ہم کدھر جارہے ہیں؟

مقتدا منصور  پير 26 مئ 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جو کچھ وطن عزیز میں ہو رہا ہے، اس پر فارسی کی یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ ’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘۔ ایک طرف گزشتہ برس کے عام انتخابات کی شفافیت اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور احتجاج ہو رہا ہے۔ انتخابی عمل میں بہتری لانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ دوسری طرف اداروں کے درمیان تصادم میں تیزی آ رہی ہے۔ ساتھ ہی ہر ادارہ، ہر شعبہ اور ہر تنظیم شکست و ریخت کے عمل سے دوچار ہے۔ گویا ہر طرف انتشار و افتراق کا ماحول تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال کا تھوڑا سا گہرائی میں اتر کر جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمارے معاشرے کی اجتماعی نفسیات کے کئی پہلو مضمر نظر آئیں گے۔

جو کچھ ہو رہا ہے اور جس انداز میں ہو رہا ہے، اس نے سوچنے سمجھنے والے پاکستانیوں کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔ محسوس بہت کچھ کیا جا رہا ہے، مگر خوف فساد خلق کی وجہ سے لب کشائی سے گریز کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کھل کر بات کرنے کے بجائے نجی محفلوں میں دل کے پھپھولے پھوڑ کر بھڑاس نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن سینہ بہ سینہ جو باتیں گردش کر رہی ہیں، ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہے اور فکری تقسیم تیزی کے ساتھ گہری ہو رہی ہے۔

ملک جن ان گنت معاملات و مسائل میں گھرا ہوا ہے، ان کا ایک اظہاریے میں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنی گفتگو کو ذرائع ابلاغ میں پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت تک محدود رکھا جائے۔ کیونکہ اس کے اثرات پوری قومی زندگی پر مرتب ہونے کے خدشات ہیں۔ لیکن اس موضوع پر بحث کرنے سے قبل یہ شعر ہر دردمند شہری کے ذہن میں ضرور رہنا چاہیے، جو موجودہ صورتحال کا حقیقی عکاس ہے۔

میں اگر زد پہ ہوں، تو تو بھی خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں

جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اور جس انداز میں کھیلا جا رہا ہے، آثار بتا رہے کہ اس کی زد سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں برقی ذرائع ابلاغ کے لیے کوئی متفقہ ضابطہ اخلاق(Code of Conduct) تیار کیا گیا ہے؟ اگر نہیں تو اس میں قصور کس کا ہے؟ ضابطہ اخلاق کی عدم موجودگی کے باعث آزادی اظہار اور غیر ذمے دارانہ روش میں تفریق ممکن نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ پانچ برس تک اس ملک کے صدر کی مختلف چینلوں پر جس انداز میں تحقیر و تذلیل کی جاتی رہی، اس پر نہ تو کوئی بھی ذمے دار ادارہ حرکت میں آیا اور نہ ہی سیاسی و سماجی تنظیموں نے صدائے احتجاج بلند کی۔

حالانکہ آئینی طور پر صدر ریاست کا سربراہ ہونے کے ناتے اس کی شناخت ہوتا ہے۔ اس کا احترام دراصل ریاست کا احترام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آصف علی زرداری اس عہدے پر رات کے اندھیرے میں قابض نہیں ہوئے تھے، بلکہ دن کے اجالے میں ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ مگر ہم نے نہ پہلے اصول کو تسلیم کیا اور نہ دوسری حقیقت کو قبول کیا۔ اسی لیے ہم نے ہر ایک کی پگڑی اچھالنے کو آزادی اظہار سمجھ لیا، جو ہمارے اخلاق باختہ ہونے کا واضح ثبوت تھا۔

ہم نے اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ میں در آنے والی خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں اور ان کے نتیجے میں کسی بھی وقت متوقع عوامی ردعمل کے بارے میں ان ہی صفحات پر کوئی نصف درجن سے زائد اظہاریے وقتاً فوقتاً تحریر کیے۔ ویسے بھی نقارخانے میں طوطی کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ آج ایک چینل اپنے Over confidence کے باعث جس افتاد کا شکار ہوا ہے، خدشہ یہی ہے کہ دیگر چینلز بھی کسی نہ کسی بہانے ایسی ہی کسی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خبر ایک سنجیدہ معاملہ ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر چند باتوں کا مدنظر رکھا جانا انتہائی ضروری ہے۔ اول، دنیا کے تمام معروف چینلوں پر خبریں پڑھنے والے کے لیے خوش شکل ہونا ضروری نہیں ہوتا بلکہ خبر کا شعور یعنی News Sense ایک بنیادی قابلیت تصور کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی بی سی اور سی این این سمیت تقریباً سبھی عالمی نیوز چینلز پر ان لوگوں کو نیوز اینکر کی ذمے داری دی جاتی ہے، جنھیں رپورٹنگ اور ڈیسک ورک کا وسیع تجربہ ہو اور جو خبر کی اہمیت (News Value) سے آگاہ ہوں۔

دوئم، خبر مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد نشر کی جاتی ہے اور آپس کی دوڑ میں غلط خبر نشر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ سوئم، مذاکروں (ٹاک شوز) کی میزبانی عموماً سینئر صحافی یا وہ دانشور کرتے ہیں، جنھیں سیاسی، سماجی اور معاشی امور پر عبور حاصل ہو۔ چہارم، عالمی سطح پر کوئی بھی نیوز چینل خبروں کے دوران پسِ پردہ گانے نہیں چلاتا۔ کیونکہ اس طرح خبر کی اہمیت متاثر ہوتی ہے اور لوگ خبر کو بھی تفریح کا ذریعہ سمجھنے لگتے ہیں۔ لہٰذا بھارتی چینلوں سے در آنے والی برائی سے جس قدر جلد ممکن ہو جان چھڑائی جائے۔

ایک اور بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ لائیو ٹاک شوز ہیں۔ دنیا بھر میں صرف انتہائی اہمیت کے حامل ایشوز پر لائیو ٹاک شوز نشر کیے جاتے ہیں، جیسے انتخابات پر تبصرہ، کوئی بڑا حادثہ یا سانحہ یا ایسا ہی کسی اہم نوعیت کا معاملہ۔ باقی عام موضوعات پر ہونے والے مذاکرے پہلے سے ریکارڈ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں ہر چھوٹے بڑے موضوع پر لائیو ٹاک شوز کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ ابھی تک فکری بلوغت کے اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں لائیو پروگراموں کی اہمیت کو سمجھ سکے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں گرے (Grey) ایریا انتہائی مختصر ہے اور لوگ کسی نہ کسی انتہا پر کھڑے ہو کر اپنی بات منوانے کے عادی ہوں، تو لائیو پروگرام مسائل کا حل بننے کے بجائے ان میں اضافہ کا سبب بن جاتے ہیں۔

اس لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ زیادہ تر پروگرام پیشگی ریکارڈ کیے جائیں اور ماہر ایڈیٹر سے ان کی ایڈیٹنگ کے بعد انھیں نشر کیا جائے۔ نیوز چینل پر مزاحیہ خاکوں اور طنز و مزاح پر مبنی پروگرام نشر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن ان کے لیے الگ وقت مختص کیا جائے۔ بریکنگ نیوز کی بدعت سے بھی جان چھڑانا پڑے گی۔ دنیا کے بیشتر چینل اب بریکنگ نیوز نہیں دیتے۔ ہمارے یہاں کسی کرکٹر کی منگنی کی رسم کو بھی بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کر کے دراصل بریکنگ نیوز کی اہمیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔

دراصل ہم بحیثیت مجموعی مختلف نوعیت کی انائوں کے اسیر ہیں۔ اسی انا اور احساس برتری نے بنگالیوں کو کمتر جانا اور پیرٹی کا اصول وضع کر کے جمہوریت اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ رسید کیا۔ یہی انا تھی جس نے 1971 میں عوامی لیگ کے ساتھ ڈائیلاگ کے بجائے اس کے خلاف فوجی آپریشن کی راہ اپنائی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد بھی ہمیں عقل نہیں آئی، بلکہ فیوڈل انا مزید مضبوط ہو گئی۔ فکری کثرتیت ہمیں قبول نہیں، جو اصل میں جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔ اسی طرح ثقافتی تنوع بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ معاشرے کے مختلف شراکت دار معاشرے کی مجموعی نفسیات کا مظہر ہوتے ہیں۔ چونکہ ہماری سرشت فیوڈل ہے اس لیے ہر ادارہ اس کا شکار ہے، خواہ وہ ذرائع ابلاغ ہی کیوں نہ ہوں۔

66 برس کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے، کبھی سول بیوروکریسی اپنی حدود سے تجاوز کرتی نظر آئے گی، کبھی فوج اپنی ذمے داریوں سے باہر نکل کر حکمرانی کرنے پر اصرار کرتی نظر آئے گی۔ سیاسی جماعتوں کو جب بھی اقتدار ملا، انھوں نے بھی پارلیمان کو بالادست سمجھنے کے بجائے اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم کرنے کی کوشش کی۔ اب گزشتہ 14 برس سے ذرائع ابلاغ اطلاعات کی عوام تک رسائی کی ذمے داریاں نبھانے کے بجائے فیصلہ ساز بننے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ کیا یہ راستہ ہمیں بحیثیت ایک اہم قومی شراکت دار تباہی کے راستے تک پہنچانے کا سبب تو نہیں بن رہا؟ اگر ان سوالات کے جوابات پر ہم نے سنجیدگی سے غور کر لیا تو منزلیں آسان ہو جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔