ارمان، ترقی پسند ادب کا شاہکار

جمیل مرغز  ہفتہ 28 اکتوبر 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

انور مانیروال ضلع صوابی کے ترقی پسند تحریک کے سرخیل‘ میرے پسندیدہ‘ باشعور ادیب اور شاعر ہیں‘ ان کی محفل کی دعوت ٹھکرانے کا حوصلہ نہیں تھا اس لیے جانا پڑا۔

ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کے قافلے کے دو عظیم شاعر‘ بلکہ ضلع صوابی کا فخر‘ انور مانیروال ‘ عزیز مانیروال اور دانشور نورالامین یوسفزئی اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ ان کو جدا نہیں کیا جاسکتا‘ یہ تینوں بھی ایک جان ہیں‘ پہاڑوں‘ جنگلوں اور ادبی محفلوں میں بھی ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں‘ان کی خصوصیت یہ ہے کہ تینوں ترقی پسند اور انقلابی شاعر اور ادیب ہیں اور جہاں سے بھی دعوت آتی ہے یہ وہاں ضرور جاتے ہیں اور اس طرح پشتو زبان اور ادب کی خدمت کرتے ہیں‘ ان کی دوسری کتاب ’’یو ارمان‘‘کا رسم افتتاح تھا اور اس پر پشتو کے نامور ادیبوں اور دانشوروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مجھے ادبی محفلوں پر لکھنے کا تجربہ نہیں ہے ‘لیکن انور مانیروال کی کتاب کے متعلق میرے خیالات ‘دوسرے دانشوروں کی طرح ہیں‘دوسروںکے خیالات سن کر اور کچھ خود پڑھ کر مجبور ہو گیا ہوں کہ کچھ لکھوں ۔نور الامین یوسفزئی حقیقت میں نئے زمانے کے پشتو دانشور ہیں‘ ان کی آراء کومیں بہت اہمیت دیتا ہوں‘ ان تینوں کے ٹرائیکا نے پشتو ترقی پسند ادب کی بہت خدمت کی ہے ‘موجودہ کالم بھی ان تینوں کی نذر ہے۔

انور مانیروال کا شکریہ کہ انھوں نے پشتو ادب میں اپنی خوبصورت تحریر سے ایک گراں قدر اضافہ کیا ۔ محفل کے روح رواں عابد جان اور مسعود جبار نے پروگرام کو اپنی محنت سے بہترین بنایا تھا ۔

1972میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام کی حکومت نے پشتو کے بجائے اردو کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ پہلے سے پسماندہ پشتو زبان اور بھی کونے میں چلی گئی۔آج تک تعلیمی اداروں میںاس کا داخلہ بند ہے‘شاعر اور ادیب بہت کو شش کر رہے ہیں اور اپنے خرچ پر کتابیں چھاپ رہے ہیں لیکن جب تک سرکاری سرپرستی نہ ہو اس وقت تک کوئی بھی زبان ترقی نہیں کر سکتی ۔حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے پشتو زبان ترقی سے محروم ہے۔

کچھ عرصہ قبل بر صغیر ہندوپاک میں کلاسیکی ادب کا زور تھا‘ہر طرف گل بکائولی‘داستان امیر حمزہ ‘عمر و عیار‘  شہزادہ سیف الملوک اور پری بدری جمال ‘لیلی مجنون‘  شیرین فرہاد ‘ہیر رانجھا ‘سوہنی مہینوال‘لٹ گیا تیرا شہر بھنبھور والے سسی پنوں ‘کوہ قاف کے دیوؤں‘جنات اور پریوں کی کہانیاںاور الف لیلٰے کی کتابیں پڑھی جاتی تھیں‘ اس ادب کا عوام کی مشکلات اور مسائل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا‘اس دوران ہندوستان سے ابھرنے والی سب سے اہم ادبی تحریکوں میں ایک ‘آل انڈیا پروگریسیو رائٹرز موومنٹ (AIPWM) کی جڑیں سیاسی انقلاب میں تھیں‘جس نے 1917 میں سوویت یونین (United Socialist Soviets Republics-USSR)۔کی تشکیل اور اس کے استحکام میں مدد دی۔

اگر چہ (AIPWM)نے اپنے پیچھے ایک بھرپور ادبی میراث چھوڑی ہے ‘جس کا مقصد ہندوستان میں لوگوں کے مختلف مصائب کو منظر عام پر لانا تھا‘ اس تحریک کا مقصد ادب کو لایعنی کہانیوں سے نکال کر عوام کے مسائل‘آزادی اور حریت کے لیے استعمال کرنا تھا۔ سوویت یونین ‘رائٹرز یونین کے قیام کے چند سال بعد‘ہندوستان کے سوشلسٹ دانشوروں نے‘ جواس وقت پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے ‘مل کر لکھنو میں پہلی ’’آل انڈیا پروگریسیو رائٹرز کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا ۔ میٹنگ کی قیادت اردو کے معروف ادیب سجاد ظہیر نے کی اور صدارتی خطبہ کسی اور نے نہیںبلکہ جواہر لعل نہرو نے دیا۔

کانفرنس کے نتیجے میں تشکیل پانے والے آل انڈیا پروگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن (AIPWA)کے منشور میں ‘سائنسی حقیقت پسندی کو متعارف کراتے ہوئے‘قدامت پسند طبقوں سے ادب کو بچانے اور تخلیق شدہ ادب کے لیے ‘ترقی کی روح پر زور دیا گیا تھا ‘وجود کے بنیادی مسائل پر زیاد ہ توجہ مبذول کرنا‘ جیسے کہ بھوک اور غربت۔’’ترقی پسند مصنفین کی تحریک‘‘ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک‘ بامقصد فن اور ادب کو فروغ دینا تھا ‘ترقی پسند اوربائیں بازو کا ظہور عام لوگوں کو ثقافتی اور سیاسی طور پر شعور دے رہا تھا‘ انھیں منظم طریقے سے ایک ایسے نظام کی طرف مائل کیا جا رہا تھا‘ جو غریب طبقوں کا نظام ہو‘ اصلاحات اور منصفانہ اجرت کے ٹوٹے ہوئے وعدوں کے ساتھ وہ طبقاتی شعور بیدار کر رہے تھے ‘جس نے AIPWA کے کام کو مزید آگے بڑھانے میں مدد کی ۔اس تنظیم نے اس بات کااعلان کیا کہ ادیب اور شاعر اب سیاسی طور پر غیر جانبدارنہیں رہ سکتے‘ انھیں ترقی پسند نظریات پر سختی سے عمل کرنا تھا اور تحریک کو بڑھانے کے لیے ثابت قدم رہنا تھا۔

ترقی پسند ادبی تحریک نے اردو‘ ہندی اور مقامی ادب کو بہت متاثر کیا ۔ان شاعروں اور ادیبوں نے نہ صرف سماج میں تبدیلی کے لیے کوششیں کیں بلکہ برصغیر کی آزادی کی جدوجہد میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اردو کے چند بڑے ادیبوں نے معاشرے پر بڑا اثرڈالا‘ ترقی پسند ادیبوں میں نمایاں نام ‘جان نثار اختر‘فیض احمد فیض ‘مجاز‘کرشن چندر‘سردار جعفری ‘عصمت چغتائی‘ کیفی اعظمی‘ساحر لدھیانوی‘ راجندر سنگھ بیدی‘مجروح سلطان پوری‘احمد ندیم قاسمی‘حبیب جالب‘پریم چند‘ بنگال کے رابندر ناتھ ٹیگور‘سعادت حسن منٹو‘نیاز فتحپوری‘ مجنون گورکھپوری‘غلام عباس‘ وغیرہ ہیں ۔

پشتو انقلابی اور ترقی پسند شاعروں میں‘سیاسی اور تحریک آزادی کے ترقی پسند شاعر اور ادیبوں میں اپنے زمانے کے پیر روخان ‘خوشحال خان خٹک اوراحمد شاہ بابا تھے۔ترقی پسند تحریک سے متاثرہ ادیبوں نے جنگ آزادی اور معاشرے کی اصلاح کے لیے کافی کام کیا ان میں‘کاکاجی صنوبر حسین ‘خاطر آفریدی ‘اباسین یوسف زے ‘غنی خان‘اجمل خٹک‘سلیمان لائق‘قلندر مومند‘مطیع اللہ جان تراب‘شمس بونیرے‘عزیز مانیروال‘رحمت شاہ سائل‘حمزہ شنواری‘کبیر ستورے‘ صاحب شاہ صابر‘ولی محمد طوفان‘مہدی شاہ مہدی شامل ہیں۔اب یہ تحریک بہت آگے بڑھ چکی ہے اور انور مانیروال بھی اس طبقہ فکر کا حصہ ہیں۔

چند دن قبل ایک ادبی تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملا‘ادبی تقریبات میں جانے کا موقع کم ملتا ہے‘ اس لیے بہت عرصے کے بعد ایک پشتو ادبی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ایک تو چونکہ مختلف حکومتوں نے زبان کی ترویج پر توجہ نہیں دی اس لیے پشتو زبان اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں مقام پیدا نہ کرسکی‘ شاعروں اور ادیبوں نے اپنی محنت کے بل پر اس زبان کو زندہ رکھا ہے ‘ورنہ بقول شخصے جس زبان میں ملازمت اور تجارت کے مواقع نہ ہوں وہ زبان ترقی نہیں کرسکتی۔پشتو کی مثال بھی اس یتیم بچے کی طرح ہے جس کے ساتھ ہر لیڈر تصویر بنانا چاہتاہے لیکن اس کو گود کوئی نہیںلیتا۔اس تقریب میں شرکت سے خوشی ہوئی کہ پشتو زبان ترقی کر رہی ہے۔

یہ تقریب ضلع صوابی کے مشہور و معروف شاعر انور مانیروال کی نئے چھاپ شدہ کتاب ’’یو ارمان‘‘کی تقریب رونمائی تھی ‘یہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ‘جس میں غزلیات‘رباعیات اور نظمیں شامل ہیں۔تقریب میں کئی نئے اور پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی‘ گپ شپ بھی لگی اور کام کی باتیں بھی ہوئیں‘اول تو داد دینی پڑتی ہے اس تقریب کا اہتمام کرنے والوں کی‘ جو کہ ’’انٹرنیشنل پشتو سوسائٹی‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے‘ اس تنظیم کے روح رواں عابد جان سب کو پسند ہیں‘ بہت متحرک ہیں۔،۔تقریب میں افراسیاب خٹک‘ ڈاکٹر حنیف خلیل‘نورالا مین یوسفزئی ‘عزیر مانیروال‘ ڈاکٹر غلام صمد‘محمد عابد اور روخان یوسفزئی کو سنا‘کچھ شاعری بھی سنی۔آخرمیں موسیقی کی محفل بھی سجائی گئی تھی۔

میرے خیال میں ادب زندگی میں اور سماج میں تبدیلی لا سکتی ہے‘ خیالات کو نکھار سکتی ہے‘ شعور و آگہی کا عمل بڑھا سکتی ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے تخلیق کاروں کو ایسا ماحول میسّر نہیں‘جس میں وہ آرام اور سکون سے اپنے تخلیقی جوہر دکھا سکیں‘ جو ہمارے شاعر اور ادیب تخلیق کرتے ہیں‘یہاں پر ہمارے بزرگ شاعر اور ادیب تخلیقی جوہر پارے تخلیق کرتے ہیںمگر ساری زندگی ان کی ایک کتاب بھی پبلش نہیں ہو پاتی‘ دنیا کے دیگر ممالک میں ایک مصنف ایک کتاب پبلش کرتا ہے اور ساری زندگی اس کتاب کی رائلٹی پر آرام سے گزارا کرتا ہے مگر اس کے برعکس یہاں پر حالات دل شکن ہیں‘جہاں پر حکمرانوں کے پروٹوکول پر کروڑوں‘اربوں خرچ ہو رہے ہیں‘وہاں پر معاشرے کے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی کچھ ضرورہونا چاہیے۔

بہر حال جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کتاب کا موضوع وہی ارمان ہے۔جس کا خواب اربوں غریب روزانہ دیکھتے ہیں‘اچھی اور خوشحال زندگی کا ارمان ‘اسی ارمان کا تصور ترقی پسند ادب نے دیا ہے۔خوشی ہے کہ وہ تحریک ارمان تک پہنچ گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔