مجھے اس دیس جانا ہے

سلمان عابد  اتوار 28 مئ 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

معروف شاعرہ , مصنف او رانسانی حقوق کی سرگرم کارکن تسنیم کوثر علمی اور بالخصوص ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں او ران کا نام عملا ادبی حلقوں میں جانا پہچانا بھی ہے اور ان کو قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔

اگرچہ ان کا اولین تعارف ان کی شاعری سے ہوا مگر جلد ہی وہ ایک بہترین افسانہ نگارکے طور پر سامنے آئیں ۔وہ بیک وقت شعر گوئی اور افسانہ نگاری پر دسترس رکھتی ہیں ۔ وہ ایک طویل عرصہ تک انسانی حقوق کے ایک بڑے ادارے میں عورتوں کے قانونی معاملات میں معاونت کا کردار بھی ادا کرتی رہی ہیں ۔ ہمارے یہاں بہت ہی کم لوگ ہیں جنھوں نے شاعری , افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ خود کو سفرنامہ کی حیثیت سے بھی پیش کیا ۔

سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تسنیم کوثر کو اپنی بات یا خیال کو سوچنے , لکھنے یا اس کے اظہار کرنے کے طور طریقے خوب آتے ہیں ۔یہ ہنر بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے کہ وہ اپنے خیال کو لفظی اظہار میں اسی خوبصورتی سے پیش کرے جیسے وہ خیال کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

اپنی سوچ اور خیال کو روانی سے لکھنے میں بھی ان کو کمال کا درجہ حاصل ہے ۔ان کی نثر میں شاعرانہ اسلوب کی جھلک تو ہے مگر تکلف او رتصنع کا بالکل ہی احساس نہیں ہوتا ۔وہ جیسے اپنے خیالات یا سوچ اور فکر میں سنجیدگی کے رنگ بکھیرتی ہیں کچھ ان کو دیکھ کر بھی یہ ہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو کسی گہری سوچ میں مبتلا کیے ہوئے ہیں ۔ مجلس میں بیٹھتی ہیں تو لفظو ں کے چناو میں بھی احتیاط کرتی ہیں اور دوسروں یا ہم عصروں کو عزت و احترام سمیت ان کی تعریفوں میں بھی پیش پیش ہوتی ہیں ۔

تسنیم کوثر نے ملائشیا جیسے ابھرتے ہوئے ملک سے جو تاثرات اخذ کیے ہیں ان کو بڑی دلچسپی، تنوع اور باریک بینی سے تحریر کیا ہے ۔ ان کا یہ سفر نامہ ’’ مجھے اس دیس جانا ہے ‘‘ کو پڑھ کر ملائشیا کے داخلی معاملات کو سمجھنے او رجاننے کا موقع ملتا ہے ۔ ان کی یاداشت بھی کمال کی ہے کہ جو یاد رکھا یا نوٹس لیے ا ن کو بڑی خوبصورتی سے لفظوں کی شکل میں یکجا کیا ہے ۔ان کے بقول ’’ ان پربتوں , آبشاروں , جھیلوں , نیلے پانیوں , اور جزیروں کے نام جو تاحیات میری آنکھوں کی پتلیوں پہ نقش رہیں گے ۔‘‘اسی طرح تسنیم کوثر کے بقول :

وقت کی تتلی ہاتھ سے نکلی

چھوڑ کے رنگ ہتھیلی پر

لمس ریشمی دل پر جائے

وقت گیا پھر ہاتھ نہ آئے

معروف مصنفہ سلمی اعوان کے بقول سچ تو یہ ہے کہ اس کی تیز مشاہداتی نظر اور چھوٹی جزیات کو اپنی تحریر کا حصہ بنانا تسنیم کوثر کو خوب آتا ہے ۔ اسے قاری کو گرفت میں لینا بھی خوب آتا ہے ۔مجال ہے وہ اسے ہلنے دے, یہ لکھنے والی کی بڑی خوبی ہے ۔اس سفر کے دوران ان کو لاہور کی یاد بھی آئی ۔ ان کے بقول کبھی لاہور بھی باغوں اور درختوں کا شہرہوا کرتا تھا۔ جس کی سڑک کے دونو ں طرف گھنے سایہ دار درخت ہر آتے جاتے راہی پر اپنی چھاوں پر نچھاور کیا کرتے تھے ۔ مگر پھر ہم نے ترقی کرلی اور یہ باغ, درخت او رپھول کہیں گم ہوکر رہ گئے ہیں او ر اس کی جگہ بڑی بڑی ترقی اور تعمیر نے لے لی او رہم نے اس ترقی کے لیے قدیم, گھنے سایہ دار درخت قربان کردیے گئے ۔

تسنیم کوثر کو اس سفرنامہ میں ملائشیا کے مہاتر محمد کی خوب یاد آئی او ران کے بقول کاش ہمارے پاس بھی کوئی مہاتر محمد ہوتا جو ہمیں ترقی کے ان منازل کی طرف لے جاتا تو شاید ہم بطور ملک کسی بہتر مقام پر کھڑے ہوتے ۔مجھے خود بھی ملائشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتر محمد کی اہم کتاب ’’ ایشیا کا مقدمہ ‘‘ پڑھنے کو ملی تھی اور واقعی ہمیں بھی پاکستان کے تناظر میں مہاتر محمد کی تلاش کی ضرورت ہے ۔تسنیم کوثر نے وہاں کی بڑی مسجد ’’ مسجد النور ‘‘ کا نقشہ کھینچا ہے۔

ان کے بقول خوبصورت نقش ونگار والی یہ مسجد آرٹ آف اسٹیٹ کا حسین شہکار تھی ۔ اس کی دلکشی مجھے یہاں سے اٹھنے ہی نہیں دیتی تھی مگر جانا ضروری تھا ۔میں نے اپنے یہاں عورتو ں کو یوں نماز پنجگانہ کے لیے مساجد میں نہیں دیکھا تھا مگر یہاں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ عبادت میں بھی صنفی تفریق کا نہ ہونا بہت اچھا لگا۔

وہ پاکستان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’ وقت کی پابندی زندہ قوموں کا شیوہ ہے اور وقت کی اس پابندی نے ہی ہمارے دس برس بعد آزادی حاصل کرنے والے اس ملک کو سلام ستو ملائشیا یعنی نمبر ون بنادیا ہے ۔ریلوے اسٹیشن کی اندرونی اور بیرونی فضا میں قرینہ تھا او ر ایک سلیقہ تھا ۔اس ترقی یافتہ ملک میں لوگوں کی ذاتی گاڑیو ں کی بہتات اور پٹرول کی ارزانی کے باوجود لوگ ٹرین سے سفر کرتے ہیں اور ذاتی گاڑیاں ان کے لیے اسٹیٹس سمبل نہیں بلکہ ضرورت ہے۔اسٹیشن کی عمارت کے بالکل سامنے جنگی یادوں پر مشتمل دیوار ہے جسے ریاستی پیراک کے ان شہیدوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے جو جنگ عظیم اول او رجنگ عظیم دوئم کی نذر ہوئے۔

ان کے بقول میں نے سوچا ’’ کتنی ہی جانیں ان جنگوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔ اقتدار کی ہوس او رانتقام کی آگ کتنی زندگیوں کے چراغ گل کردیتی ہے ۔ ہریالی اور خوشحالی کو بدحالی میں بدل دیتی ہے ۔بہت کبیدہ خاطر میں اس جنگ دیوار سے نکلی بالکل اسی طرح جیسے انڈیا میں امرتسر کے تاریخی جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی سفاکی کا نشانہ بننے والوں او رگھبرا کے قریبی کنوئیں میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں بچانے کی کوشش میں موت کو گلے لگانے والوںکی یادگار Martyer’s Well اور Martyer’s Gellery کو دیکھ کر دکھی ہوگئی تھی اور پھر کتنے ہی دن بوجھل دل لیے پھرتی رہی تھی۔

تسنیم کوثر لکھتی ہیں کہ ’’ہیروشیما اور ناگاساکی کو کون بھول سکتا ہے ؟ جہاں تابکاری اثرات نے اب تک پنجے گاڑھ رکھے ہیں ۔ تبھی تو دنیا کے ہر خطہ میں موجود امن پسند لوگ جنگ کے خلاف آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں ۔ دنیا بھر کے شاعر, ادیب جنگ کے مخالفت میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہے ہیں ۔ ان کے بقول مشہور شاعر ساحر لدھیانوی نے بھی جنگ کی تباہ کاریوں پر یہ نظم لکھی تھی ۔

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امن عالم کا خون ہے آخر

تسنیم کوثر کے اس سفرنامہ کی خوبی یہ ہے کہ بہت ہی آسان زبان میںان کی یہ تحریر یا مشاہدات عام قاری کو ملائشیا کی خوب سیر کرواتی ہیں اور پڑھنے والے کو اندازہ یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ خود ہی ملائشیا کے سفر میں ہے ۔اسی سفرنامہ میں وہ ہمیں ریاست پیراک کے دارالخلافہ ایپوہ میں قائم یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی خوب سیر کرواتی ہیں ۔ملائشیا کو ایشائی ٹائیگر بنانے والے مہاترمحمداس یونیورسٹی کے پہلے چانسلر مقرر ہوئے تھے ۔مختلف ممالک مختلف مذاہب او رمختلف تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھنے والے طلبہ اس میں زیر تعلیم ہیں پاکستانی ریسرچر کی ایک بڑی تعداد یہاں زیر تعلیم ہیں او ران کو اسکالر شپ دیے جاتے ہیں۔

اسی طرح وہ اس سفرنامہ میں ایک جگہ ہمیں ’’ لٹل انڈیا ‘‘ کی سیر کرواتی ہیں جہاں پاکستانیوں کے لیے بھارتی کھانے وغیر ہ خوب ملتے ہیںاور یہاں نہ صرف کھانے ملتے ہیں بلکہ اپنے ملک کی یاد بھی خوب آتی ہے ۔ان کے بقول اس جگہ کھڑے ہوکر مجھے کہیں بھی نہیں لگا کہ میں اس وقت ملائشیا میںہوں بلکہ خود کو بھارت میں ہی پایا۔ یہاں وہ تمام خریداری موجود تھی جو ہمیں انڈیا میں نظر آتی ہے او رمجھے اس جگہ کو دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ کیسے ملائیشیا میں منی انڈیا موجود ہے ۔

تسنیم کوثر کے بقول مجھے سب سے اچھا لگا کہ جب میں نے قدم قدم پر عورتوں کو چھوٹے چھوٹے کاروباروں یا دوکانداری میں دیکھا کہ وہ کیسے خود کو معاشی امور یا سرگرمیوں میں مگن رکھ کر اپنا اور اپنے خاندان کی کفالت کررہی ہیں ۔ ان کے بقول ملائشیا کی عورتیں بغیر کسی ڈر اور ججھک کے کاروباری معاملات سے منسلک ہیں اور ان کے کاموں کو وہاں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ان کے بقول پاکستان کی عورتوں میں بھی بہت صلاحیت ہے اور اگر ان کو بھی اسی طرح معاشی میدان میں مواقع ملیں تو وہ بھی اپنے لیے او راپنے خاندان کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہیں , بس ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔تسنیم کوثر کا یہ سفرنامہ ’’ مجھے اس دیس جانا ہے ‘‘ کمال کا ہے اور پڑھنے کے لائق بھی اور جو بھی اسے پڑھے گا اس کو واقعی خوب مزا آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔