جاپان میں کن سوگی

جاوید چوہدری  منگل 30 مئ 2023
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

آج سے چار سو سال قبل کسی جاپانی رئیس کا قیمتی مرتبان ٹوٹ گیا‘ اس نے مرتبان کی کرچیاں اٹھا کر باہر پھینک دیں‘ وہاں سے کوئی بودھ بھکشو گزر رہا تھا‘ اس نے کرچیاں دیکھیں‘ مسکرایا‘ کرچیاں اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈالیں اور رخصت ہو گیا‘ بھکشو کی کلائی میں سونے کا ایک کڑا تھا‘ یہ اس کی واحد متاع تھی‘ وہ دوسرے گاؤں پہنچا‘ سونار کے پاس گیا اور اس کی ورکشاپ میں مفت کام کی پیش کش کر دی۔

سونار نے اسے رہائش اور مفت کھانے کے عوض اپنے پاس رکھ لیا‘ بھکشو نے اس سے درخواست کی‘ میں سارا دن تمہارے پاس مفت کام کروں گا لیکن شام کے وقت اپنا سونے کا کڑا پگھلا کر اپنے مرتبان کی مرمت کروں گا‘ سونار کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا چناں چہ دونوں کا سودا ہو گیا‘ بھکشو اب سارا دن سونار کا کام کرتا تھا اور شام کے وقت جب دکان بند ہو جاتی تھی تو وہ اپنا کڑا پگھلا کر سونا نرم کرتا تھا اور سونے کی تار سے مرتبان کی کرچیاں جوڑتا رہتا تھا۔

بھکشو نے مہینہ بھر کی محنت سے ٹوٹا ہوا مرتبان جوڑ لیا‘ مرتبان مکمل ہو گیا تو اس نے اسے صاف کر کے دکان کے شو کیس میں رکھ دیا‘ مرتبان سونے کی چمک کی وجہ سے دور سے دکھائی دیتا تھا اور دیکھنے والے بے اختیار اس کی طرف کھچے چلے آتے تھے یوں وہ مرتبان چند دنوں میں پورے علاقے میں مشہور ہو گیا اور لوگ اس کی منہ مانگی قیمت دینے کے لیے تیار ہو گئے مگر بھکشو نے اسے بیچنے سے انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا یہ مرتبان کسی اور کی امانت ہے‘ مرتبان کی تعریف پھیلتے پھیلتے اس جاپانی رئیس تک بھی پہنچ گئی جو دراصل اس مرتبان کا مالک تھا‘ وہ بھی اس دکان پر پہنچ گیا۔

اس نے بھی مرتبان دیکھا مگر وہ اسے پہچان نہ سکا اور اس نے منہ مانگی قیمت دے کر مرتبان خریدنے کا اعلان کر دیا‘ بھکشو نے نیلامی کا بندوبست کر دیا‘ بولی شروع ہوئی اور رئیس بولی بڑھاتا رہا یہاں تک کہ علاقے کے تمام رئیس ہار گئے اور وہ رئیس جیت گیا‘ رئیس نے جب فخر کے ساتھ مرتبان اٹھا لیا تو بھکشو آگے بڑھا اور مرتبان اسے دے کر بولا ’’حضور یہ مرتبان دراصل ہے ہی آپ کا اور میں آپ کی چیز کی قیمت آپ سے کیسے وصول کر سکتا ہوں؟ آپ اپنا مرتبان لیں اور میرے لیے بس دعا کر دیں‘‘ رئیس نے حیرت سے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ بھکشو نے جواب دیا’’ میں فلاں تاریخ کو آپ کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا۔

آپ کا یہ مرتبان ٹوٹ گیا تھا اور آپ نے اس کی کرچیاں اٹھا کر باہر پھینک دی تھیں‘ میں کرچیاں اٹھا کر یہاں لے آیا ‘ اپنا کڑا پگھلا کر اسے جوڑ دیا اور جڑے ہوئے ٹکڑوں نے اسے پیس آف آرٹ بنا دیا‘‘ رئیس حیران رہ گیا‘ بھکشو نے بتایا ’’ٹکڑے اشیاء کے ہوں یا انسانوں کے یہ جب جڑتے ہیں تو یہ چیزوں اور انسانوں کو انمول بنا دیتے ہیں۔

یہ انھیں پیس آف آرٹ بنا دیتے ہیں چناں چہ میرا مشورہ ہے آپ چیز ہیں یا انسان ہیں آپ جب ٹوٹ جائیں تو آپ خود کو بے کار نہ سمجھیں‘ اپنی کرچیاں کچرا گھر میں نہ گرنے دیں‘ آپ کسی جگہ بیٹھیں اور اپنے آپ کو حوصلے‘ ہمت اور برداشت کے سونے سے جوڑنا شروع کر دیں۔

آپ نہ صرف دوبارہ مکمل ہو جائیں گے بلکہ آپ پہلے سے ہزار گنا قیمتی بھی ہو جائیں گے اور پیس آف آرٹ بھی بن جائیں گے۔‘‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے جاپان میں لوگ ٹوٹے ہوئے برتنوں کو سونے سے جوڑ کر پیس آف آرٹ بنا رہے ہیں‘ یہ لوگ اپنی زبان میں اس فن کو کن سوگی (Kintsugi) کہتے ہیں۔

جاپان میں کن سوگی کے عمل سے گزرنے کے بعد عام سے پیالے‘ پلیٹیں‘ مگ اور گھڑے ملین ڈالر کا آرٹ پیس بن جاتے ہیں اور میوزیم میں رکھے جاتے ہیں یا پھر لوگ انھیں اپنے گھروں میں سجاتے ہیں‘ یہ فن صرف اشیاء کی ’’ری پیئرنگ‘‘ کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے ٹوٹے پھوٹے اور تباہ حال انسانوں کو بھی جوڑ کر‘ رگڑ کر نیا اور مہنگا بنایا جاتا ہے‘ جاپانی قوم خود بھی کن سوگی کا جیتا جاگتا شاہ کار ہے۔

دنیا میں آج تک ایٹم بم صرف دو بار استعمال ہوا اور یہ دونوں مرتبہ جاپان پر گرایا گیا‘6اگست 1945 کو ہیروشیما پر پہلا اور 9اگست کو ناگا ساکی پر دوسرا ایٹم بم گرااور ان دو بموں نے پوری جاپانی قوم کو مرتبان کی طرح کرچی کرچی کر دیا لیکن آپ کن سوگی کا کمال دیکھیے‘ جاپانی قوم نے نہ صرف اپنی تمام کرچیاں جمع کر کے خود کو دوبارہ بنا لیا بلکہ یہ اپنے اصل سے زیادہ قیمتی بھی ہو گئی‘ جاپان کی آج کی 20 بڑی کمپنیاں خواہ یہ ٹویوٹا ہو‘ مٹسوبشی ہو‘ ہونڈا ہو‘ آئی ٹوچو ہو‘ نپون ٹیلی گراف اور ٹیلی فون ہو‘ مٹسوئی ہو‘ جاپان پوسٹ ہولڈنگ ہو‘ ہٹاچی ہو‘ سونی ہو‘ انیوس ہولڈنگ ہو‘  ایون ہو‘ ماروبینی ہو یا پیناسونک ہو یہ دوسری جنگ عظیم سے قبل دفاعی آلات اور بم توپیں بناتی تھیں۔

ان کمپنیوں نے جنگ کے بعد اپنا کاروبار تبدیل کیا اور یہ چند برسوں میں دنیا کی بڑی تجارتی اور صنعتی کمپنیاں بن گئیں‘ جنگ عظیم دوم سے قبل جاپان کی فوج دنیا کی طاقتور اور خوف ناک فوج تھی‘ پسپائی ان کے سلیبس میں شامل ہی نہیں تھی‘ یہ اگر جنگ میں ہار جاتے تھے تو یہ خودکشی کر لیتے تھے مگر شکست کے داغ کے ساتھ گھر واپس نہیں آتے تھے‘ دنیا میں دوسرا خود کش اسکواڈ بھی جاپانیوں نے تیار کیا تھا‘ یہ لوگ ’’کامی کازی‘‘ کہلاتے تھے‘ یہ پائلٹس تھے‘ یہ ہیروشیما سے جہاز اڑاتے تھے‘ فضا میں پٹرول کے آخری قطرے اور آخری گولی تک لڑتے تھے اور اس کے بعد اپنا جہاز دشمن پر گرا دیتے تھے اور یوں محمود اور ایاز دونوں آنجہانی ہو جاتے تھے‘ کامی کازی بڑے جذبے کے ساتھ تیار ہوتے تھے۔

لوگ اپنے نام لکھواتے تھے اور اپنی سلیکشن کے لیے باقاعدہ منتیں مانگتے تھے اور آخر میں جب یہ اپنے مشن پر روانہ ہوتے تھے تو ان کا خاندان‘ دوست احباب اور شاہی ہرکارے سیلوٹ کے ساتھ انھیں رخصت کرتے تھے اور یہ اس کے بعد کبھی واپس نہیں آتے تھے‘ 7دسمبر1941 کو جاپانی کامی کازیوں نے امریکی بندر گاہ پرل ہاربر پر حملہ کر کے امریکی نیوی کو لوہے کے چنے چبوا دیے تھے اور یوں امریکا بھی جنگ عظیم دوم میں کودنے پر مجبور ہو گیا تھا‘ میں بچپن میں جب جاپانی حملے کے بارے میں پڑھتا تھا تو سوچتا تھا جاپان کہاں اور امریکا کہاں!جاپانی پھر امریکا کیسے پہنچے تھے؟ ذرا سا بڑا ہوااور نقشے پڑھنا شروع کیے تو پتا چلا جاپان امریکی ریاست ہوائی سے زیادہ دور نہیں ہے۔

جاپانی جہاز پیسفک اوشن سے ہوتے ہوئے امریکی ٹھکانوں پر حملے کر کے واپس جا سکتے تھے اور جاپان یہ کرتا رہا‘ جاپانی فوج نے تھائی لینڈ‘ فلپائن اور انڈیا میں برطانیہ اور امریکا دونوں کی ناک زمین پر رگڑ دی تھی اور اگر امریکا اس پر ایٹم بم نہ گراتا تو یہ بھارت سے برطانیہ کا پرچم تقریباً اتار چکے تھے‘ یہ فلپائن اور تھائی لینڈ پر قبضہ بھی کر چکے تھے۔

جاپانی برما اور بھارتی ریاست ناگا لینڈ پر قابض ہو چکے تھے اور یہ سلسلہ اگر چلتا رہتا تو بھارت کے بعد ایران‘ ترکی اور پھر مشرقی یورپ دور نہیں تھا‘ ہٹلر روس تک پہنچ چکا تھا اور اگر جاپان بھارت کے راستے سینٹرل ایشیا یا مشرقی یورپ آ جاتا تو 80 فیصد دنیا جرمنوں اور جاپانیوں کے قبضے میں ہوتی اور آج دنیا کا نقشہ یکسر مختلف ہوتا‘ بہرحال6 اور9اگست 1945 کے دن طلوع ہوئے‘ امریکا نے جاپان پر دو ایٹم بم پھینکے اور تاریخ کا دھارا بدل گیا‘ جرمنی اور جاپان مفتوحہ ہو گئے اور برطانیہ اور امریکا فاتح بن گئے۔

جاپان کے پاس شکست کے بعد دو آپشن تھے‘ یہ لوگ باقی زندگی اپنے زخم چاٹ کر اور ماضی کی فتوحات کے ترانے گا گا کر زندگی گزار دیتے یا پھر کن سوگی کے عمل سے گزر کر اپنی کرچیاں سمیٹتے اور خود کو پہلے سے زیادہ قیمتی بنا لیتے‘ جاپانیوں نے دوسرا آپشن پسند کیا اور یہ کن سوگی کے عمل سے گزرنے لگے۔

یہ لوگ دفاع سے نکل کر معاشی قوم بننے لگے‘ انھوں نے فیکٹریوں‘ منڈیوں اور کھیتوں کو اپنا جنگی میدان بنا لیا اور کمال کر دیا‘ جاپان سالانہ 900بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے اور یہ اشیاء پوری دنیا میں بکتی ہیں‘ یہ ملک چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے‘ چین‘ روس‘ کوریا‘ بھارت اور امریکا کے ساتھ اس کی لڑائی ہے‘چین کے ساتھ اس کا متعدد علاقوں پر تنازع چل رہا ہے۔

روس کے ساتھ سوا سو سال سے سخالین کے جزائر کی وجہ سے اختلاف ہے‘ کوریا کے لوگ جاپان کو غاصب سمجھتے ہیں‘ جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران بھارت کی ریاست ناگا لینڈ کو تباہ کر دیا تھا اور امریکا نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے تھے چناں چہ یہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود یہ اپنے تمام دشمنوں کے ساتھ کھربوں ڈالر کی تجارت کر رہا ہے‘ جاپانی گاڑیاں‘ کمپیوٹر‘ ہیوی مشینری اور ادویات پوری دنیا میں جاتی ہیں اور یہ اپنے دشمنوں سے بھی کھل کر خام مال منگواتا ہے۔

جاپان نے عاجزی اور سادگی کو بھی اپنا آرٹ بنا لیا ہے‘ یہ جھک کر ملتے ہیں اور دوسروں کے سامنے بچھ بچھ جاتے ہیں‘ ہاتھ ملانا بے ادبی سمجھتے ہیں چناں چہ بادشاہ ہو‘ وزیراعظم ہو یا ہونڈا یا کرولا کمپنی کا مالک ہو وہ سینہ اور گردن جھکا کر آپ سے ملے گا‘ پوری قوم کام کی عادی ہے‘ لوگ ایک منٹ لیٹ نہیں ہوتے‘ پوری زندگی ایک کمپنی یا ایک فیکٹری میں گزار دیں گے اور کبھی معاوضے میں اضافے کا مطالبہ نہیں کریں گے‘ دو یا حد تین مرلے کے گھر میں رہیں گے‘ زندگی کی آخری سانس تک کام کریں گے اگر خدانخواستہ کسی سال تین چار اضافی چھٹیاں ہو جائیں تو یہ دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں‘ آج سے تین سال قبل ملک میں 9 چھٹیاں اکٹھی آ گئی تھیں اور یہ لوگ ریلوے اسٹیشنوں‘ پارکوں اور گھروں کے دروازوں پر کھڑے ہو کر رونے لگے تھے۔

ان کا کہنا تھا ہم 9 دنوں میں کیا کریں گے؟ لوگ پوری دنیا میں چھٹیوں کے لیے احتجاج کرتے ہیں لیکن جاپان میں چھٹیوں کے خلاف اور اوقات کار میں کمی پر احتجاج ہوتا ہے‘ حکومت اگر قومی تعطیل کر دے یا کمپنی کے مالکان اوقات کار کم کر دیں تو یہ سراپا احتجاج بن جاتے ہیں‘ یہ مردہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔