سینیٹ کو ایوان بالا ہونا چاہیے

جمیل مرغز  پير 25 دسمبر 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

قدیم رومن سلطنت کی سب سے اعلیٰ کونسل کو ’’سینیٹ ‘‘کہتے تھے جس میں بڑے بڑے سردار‘دانشور اور فلاسفر بیٹھتے تھے ‘سینیٹر ہونا عزت و احترام کا مقام سمجھا جاتا تھا ۔

سینیٹر کا لفظ قدیم فرانسیسی لفظ ”senat”اور قدیم لاطینی الفاظ ”senatus”اور ”senex” سے ماخوذ ہے ‘جن کے معنی ’’بزرگ اور عقلمند شہری ‘‘ کے ہوتے ہیں اس لیے سینیٹ کا مطلب تھا ’’بزرگ اور دانشور شہریوں کی کونسل‘‘۔امریکا میں بھی سینیٹر بہت اہم سیاست دان سمجھا جاتا ہے ‘امریکی مقننہ دو ایوانوں پر مشتمل ہے ایک آبادی کی بنیاد پر منتخب ’’ایوان نمایندگان ‘‘ اور دوسرا ریاستوں کی برابری کی بنیاد پرمنتخب ’’سینیٹ‘‘ ۔یہ ایوان امریکا میں آئین سازی کے وقت 1789میں چھوٹی ریاستوں کے تحفظات کے نتیجے میں قائم ہوا‘اس میں بلا لحاظ آبادی ہر ریاست کے دو ممبر ہوتے ہیں‘1789سے 1913 تک ریاستی اسمبلیاں ہی سینیٹروں کا انتخاب کرتی تھیںلیکن 1913میں آئین کی 17ویں ترمیم کے بعد ہر ریاست عوام کے ووٹوں سے دو سینیٹروں کا انتخاب چھ سال کے لیے کرتے ہیں۔

1959کے بعد چونکہ امریکی ریاستوں کی تعداد 50 ہے اس لیے سینیٹ اس وقت سے 100نشستوں پر مشتمل ہے ‘کوئی مخصوص نشست نہیں بلکہ ہر ریاست دو سینیٹر منتخب کرتی ہے ‘چاہے وہ مرد ہو کہ عورت یا ٹیکنوکریٹ ‘کوئی بھی قانون صرف اس وقت منظور ہوتا ہے جب کہ آبادی کے لحاظ سے منتخب اسمبلی(ایوان نمایندگان) اور ریاستوں یا صوبوں کی برابری کی بنیاد پر منتخب سینیٹ اس کی منظوری دے دے‘اس طرح چھوٹی ریاستوں کے خدشات دور ہو گئے۔

ہر وفاق میں ایوان بالا کی اہمیت ہوتی ہے لیکن پاکستان کے مخصوص حالات میں (سینیٹ)کی اہمیت بہت زیادہ ہے‘ پا کستان میں تینو ں صو بے مل کر بھی آبادی اور قو می اسمبلی میں نما یند گی کی لحا ظ سے پنجا ب سے کم ہیں ‘ہماری قومی اسمبلی میں پنجاب 58فی صد ہے جب کہ باقی تینوں صوبے ملا کر 42فی صد ہیں‘آبادی کے اس تناسب کے ساتھ وہاں چھوٹی قومیتیں خود کو محروم سمجھتی ہیں۔

ان حالات میں سینیٹ ہی چھوٹے صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں1973 کے آئین میں سینیٹ کا ایوان جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا وہ حاصل نہ ہوسکا بلکہ اس ادارے کی درگت بنادی گئی ہے ‘ سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوتا ہے‘ لینا پکڑنا ‘ممبران فروخت ہو رہے ہوتے ہیں۔

پاکستان کا سینیٹ اپنی ساخت اور اختیارات دونوں کے لحاظ سے ایک عجوبہ ہے ‘یہ ایک بے اختیاراور ایک نمائشی ادارہ بنایا گیا ہے ‘عجیب بات تو یہ ہے کہ صوبوں کی نمایندہ ایوان میں اسلام آباد کو 4نشستیں دی گئی ہیں ‘یہ نشستیں مرکز کو کس کھاتے میں دی گئی ہیں آخر یہ کس کی نمایندگی کرتے ہیں؟ سوئٹزر لینڈ ہو یا امریکا ‘ان تمام ممالک میں سینیٹ صرف صوبوں یا ریاستوں کا نمایندہ ہوتا ہے۔

پاکستان ایک وفاق ہے اور اس لیے اس کی پارلیمان کے دو ایوان ہیں، ایک قومی اسمبلی اور ایک سینیٹ۔آئین کے آرٹیکل 59میں سینیٹ کے اراکین کی تعداد کے بارے میں تفصیل دی گئی ہے جو خاصی دلچسپ ہے۔سینیٹ کے کل ممبران کی تعداد 104ہوگی‘ ہر صوبائی اسمبلی 14ممبرمنتخب کرے گی ‘8ممبران فاٹا سے منتخب ہوں گے۔

2ممبر جنرل سیٹ ‘ ایک خاتون اور ایک ٹیکنوکریٹ (بشمول علمائ) کو اسلام آباد کے وفاقی علاقے سے منتخب کیا جائے گا‘ہر صوبائی اسمبلی 4خواتین کو بھی منتخب کرے گی ‘ہر صوبائی اسمبلی 4ٹیکنوکریٹس (بشمول علمائ) کو بھی منتخب کرے گی اور ہر صوبائی اسمبلی ایک ایک اقلیتی رکن کو بھی منتخب کرے گی۔فاٹا کی نشستیں اب ختم کر دی گئی ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرسینیٹ خالص صوبوں کی نمایندگی کرنے والا ہاؤس ہے ‘تو پھر اس میںوفاق نے اسلام آباد سے 4اور فاٹا سے 8 کل 12نشستیں کس حساب میں اپنے پاس رکھی تھیں؟اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کو ابتداء سے وفاقیت پسند نہیں تھی۔

اقلیتوں ‘خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی الگ الگ نشستوں کاسینیٹ میں کیا کام ؟یہ تو صوبوں کے حقوق کے تحفظ کا ایوان ہے ‘خواتین اوراقلیتوں کے حقوق کے لیے صوبائی اور قومی اسمبلی میںنشستیںموجود ہیں‘یہ تو صوبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بہترین افراد نمایندگی کے لیے ایوان میں بھیجیں‘منتخب ہونے والی خواتین کی کوالیفیکشن کیا ہوتی ہے۔

کچھ نہیں بس وہ خواتین ہونی چاہیے ‘اگر کسی سیاسی لیڈر یا بڑے آدمی کی رشتہ دار ہو تو پھر کیاکہنے؟ کیا سینیٹ میں امور خانہ داری کرانی ہے؟ ٹیکنوکریٹ اور جنرل سیٹ کے امیدوار میں کیا فرق ہوتا ہے؟کوئی بھی صاحب جنرل سیٹ کے امیدوار بھی ہوسکتے ہیںاور ٹیکنوکریٹ کی سیٹ کے لیے بھی ‘ایک انسان میں دونوں خوبیاں کیسے ہو سکتی ہیں’یہ کیا بات ہے کہ اگر جنرل نشست نہ ملی تو ٹیکنوکریٹ ہوگیا ؟

پارٹیوں کو چاہیے کہ ایوان بالا میں ان لوگوں کو بھیجیں جو صحیح طور پر صوبے کی نمایندگی کرسکیں ‘ان میں ٹیکنوکریٹ ‘سابقہ بیوروکریٹ ‘وکلا‘ماہرین ‘قابل خواتین‘ صحافی اور دانشور سب ہونے چاہیے اس کے لیے خواتین ‘اقلیتوں اور ٹیکنوکریٹ کی الگ الگ تشخیص غلط ہے ‘یہ سینیٹ ہے کہ ملغوبہ یا کوئی بارات ؟

اگر سینیٹ کے ادارے کی اصلاح مطلوب ہو تو پھر صرف طریقہ انتخاب نہیں ‘بلکہ اس ایوان کی بنیادی اہمیت کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ ترامیم کی طرف توجہ دینی چاہیے ‘عجیب حکمرانوں سے پالا پڑا ہے۔ چونکہ سینیٹ صوبوں کا نمایندہ ا یوان ہے تو اگر کوئی اپنے صوبے سے انتخاب لڑنے والا امیدوار مالدار ہو تو اس میں کو ئی برائی نہیں ہے ‘یہ اس کا حق ہے کیونکہ یہ نظام ہی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ہے۔

کوئی غریب سیاسی کارکن انتخاب تو کیا ‘ٹکٹ کے حصول کے لیے پارٹی کو درخواست دینے کا بھی نہیں سوچ سکتا ‘ البتہ پیسوں کے بل پر ووٹ خریدنا ناجائز ہے‘ اس عمل کو روکنا لازمی ہے‘ اس کے لیے ٹکٹ دیتے وقت سیاسی پارٹیوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔

اگر اپنے صوبے میں انتخابات کے دوران دولت کا استعمال ایک برائی ہے تو اس سے زیادہ ایک اور قباحت بھی ہے‘کچھ لوگ اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان کو اپنے صوبے سے اٹھاکر دوسرے صوبے میں ٹکٹ دی جاتی ہے‘ صوبے سے تعلق نہ رکھنے والے کو پارٹیوں کی طرف سے ٹکٹ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟کیا یہ صوبائی نمایندگی کے ساتھ مذا ق نہیں ہے؟

مارچ 2015ء کے سینیٹ انتخابات میںمسلم لیگ کی طرف سے مشاہداللہ خان اور نہال ہاشمی کو پنجاب سے ٹکٹ دیناجب کہ دنوں کا تعلق پنجاب سے نہیں ہے ‘ظفر اقبال جھگڑا اور راحیلہ مگسی کو اسلام آباد سے ٹکٹ دینا جب کہ جھگڑا صاحب کا تعلق خیبر پختونخوا اور راحیلہ کا تعلق سندھ سے ہے ‘پیپلز پارٹی نے رحمان ملک کو سندھ سے ٹکٹ دیا ‘ جب کہ ان کا تعلق سیالکوٹ پنجاب سے ہے ‘وفاق سے بھی جنھیں منتخب کرایا گیا۔

ان کا تعلق بھی اسلام آباد سے نہیں ہے۔ایک صوبے کا ووٹر آخر وقت میں دوسرے صوبے کو ووٹ منتقل کرتا ہے ‘اس طرح کے سنیٹرز کا متعلقہ صوبے کے عوام سے نہ تو کوئی رابطہ ہوتا ہے اور نہ ان کے مسائل اجاگر کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے‘کیا یہ سیاسی رشوت نہیں ہے ‘ ماضی میں جماعت اسلامی جیسی پارٹی بھی کراچی کے لوگوں کو خیبر پختونخوا سے کامیاب کرا چکی ہے‘ کیا یہ سینیٹ اور صوبے کے عوام کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟

پاکستان میں چھوٹے صوبوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سینیٹ کے اختیارات میں ا ضافہ نا گز یر ہے ‘اس ایوان کا ا نتخا ب بر ا ہ ر است ووٹ سے ہو نا چاہیے۔ چیف جسٹس ‘ ا فو ا ج کی سر بر اہو ں ‘ چیف ا لیکشن کمشنر ‘ و فا قی محتسب ‘ آ ڈ یٹر جنر ل ‘ سفیرو ں ‘ کا ر پو ر یشنز کے چیئر مینز ‘ بینکو ں‘د یگر مرکزی کارپوریشنوں اور اداروں کے سر بر ا ہو ں اور کابینہ کے تقرری کے لیے سینیٹ کی منظور ی لا ز می قر ار دی جا ئے ‘قا ئد ا یو ان (وزیر ا عظم) پر ا عتماد اور عد م ا عتماد دو نو ں مو ا قع پر سینیٹ کو قو می ا سمبلی کے بر ا بر وو ٹ کا حق د یا جا ئے ‘بجٹ اور مالیا تی بلو ں کی منظور ی‘ سفیروں کی تقرری اور حکومتی اخراجات اور قرضوں پر بھی سینیٹ کی منظوری ضروری ہے۔

عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب اور اختیارات کا حامل سینیٹ ہی اعتماد اور عزت کے قابل ادارہ سمجھا جائے گاورنہ کچھ بھی ہوجائے عوام کی نظروں میں سینیٹ لایعنی اور صرف نشستندو برخاستند کا ادارہ رہے گا ‘ ایک ایسا ایوان جہاں لیڈروں کے چہیتے عیش کرنے ‘فنڈز اور الاؤنسز حاصل کرنے جاتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق کے اس اہم ایوان کو مقتدر بنایا جائے‘یہ بھی نئے عمرانی معاہدے کے لیے لازمی اور18 ویں Amendmentکا لازمی تقاضہ ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ آئین کو مزیدبازیچہ اطفال نہ بنا یا جائے بلکہ اس کی روح کے مطابق اس پر عمل کیا جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔