سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 21 مئ 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

پتا نہیں ’مبارک‘ صاحب نے ایسا کیوں کیا۔۔۔!
خانہ پُری
ر ۔ط ۔م

تقریباً دو ماہ پیش تر جامعہ کراچی کے ایک طالب علم کے توسط سے ہمارا رابطہ ایک چینی محقق محمد مبارک سے ہوا، جو وسطی چین کی شان شی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سطح کی ایک تحقیق کر رہے ہیں اور ان کا موضوع ’’مہاجر‘‘ یا اردو بولنے والے ہیں۔ محمد مبارک اسی تحقیق کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ چوں کہ چینی زبان ہی جانتے تھے، اس لیے یہاں موجود اپنے ایک عدد پاکستانی مترجم کی مدد سے لوگوں سے ہم کلام ہوتے۔

ایک چینی باشندے کی اپنے شہر میں موجودگی اور ان کی یہ انفرادیت جانتے ہی ہماری پہلی خواہش تھی کہ ہم ’ایکسپریس‘ کے لیے ان کا ایک انٹرویو ضرور کرلیں کہ صحافی تو ایسے ہی مختلف اور منفرد چیزوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

لیکن پتا یہ چلا کہ انھیں بھی مہاجروں کے حوالے سے مختلف مسائل اور ان کے پس منظر اور پیش منظر کے تعلق سے ہمارا ’انٹرویو‘ کرنا تھا۔۔۔ سو طے یہ ہوا کہ چلیے ایسے ہی سہی، پہلے وہ اپنے سوالات کرلیں، جب ان کی تشفی ہو جائے گی، تو پھر ہم ان کی تحقیق اور کراچی کے دورے وغیرہ کے حوالے سے تھوڑی بہت گفتگو کر لیں گے۔

8مارچ 2023ء کو وہ ہمارے دفتر ملنے کے لیے تشریف لے آئے۔ ہم نے انھیں خوش آمدید کہا اور مہاجر شناخت اور اس کے حوالے سے اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربات سے لے کر سارے مسائل اور معاملات سے آگاہ کیا۔

ہمیں ان کے مقامی مترجم نے بتایا کہ انھیں کراچی میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بڑی دقت اور دشواریوں کا سامناکرنا پڑا، کیوں کہ یہاں لوگ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کافی خوف زدہ اور بہت محتاط تھے۔

ہم نے کہا ہمیں تو خوشی ہے کہ چلیے آپ نے ہمیں اتنی اہمیت دی اور ہماری قوم کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اس موضوع سے انصاف کرنے کے لیے بہ نفس نفیس خود کراچی تشریف لائے، تو ہمارا تو فرض ہے کہ آپ کی جو بھی معاونت کر سکیں وہ کریں، دفتری ذمہ داریوں اور زندگی کی دیگر مصروفیات کی خیر ہے، آپ اطمینان سے اپنے سارے سوالات اور موضوعات کے حوالے سے ہم سے گفتگو فرمالیجیے، ہم حاضر ہیں۔

ہم نے ان سے یہ ضرور پوچھا کہ آخر انھیں کیوںکر اس منفرد موضوع کی طرف رغبت ہوئی؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر پاکستان سے باہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کے چار صوبے ہیں اور اس ملک کی یہی چار بڑی ثقافتیں ہیں، جب کہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں رہنے والے جو زیادہ تر اردو بولتے ہیں اور باقی چار قوموں سے بالکل مختلف ہیں۔

اس کی موجودگی کا کبھی تذکرہ ہی نہیں ہوتا اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ان پر تحقیق کریں، کیوں کہ تاریخ میں پتا چلتا ہے کہ اس ’پانچویں قوم‘ کی بھی اس ملک کے لیے بڑی جدوجہد اور خدمات ہیں، اس لیے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے کردار، طرزِ معاشرت اور مسائل کے حوالے سے حقائق تلاش کریں۔

سو اُس روز مبارک صاحب نے اپنے مترجم کی مدد سے کوئی ایک گھنٹے سے زائد وقت ہم سے گفتگو کی۔ انھوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ پہلے وہ ہم سے گفتگو کریں گے اور اس کے بعد ہم ان سے اپنا انٹرویو کر سکیں گے، لیکن اپنی گفتگو مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ہم سے آئندہ ایک آدھ روز میں ملاقات کا کہا اور رخصت لی۔ جس کے بعد ہم ان کا انتظار ہی کرتے رہے۔

دو چارو روز کے بعد ہی حسب سابق ان کے رابطہ کار اور پاکستانی مترجم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، کوئی جواب ہی نہیں آیا۔ پھر جواب آیا، تو پہلے ان کے مترجم نے اپنی بیماری کا عذر کیا، پھر جلد رابطہ کرنے کا کہا ، لیکن اس کے بعد مزید کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔۔۔ پھر تو مبارک صاحب چین لوٹ گئے ہوں گے، اس لیے ہمارے رابطہ کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔

ہمیں اس تمام رویے کا بے حد افسوس ہوا۔ ہم تو اپنی سادگی، مہمان نوازی اور ایک اس امید پر کہ چلیے ہم اپنے اخبار کے لیے ایک منفرد اور اچھا انٹرویو کر سکیں گے، انھیں وقت دیا، لیکن ہمارے ساتھ یہ وعدہ خلافی کی گئی۔ اگرچہ مبارک صاحب کو انٹرویو دینے میں کچھ تامل تھا، لیکن ہم نے انھیں یہ یقین دلایا تھا کہ وہ چوں کہ مارچ کے آخر میں وطن واپس لوٹنے والے ہیں، تو ہم ان کے چین پہنچ جانے کے بعد ہی یہ انٹرویو شایع کریں گے۔

جس پر انھوں نے رضا مندی ظاہر کی تھی، جو شاید اس دباؤ میں کی ہوگی کہ اگر وہ براہ راست انکار کریں، تو مبادا ہم ان سے گفتگو ہی کرنے سے انکار کر دیں گے، جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں تھا، وہ ہمیں منع کر دیتے، ہم تو تب بھی ان سے بات چیت کر ہی لیتے۔۔۔ اللہ جانے یہ مبارک صاحب کی ہم کراچی والوں یا پاکستانیوں پر عدم اعتمادی تھی یا وہ اور کسی وجہ سے بہت زیادہ عدم تحفظ یا کسی مصلحت کا شکار تھے کہ انھوں نے اس طرح کا رویہ اپنایا۔

انتہا تو یہ ہے کہ انھوں نے ہمارے ساتھ ایک تصویر لی تھی، انھوں نے وہ تک ہمیں عنایت نہیں فرمائی اور ہمیں یہ گمان تک نہ تھا کہ وہ اور ان کے پاکستانی مترجم یہاں سے پلٹ کر کوئی رابطہ تک نہیں رکھیں گے، اس لیے ہم نے اپنے موبائل سے تصویر لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

اس سے یہ ہوا کہ ہم نے خوامخواہ کی ایک کوفت اپنے پلّے لی، ایک اور ناحق اور فضول کا افسوس پالا۔۔۔ اور دوسرے کے خراب رویے کے وبال سے اپنے دل کو بوجھل کیا۔

۔۔۔

صد لفظی کتھا
ذوق
رضوان طاہر مبین

’’طلسم ہوش رُبا‘‘
’’باغ وبہار‘‘
’’فسانۂ عجائب‘‘
’’دیوان غالب‘‘
’’امرائو جانِ ادا‘‘
’’آبِ حیات‘‘
’’غبارِ خاطر‘‘
’’کلیات اقبال‘‘
’’پطرس کے مضامین‘‘
’’آگ کا دریا‘‘
’’خدا کی بستی‘‘
’’شہاب نامہ‘‘
’’یادوں کی برات‘‘
’’نسخہ ہائے وفا‘‘
’’چراغ تلے‘‘
’’آوازِ دوست‘‘
’’اردو کی آخری کتاب‘‘
نوجوان نے یہ کتابیں کائونٹر پر لا کر رکھیں۔
’کیا خوب ادبی ذوق ہے۔۔۔!‘ میں نے سوچا۔
’’اور کوئی بڑی کتابیں نہیں۔۔۔؟‘‘ نوجوان نے پوچھا۔
’’یہ ساری بڑی کتابیں ہی تو نکالی ہیں آپ نے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں دراصل ویڈیو بناتا ہوں۔۔۔ پس منظر میں یہ کتابیں بہت اچھی لگتی ہیں۔۔۔!‘‘
نوجوان نے جواب دیا۔

۔۔۔

کیا اردو اچھی نہیں ہے ؟
عائشہ محمود، ملتان

مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی جب میرے بیٹے نے مجھ سے یہ معصومانہ سوال کیا کہ ہماری زبان کیا اچھی نہیں ہے، کیا اردو اچھی نہیں ہے؟

میں نے اس سے پوچھا بیٹا آپ کیوں پوچھ رہے ہو؟

اس نے معصوم سے انداز میں کہا اسکول میں ٹیچر کہتی ہیں، انگلش بولو کلاس میں کسی کو اردو نہیں بولنی، جس نے اردو بولی اس کو سزا دی جائے گی، اب گھر میں بھی سب آپ بھی کہتے ہیں کہ انگلش کے الفاظ بولا کرو، تو کیا ہماری اردو زبان بالکل اچھی نہیں کہ ہم نہ بولیں؟ اس کے اس سوال نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کیا ہم واقعی ہی اپنی زبان کو اتنا نظراندازکر رہے ہیں؟

بچے کا سوال اتنا مشکل نہیں تھا، لیکن اس کو جواب دینا کافی مشکل بن رہا تھا، کیوںکہ اسکول میں اس کے ٹیچر اسکول والے سب بچوں کو یہی مجبور کرتے ہیں کہ انگلش بولی جائے، اس کو انگلش میں کچھ سبق سمجھ نہ آئے، لیکن انگریزی بولنی ضرور ہے، انگلش کے الفاظ استعمال کر کے بولنا اور اپنی بات کو سمجھا نہ پائے، بچہ لیکن اسکول والے پھر بھی بضد ہیں کہ بچے انگلش ہی بولیں گے، سب اسکولوں کا قصور نہیں والدین خود ہی چاہتے ہیں کہ بچوں کو انگلش میڈیم سکول میں داخل کرایا جائے اور ہمارے بچے فر فر انگریزی بولیں۔

میرے خیال سے ہمارے معاشرے میں اور ہمارے ملک میں انگریزی بولنے والے بچے کو ہی عقل مند ہونے کا ٹائٹل دے دیا گیا ہے۔ بے شک ایک روانی سے انگریزی بولنے والے میں قابلیت نہ ہو، لیکن پھر بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جو انگریزی بولتا ہے، شاید وہی ایک کام یاب اور لائق بچہ ہے یہی آگے ترقی کرے گا اور جس کو اس کے مقابلے میں اردو پسند ہے یا یہ انگریزی بولنا نہیں چاہتا، تو اس کو یہی کہا جاتا ہے کہ شاید یہ پینڈو ہے شاید اس کو پڑھائی سمجھ میں نہیں آتی۔۔۔ اور یہ نکما اور نا لائق ہے۔

اسکول نہیں، ہم والدین اور گھر میں بھی بچے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔

لیکن اگر سوچا جائے تو ہماری اردو زبان ایک بہت ہی خوب صورت اور وسیع زبان ہے۔ اب انگریزی بولنے والے لوگوں نے جدید تعلیم اور تحقیق پر توجہ دی اور ساتھ ہی اپنی زبان کو عزت دی، اس طرح ان کی زبان بین الاقوامی زبان کہلائی۔ دوسری طرف ہم احساس کم تری کا شکار رہے، ایک طرف تعلیم کے میدان میں پیچھے رہے تو دوسری طرف ہمیں اپنی زبان استعمال کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ ہم ذہنی طور پر انگریزی کے غلام ہو کے رہ گئے۔ ہم اپنی زبان کو بولنے کے قابل نہیں رہے اپنے بچوں اردو زبان سکھا نہیں رہے۔

ہمارے دماغ اس طرح کے ہوچکے ہیں کہ جو بچہ یا جو انسان انگلش نہیں بولتا شاید وہ پڑھا لکھا انسان نہیں ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے، ہم اگر اس کو ’بین الاقوامی زبان‘ نہیں بنا سکتے، تو کم از کم ایک قومی زبان تو بنائیں، اپنے بچوں کو اس طرح سے پڑھائیں کہ وہ اردو زبان جو بھی اچھا سمجھیں، اب مرحلہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ کچھ الفاظ ایسے ہیں اردو کے عام بولے جانے والے، جو بچے کو سمجھ میں نہیں آتے۔ اگر ہم اسے اردو میں بتائیں تو اس کا معنی نہیں سمجھتے۔ ہم خود بحیثیت قوم اپنی قومی زبان کو زوال کا شکار کر رہے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے زبان کی قدر کریں اور اس کی عزت کریں اور ساری دنیا میں اس کی عزت بنائیں نہ کہ ہم خود اس کو ترک کردیں۔ یہی ایک زندہ قوم کی نشانی ہے کہ وہ اپنے اقدار اور اپنے روایات اپنی زبان کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

۔۔۔

اکیلے رہنے کا دکھ۔۔۔
محمد علم اللہ، نئی دلی

گھر سے دور کمرے میں اکیلے بیٹھے رہنے کا دکھ کیا ہوتا ہے، اسے بھرے ہوئے لوگ کبھی نہیں بیان کر پائیں گے۔ ان کی ان دیواروں پر گھومتی چھپکلیوں سے کبھی ’بات‘ نہیں ہوگی۔ وہ کبھی اکیلے نہیں ہونا چاہیں گے۔ وہ کبھی چھت سے جھڑتے پلستر کو سلوموشن میں دیکھ لینے والی آنکھوں والے نہیں ہو سکتے۔

ان کا برادہ جھڑنا کسی یاد کے واپس آنے کی طرح ہے۔ میں یہاں اس چھت والے کمرے میں بیٹھ کر اس طرح بنتا جا رہا ہوں۔ یہ اکیلا پن مجھے خوف زدہ نہیں کرتا ہے۔ جب کبھی دن ڈھلے یہاں نہیں آپاتا تو اندر سے کسی شہد کی مکھی کی طرح ڈنک سے پریشان بھاگتا رہتا ہوں۔ آج میں چاہ کر بھی اس پر بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ موڈ نہیں ہے، پھر بھی یہ خیال ذہن میں سے محو ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بیٹھا ہوا ہے۔

میرا اکیلا پن غیر معمولی وجودیت کی طرح پونجی واد ی سماج میں پیداوار ی نظام کی تبدیلیوں کے بعد پیدا شدہ اس ساخت کے اندر بھلے ہو، لیکن یہ کہیں نہ کہیں ایک لمحے کے نزدیک زیادہ ہے۔ میرے پاس زبانی سائنس کی کسی مخصوص شاخ کا علم نہیں ہے۔ جس کے بعد ان دونوں لفظوں کی سائنسی زبان کو پڑھ کر اس فرق کو واضح کر سکوں۔ یہ بس سطحی سمجھ کا پھیر ہے، جو مجھے میرے اندر اس خالی جگہ کو اس طرح بھرتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ اس جگہ کو لگاتار ذاتی یا نجی بناتا گیا، پھر بھی اس میں میرے احساس، سماجی یا کسی دوسرے کرداروں کے تئیں کسی بھی قسم کا منفی رویہ نظر نہیں آتا۔ نہ کسی روپ میں ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک سرحد تک بے تفاوتی کے روپ میں بھلے نظر آئے، لیکن ان برابری پرتو ں کی سطحوں کی موجودگی میں نہیں دیکھا جاسکتا اور اگر کچھ نظر بھی آئے گا تو اس طرح نہیں۔

سیب ایک سانچے میں ڈھلتے ہوئے بھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے اور چوں کہ ہم سیب کی طرح ایک فکر کرنے والی مخلوق ہیں تب ان میں نظر نہ آرہے تغیرات انھیں ایک جیسا بنائے جانے کے سارے عوامل کو نابود کرتے چلیں گے۔ لیکن یہیں اسی نکتے پر سب سے زیادہ سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں سماج ، ملک، خاندان، ارد گرد ماحول الگ الگ ہونے کے بعد جو بڑا دائرہ ہوتا ہے، وہاں کی کئی دنیا انھیں اپنے ذریعے ختم کرائے جانے والے کرداروں سے متعارف ہی نہیں کروائیں گی، بلکہ توقعات بھی وابستہ رکھیں گی۔ تبھی ہماری عادتیں ، خواہشات، ذائقہ، لمس سب کچھ اکہرا ہوتا جاتا ہے۔

ہم اس سماج میں خود کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ ہم ہم نہیں رہ جاتے، کچھ اور ہوجاتے ہیں۔ تب ہماری آزادی مستقل نہیں رہ جاتی۔ وہ اس سماج میں ضم ہو جاتی ہے۔ یہ اس میں چینی کے بہ جائے نمک کی طرح گھلتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ایسی صورت میں آوازیں نہیں اٹھتیں۔ نہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میری جانب سے ایسی کوئی مناسب کوشش کبھی کی گئی تھی۔ پھر بھی اگر آج بھی کسی کو لگتا ہے کہ یہ علاحدہ تخلیق نہ ہو کر اکیلے پن کا رجحان لیے ہوئے ہے۔

وہاں چیخوف کی کہانیوں کا رمز ہے، یا ماجد مجیدی کی طرح استعارات کا استعمال، تو اسے واضح ہونا چاہیے، تاکہ مجھے بھی تو پتا چلے کہ سامنے ہوتے ہوئے بھی پیچھے کیوں نظر نہیں آرہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔