’’جو دے رہے ہیں اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں!‘‘

خوشبو غوری  منگل 6 جون 2023
جہیز کے مطالبات اور توقعات سے ہماری جان نہ چھوٹ سکی! ۔ فوٹو : فائل

جہیز کے مطالبات اور توقعات سے ہماری جان نہ چھوٹ سکی! ۔ فوٹو : فائل

جہیز ایک ایسی لعنت ہے، جس میں شادی کے بندھن کی حقیقی خوب صورتی اور معنی کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ ویسے تو ہر کوئی جہیز کو ایک لعنت مانتا ہے، لیکن ساتھ میں یہ ضرور کہتا ہے ’جو دے رہے ہیں اپنی بیٹی کو دینا ہے ہم کوئی جہیز تھوڑی مانگ رہے ہیں!‘ 

ارے! جہیز میں سوفہ سیٹ نہیں دیا ماں باپ نے۔۔۔؟ ارے تمھارے کمرے میں تو ایک کرسی بھی نہیں ہے بیٹھنے کو! جہیز میں لائی ہی کیا ہو بس ایک بیڈ اور الماری۔۔۔؟ ارے تمھارے سامان سے تو ایک کمرا بھی پورا نہیں بھرتا، دیا ہی کیا ہے تمھارے ماں باپ نے تم کو!

کم سامان اور محدود وسائل کے ساتھ شادی کے بندھن میں جڑنے والی نہ جانے کتنی ایسی لڑکیاں ہیں، جن کی سماعت اور دل و دماغ پر اس طرح کے طعنے اور آوازیں ہر وقت  کسی ہتھوڑے کی مانند برستی رہتی ہیں۔ ویسے تو ہر کوئی چاہے امیر ہو یا غریب، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، جہیز کو ایک لعنت  ہی گردانتا ہے، لیکن ساتھ میں یہ ضرور کہتا ہے ’جو دے رہے ہیں اپنی بیٹی کو دینا ہے ہم جہیز تو نہیں مانگ رہے ہیں!‘

وہ معاشرہ جہاں جہیز کی وجہ سے لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہوتیں، وہاں طلاق ہونے کی صورت میں بھی جہیز اور لڑکی کے سامان کی واپسی کے لیے قوانین ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہ ہونا اور لڑکی کو جہیز واپس نہ کرنے کے لیے ہزار سقم تلاش کرنے میں قانونی ماہرین دست یاب ہوتے ہیں۔

یقیناً بہت سے افراد میری بات سے اتفاق نہیں کریں گے کہ آج کے دور میں تو اب کوئی جہیز کا مطالبہ نہیں کرتا اس کو تو اب ایک لعنت سمجھاجاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پھر پاکستان میں صرف ایک سال میں دوہزار سے زائد لڑکیوں کی اموات کی وجہ کیا بنتی ہے؟ پھر کیوں چولھا پھٹنے سے بہو جل کر مر جاتی ہے؟ کیوں کبھی باتوں اور طعنوں کا زہر تو کبھی اصلی زہر لڑکیوں کی موت کی وجہ بن جاتا ہے؟

ایک سروے کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت کا خیال ہے لڑکیوں کی شادی ہونے یا ہونے میں 84 فی صد جہیزکا عمل دخل ہے جب کہ 64 فی صد کا خیال ہے کہ جہیز کے بغیر لڑکی کی شادی ناممکن بات ہے۔

اگرچہ ہمارے ملک میں ’جہیز ایک لعنت ہے‘ کے حوالے سے کافی آگاہی مہم چلائی گئیں اور لوگ اس بات کو زبانی کلامی تسلیم بھی کرتے ہیں کہ لڑکی کے خاندان پر جہیز کا اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود لڑکی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ شادی کے لیے اپنے ساتھ کسی قسم کا جہیز لے کر آئے۔

چاہے وہ لڑکی کے سسرال والوں کے لیے تحفے میں کپڑے ہوں، یا پھر ساس اور نندوں کے لیے سونا، یا دولہا کے لیے گاڑی، یا اس کے نئے کمرے کے لیے فرنیچر، یا یہ سب کے ساتھ ساتھ پورے خاندان کے استعمال کے لیے واشنگ مشین، استری، فوڈ فیکٹری، ڈرائر، کراکری سے لے کر اب تو برقی چولھے بھی کافی دیے جا رہے ہیں، جو ظاہر سے گیس نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے لیے کھانا پکانے میں سہولت کا باعث بنیں گے!

ویسے تو اصولی طور پر لڑکی کو کیا دینا ہے اور کیا نہیں؟ دینا بھی ہے یا نہیں دینا؟ جہیز کی شکل میں تحفہ دینے اور لینے کا اختیار لڑکی اور اس کے والدین کا ہے۔ تاہم، اصل الزام شوہر اور سسرال والوں پر ہے، جو غیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جہیز وصول کرتے ہیں۔

اور ساتھ میں یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں ’ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، صرف ایک جوڑے میں آپ ہم کو اپنی بیٹی دے دیں‘ سے لے کر ’’تمام والدین اپنی بیٹیوں کو اپنی خوشی سے چیزیں دیتے ہیں‘‘ تک، یہ وہ تبدیلی ہے جس سے تمام والدین اپنی بیٹیوں کے نصیب سے ڈرتے ہیں۔

جب کہ کچھ  لڑکیوں پر تو شادی کے بعد بھی اپنے والدین کے گھروں سے زیادہ سے زیادہ ’مال‘ لانے کا دباؤ ہوتا ہے اور اگر ایک گھر میں دو یا دو سے زیادہ بہوئیں ہیں تو پھرتو دیورانیوں، جٹھانیوں کے میکے میں مقابلے کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ جاری رہتی ہے کہ کس کا میکہ کتنا ’بھاری‘ ہے! جو ایک انتہائی غیر اخلاقی اور غیر معیاری سوچ کی عکاسی کرتا ہے!

یہ ایک خوف ناک روایت ہے جو کہ صرف لڑکیوں کو مارنے، چولھے میں جلائے جانے یا انھیں ذہنی اذیت دینے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ یہ ان سیکڑوں اور ہزاروں لڑکیوں کے بارے میں ہے، جو غریب پس منظر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مخلص ہم سفر کی تلاش سے قاصر ہیں۔ وہ تمام لوگ لڑکے والوں کو لاکھوں مالیت کے تحائف دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ہم بحیثیت معاشرہ یہ عہد کیوں نہیں کرتے کہ شادی کے وقت تحائف وصول کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بہ جائے ان کے خلاف آواز اٹھائیں گے، ان کو شرمندہ کریں گے؟ تحفے میں لڑکی کے ساتھ آئے ہوئے فرنیچر سے سجے کمروں اور پورچ میں کھڑی شادی کے تحفے میں ملنے والی گاڑی دیکھ کر ہم کو خود پر شرم کیوں نہیں آتی؟ لڑکی کے ساتھ  شادی کے تحفے میں آئے سوفہ سیٹ پر بیٹھ کر اس کے گھروالوں کو بے عزت کرتے اور لڑکی کو باتیں سناتے ہوئے کیوں ہم کو ذرا سی بھی حیا محسوس نہیں ہوتی!

لڑکے کی خود کی تنخواہ چاہے کتنی ہی ہو، حق مہرکی رقم پہلی رات ادا کی ہو یا نہیں، لیکن لڑکی سے  یہ توقع پوری طرح کی جاتی ہے کہ  وہ گھر گرہستی کی بنیادی اشیا سے لے کر ہر پرتعیش چیزیں اپنے ساتھ ’تحفے‘ میں لائے گی۔

پاکستانی قانون کے مطابق لڑکی اور اس کے سسرال والوں کو شادی میں دیے گئے تحائف کی مجموعی قیمت پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ تو اس قانون کے تحت تو پورے پاکستان کے سسرالیوں کو سلاخوں کے پیچھے ہی ہونا چاہیے! لیکن یہاں، رسومات اور روایات  قوانین سے زیادہ مضبوط ہیں۔ لوگ اب بھی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور حکومت اب بھی قوانین پر عمل درآمد میں دل چسپی نہیں رکھتی۔

جہیز جیسی لعنت پر بلاشبہ بہت کچھ لکھا، بولا اور تسلیم کیا جا چکا ہے، لیکن اکیسویں صدی میں بھی اب تک اس ناسور سے جان نہیں چھڑا کر آزادی حاصل نہیں کر سکے! کیوں ناں ہماری بچیوں کو اپنی آزادی خود تلاش کرنے دی جائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔