منزلوں کا کون جانے‘ رہ گزر اچھی نہیں

لطیف چوہدری  منگل 30 مئ 2023
latifch@express.com.pk

[email protected]

آج کل پاکستان میں وفاداریاں بدلنے کا موسم چھایا ہوا ہے، بجلیاں کڑک رہی ہیں اور بادل گرج رہے ہیں ‘اس گرج کڑک سے بڑے بڑے دلاوروں کے دل دہل گئے ہیں۔

جناب عمران خان کے سیاسی نورتن پی ٹی آئی چھوڑ کر ایسے بھاگ رہے ہیں،جیسے آسمانی بجلی ان پر گرنے والی ہو ‘تھوڑے سے لائٹ موڈ میں بات کریں تو خان صاحب کے جانثار پتلی گلی سے یوں نکل رہے ہیں جیسے محلے کا کوئی شریر بچہ ہمسائے کے گھر کی گیٹ بیل بجا کر بھاگتا ہے یا گرگٹ خطرہ دیکھ کر رنگ بدلتا ہے۔

سیاست کے اتار چڑھاؤ کو سمجھنے والوں کے لیے تو یہ موسم جانا پہچانا ہے ‘انھیں پتہ ہے کہ ہر پانچ دس سال بعد بے موسم کے بھی گھنگھور گھٹائیں امڈ آتی ہیں‘بجلیاں کڑکتی ہیں ‘بادل گرجتے ہیں ‘طوفانی ہوائیں چلتی ہیں اور موسلادھار بارش برستی ہے لیکن ممی ڈیڈی طبقہ کے لیے ایسا موسم بالکل نیا ہے ‘ انھوں نے ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے اورایسے تعلیمی اداروں میں پڑھائی کی ہے جس میں انھیں یہی بتایا جاتا ہے کہ موسم سدا ایک جیسا ہی رہتا ہے۔

شدید گرمی اور دھوپ کا انھیں کم ہی تجربہ ہے کیونکہ گھروں میں بھی اے سی کی سہولت ‘گاڑیوں میں بھی اے سی ‘جس گھر میں جانا ہے وہاں بھی اے سی جس کیفے یا ریسٹورنٹ میں جاناہے وہاں بھی ٹھنڈک ہوتی ہے۔انھیں بس اتنا پتہ ہوتا ہے کہ سورج چمک رہا ہے ‘باہر دھوپ ہے‘ یہی حال سردیوں کا ہے ‘سردیوں کا موسم ان کے لیے انجوائے منٹ سیزن ہوتا ہے۔

ہم جیسے نیم ترقی پذیر ممالک میں سیاست سب سے خطرناک اور تکلیف دہ شعبہ ہے ‘یہاں اقتدار آتے اور اقتدارجانے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے ‘ آج کوئی پارٹی اور اس کا قائد بام عروج پر ہے‘میڈیا اسے گھنٹوں ٹیلی کاسٹ کرتا ہے ‘ہٹو بچو کی آوازیں اور حفاظتی گاڑیوں کے قافلوں کے سائرن بج اٹھتے ہیں لیکن اچانک وہی لیڈر کرپٹ اور غدار بن جاتا ہے جب کہ اس کی پارٹی بدعنوانوںکا گروہ بن جاتی ہے ۔

میں عمران خان کی سیاسی فکر و فلسفے کا ناقد  ہوں لیکن ان کی حالیہ بے بسی دیکھ کر دل اداس ضرور ہوا ہے ‘ان کے ٹائیگر ز اور ٹائیگرسزکی حالت زار پر یہی کہہ سکتا ہوں ‘کیا اسیری ہے اور کیا رہائی ہے۔ جان ایلیا نے شاید انھی کے لیے یہ شعر کہا ہے  ؎

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد

دیکھنے والے ہاتھ ملتے رہ گئے

عمران خان کے دائیں اور بائیں کھڑے ہو کر ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسمیں کھاتے تھے ‘ آج وہ ٹی وی اسکرینوں پر آ کر عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کررہے ہیں ‘اپنی غلطیوں کی معافی مانگ رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسو بہا رہے ہیں ۔اس حوالے سے کیا تبصرہ کروں ؟

تیرے بدلنے کا دکھ نہیں

میں اپنے اعتبار پر شرمندہ ہوں

اسد عمر کی باتیں تو سب نے سنی ہیں ‘ایک دو ہفتے پہلے موصوف پی ڈی ایم کی قیادت کو وارننگ دے رہے تھے ‘ فرمایا‘ مذاکرات میں حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے‘ یہ جون یا ستمبر کیا بات ہوئی‘ سیدھی سی بات ہے‘ ہماری مذاکراتی ٹیم کو ایک پرچہ دیںکہ ہم مان گئے ہیں‘ یہ پرچہ عدالت میں جمع کرائیں‘ گزشتہ روز اسمبلی توڑیں‘ بس اتنی سی بات ہے‘‘۔

آخر میں انھوں نے ایک دھمکی نما مشورہ بھی دیاتھا کہ’’ ایسی کوئی غلطی نہ کریں کہ واپسی کا راستہ نہ بچے۔‘‘ میں سمجھا کہ طاقتور لوگوں کا انداز بیاں منفرد ہوتا ہے‘ پنجاب میں طاقتور افراد اپنے مخالف کو دھمکی بھی شوگر کوڈڈ الفاظ میں دیتے ہیں‘ مثلاً ’’توں ساڈا پراہ لگ ناں ایں‘ اس لئی سمجھا رہیاں‘ہن غلطی نہ کریں کہ اسیں مجبور ہو جائیے‘‘۔

یعنی اپنے مخالف کو دھمکی دی جا رہی ہے کہ تمہیں بھائی سمجھ کر مشورہ دے رہا ہوں ‘اب کی بار غلطی نہ کرنا ورنہ تمہارا حشر کر دیں گے۔ ان الفاظ کی سنگینی عیاں ہے‘ مخاطب بھی پوری بات سمجھ رہا ہے لیکن اس انداز میں کی گئی ہے کہ کہنے اور سننے والا سب کچھ سمجھ رہا ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ دھمکی دی گئی ہے بلکہ یہی کہا جائے گا کہ برادرانہ مشورہ دیاہے ، یہ ایسی دھمکی یا انتباہ ہوتا ہے جس پر آئین یا قانون خاموش ہے لیکن مطلب سب سمجھ رہے ہیں۔

آج وہی اسد عمر پی ٹی آئی کی سیکریٹری جنرل شپ چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جناح ہاؤس ‘جی ایچ کیو اور دیگر املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے‘ جناب فواد چوہدری کا انداز تخاطب اور جملوں کا چناؤ اور ان میں چھپا طنز و مزاح پی ٹی آئی کے ورکرز کی دل کی آواز سمجھا جاتا تھا لیکن انھوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے عمران خان اور پی ٹی آئی سے تعلق ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

اس بے رخی اوربے وفائی کی تہہ میں کیا کیا طوفان برپا ہیں‘ اس کی شدت انھیں پتہ ہے جو پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔پروین شاکر کا شعر ہے  ؎

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

مجھے تو ان نوجوانوں اور ان کے والدین کی بے بسی اور حالت پر ترس آ رہا ہے ‘ یہ نوجوان بچے اور بچیاں سیراب کو دریا سمجھتے تھے ‘سر تا پیر جھوٹ کو پورا سچ مانتے تھے ‘یہ ماڈرن اور پڑھے لکھے نوجوان اپنے ملک کے فرسودہ اور ظالمانہ نظام کو بدلنا چاہتے تھے ‘یہ نوجوان پہلی دفعہ سیاسی میدان میں اترے لیکن ان کی امنگوں ‘آرزوؤں اور تمناؤں کا بڑی بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔

تاریخ میں ایسے بہت سے کردار ملتے ہیں ‘ جنھوں نے اپنی چالاکی اور ہوس کو پورا کرنے کے لیے خیالی جنت کا نقشہ تیار کیا اور اپنی خطابت سے لاکھوں لوگوں کے ذہنوں کو فتح کر لیا۔ اس کے پیروکار ان کے حکم پر کسی کی جان بھی لے لیتے تھے اور اپنی جان بھی دے دیتے تھے ‘آج کے دور میں تامل ٹائیگرز اور طالبان کے خود کش بمبار اس کی مثال ہیں۔

جن نوجوانوں نے دوسروں کو مار کر اپنی زندگی دے دی ‘ وہ تو فنا ہو گیا اور اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی زندگیاں بھی برباد کرگیا لیکن انھیں اس راستے پر لے جانے والے اپنے مخالفین کے ساتھ سمجھوتے بھی کر رہے ہیں اور دھمکیاں بھی دے رہے ہیں ۔

عسکری تنصیبات پر حملہ آور ہونے ‘وہاں لوٹ مار کرنے اور آگ لگانے کے جرم میں قید ہونے والوں کے لیے تو ہمدردی کا اظہار بھی نہیں کیا جا سکتا‘ جن کی خاطر انھوں نے یہ رسک لیا ‘وہ بڑے سکون سے کہہ رہے ہیں ‘ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔شکیل اعظمی کے چند اشعار

منزلوں کا کون جانے رہ گزر اچھی نہیں

اس کی آنکھیں خوبصورت ہیں‘نظر اچھی نہیں

اب تو لگتا ہے کہ آجائے گی باری میری

اس نے دیدی ہے تیری آنکھوں کو سپاری میری

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔