی روٹی چل رہی ہے بلکہ بے شمار ڈمی اخبارات، سوشل میڈیا نیوز گروپس کے رپورٹرز کی روزی روٹی بھی چل رہی ہے۔

صوبائی حکومت کو اور خصوصاً پولیس کے اعلیٰ افسران کو چاہیے کہ وہ آرگنائزڈ کرائم کی بیخ کنی کے اقدامات کرتے ہوئے ایسے جعلی صحافیوں اور ان کے بنائے گئے نیوز گروپس اور ڈمی اخبارات کے خلاف بھی کارروائی کریں،کیونکہ یہ نام نہاد نیوز گروپس اور جعلی صحافی ان جرائم کے اڈوں سے ماہانہ اور ہفتہ وصولی کرتے ہیں خبر صرف ان کے خلاف چلاتے ہیں جہاں سے ان کی ’’حوصلہ افزائی‘‘ نہ کی گئی ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔