بچوں میں قدرتی اور تخلیقی صلاحیتوں کو کیسے اُجاگر کیا جائے؟

ایاز مورس  اتوار 21 جنوری 2024
اطفال کی بہترین پرورش اور کام یابی کے لیے ان سات اہم نکات پر عمل کریں ۔ فوٹو : فائل

اطفال کی بہترین پرورش اور کام یابی کے لیے ان سات اہم نکات پر عمل کریں ۔ فوٹو : فائل

ایک لمحے کے لیے ذرا تصور کریں کہ ہماری دُنیا اور زندگی بچوں کے بغیر کیسی ہوگی! بالکل ویران اور بے معنی۔ بچے ہماری دُنیا کی خوب صورتی اور رونق ہیں جن کے بغیر خاندان اور دُنیا کا مکمل ہونا ناممکن ہے۔

بچے ہماری دُنیا کا مستقبل اور سرمایہ ہیں۔ یہ دُنیا کی خوش حالی اور ترقی کا وسیلہ ہیں۔ اس لیے ان کی بہترین پرورش اور قدرتی و تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے پورے معاشرے بالخصوص والدین کو بھرپور توجہ دینے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت ایک فل ٹائم جاب اور آرٹ ہے۔

والدین بنیادی طور پر آرٹسٹ ہوتے ہیں، اور کسی بھی آرٹسٹ کے لیے اسکلز سیکھنا انتہائی ضروری ہے۔ بچوں کی پرورش اور تربیت کے لیے خود کو تیار کرنا، خود کو بدلنا اور سیکھنے کے لیے تیار رہنا لازمی امر ہے۔ بچے والدین کے لیے تحفہ بھی ہیں اور ذمے داری بھی۔ یاد رکھیں، بچوں میں کام یابی کے لیے اپنی شخصیت پر اعتماد اور ناکامی کا خوف والدین کی جانب سے ملتا ہے۔

والدین ہی اپنے بچوں میں یہ اعتماد پیدا کرتے ہیں جو اُنہیں معاشرے میں آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ بچوں کی پرورش کے لیے اپنی انا اور بڑے ہونے کی ضد کو ایک سائیڈ پر رکھیں، اُنہیں اپنی محبت، شفقت اور وقت سے بہتر انسان بننے میں معاونت کریں۔

اس مضمون میں ہم سات اہم نکات پیش کریں گے جو والدین کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ بن اور وہ ان نکات پر عمل پیرا ہو کر اپنے بچوں کی قدرتی اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ ایک بچے کو زندگی میں کام یاب ہونے کے لیے صرف دو ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کے لیے اُس وقت تالی بجا سکیں، جب دُنیا اسے بالکل نہیں جانتی ہے۔ یہ دو ہاتھ ماں اور باپ کے ہاتھ ہوتے ہیں۔

یونسیف پاکستان کے مطابق ’’بچوں کی پرورش کرنا دُنیا کا سب سے اہم کام ہے اور اس میں ماں اور باپ دونوں کو دل چسپی لینی چاہیے۔ اپنے بچوں کے ساتھ وقت ضرور گزاریں۔ آپ کے بچے زندگی میں کام یاب ہوں گے جب آپ بچپن سے کریں گے ان کی پرورش ہر قدم پر۔‘‘

معروف مصنف اور ماہرنفسیات ایڈم گرنٹ نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’بطور والدین آپ کی کام یابی یہ نہیں، کہ آپ کے بچے بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں یا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ بحیثیت والدین آپ کا اصل امتحان یہ نہیں کہ آپ کے بچوں نے کیا حاصل کیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ کیا بنے ہیں اور وہ دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔‘‘

نام ور ماہرنفسیات اور مصنف ڈاکٹر خالد سہیل کہتے ہیں،’’میری نگاہ میں انسانی بچہ ایک بیج کی طرح ہوتا ہے جس میں اس کی عظمت کے سب امکانات موجود ہوتے ہیں۔

وہ ایک تن آور درخت بن سکتا ہے اور اپنے معاشرے کو اپنے میٹھے پھلوں کے تحفے دے سکتا ہے لیکن تن آور درخت بننے کے لیے جس طرح کسی بیج کو تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح انسانی بچے کو ماں باپ کی محبت اور اساتذہ کی راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر یہ چیزیں اسے مل جائیں تو وہ ایک پیار اور محبت کرنے والا امن پسند انسان بن جاتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر ایک کام یاب ادیب، شاعر، سائنس داں، وکیل یا سیاسی کارکن بن سکتا ہے اور اپنی خاندانی اور معاشرتی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے، لیکن اگر وہ اپنے حقوق و مراعات سے محروم رہے اور اس کا استحصال ہوتا رہے تو وہ ایک شدت پسند اور تشدد پسند انسان بھی بن سکتا ہے۔‘‘

والدین دُنیا میں سب سے زیادہ رسک لینے والے انسان ہو تے ہیں، جو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے، اپنی جوانی، سکون، دولت اور وقت داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اس آس اور اُمید کے ساتھ کہ ایک دن بچے کام یاب ہو کر اُن کے خوابوں کی تکمیل کریں گے۔ اس سارے عمل میں توقعات کا بوجھ والدین اور بچوں دونوں کے درمیان دُوری پیدا کردیتا ہے۔

یہ دُوری وقت اور حالات کے ساتھ فاصلوں کی دیوار بن جاتی ہے اور یہ خوب صورت رشتہ خواہشات کی نذر ہوجاتا ہے۔ اپنے بچوں کے کندھوں سے اپنی توقعات کا بوجھ ہٹائیں اور اُنہیں اپنا دوست بنائیں۔ کام یابی آپ کی اور آپ کے بچوں کا مقدر ہوگی۔ اصل کمال بچوں کی تربیت کرنا ہے، ورنہ بچے تو جانور بھی پال لیتے ہیں۔

1:  بتائیں نہیں کرکے دکھائیں

والدین کو یہ بات سمجھنا پڑے گی کہ بچے والدین کے ’’بتائے‘‘ ہوئے پر نہیں بلکہ، ’’اپنائے‘‘ ہوئے اُصولوں پر چلتے ہیں۔ پہلے وہ کریں جو آپ چاہتے ہیں کہ بچے کریں۔ میں جب بھی والدین، اپنے رشتہ داروں اور ٹریننگ سیشن میں مختلف لوگوں سے ملتا ہوں تو وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو یہ کہتے ہیں کہ وہ یہ کریں لیکن آج کل کے بچے سنتے ہی نہیں ہیں۔

میں ان کے سوال کو غور سے سنتا ہوں اور انہیں اکثر یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ یاد رکھیں کہ ہمیں بچوں کو بتانے سے زیادہ انہیں کر کے دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ انسانی فطرت اور تجسس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہی کرنے کی کوشش کرتا ہے، بالخصوص بچے کیوںکہ ان کے اندر چیزوں کو پرکھنے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے، اس لیے وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اسی کو اپنا لیتے ہیں اور عملی طور پر کرکے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ والدین ہیں، یا اساتذہ یا بچوں کی تربیت کرتے ہیں تو آپ کے لیے لازم ہے کا آپ بچوں کو بتانے کی بجائے انہیں وہ کر کے دکھائیں جو آپ چاہتے ہیں کہ وہ کریں۔

2:  جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ماحول بنائیں

آپ جو کہتے ہیں ویسا ماحول فراہم کریں اور بچوں کی معاونت کر یں۔ ایک اہم نکتہ جو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر انسان کے اندر خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اچھائیوں دُنیا میں ظاہر کرسکے لیکن انسان کا ماحول اس کی پرورش اور سپورٹ سسٹم اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ ویسا انسان بن سکے جیسا قدرت نے اُسے تخلیق کیا ہے۔

اس لیے اکثر والدین بچوں کو ویسا بنانا چاہتے ہیں جیسے ان کی خواہش ہوتی ہے اور یہ خواہش بُری نہیں ہے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں بچوں کو ویسا ماحول اور سپورٹ سسٹم مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کی عام سی مثال یہ ہے کہ والدین آج کل بہت شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچے فون بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اور کتابیں نہیں پڑھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے گھر میں فون اور ٹی وی کے استعمال کا باقاعدہ کوئی طریقہ کار نہیں اور کتابیں ہی مہیا نہیں اور پڑھنے کا کلچر نہیں ہے تو بچے وہ نہیں کریں گے جو آپ صرف کہتے ہیں۔

3 : بچوں کی راہ نمائی کرنے کے لیے نئے طریقے سیکھیں

اکثر والدین اسی طریقے سے اپنے بچوں کی پرورش کرنا چاہتے ہیں جس طرح سے اُن کے والدین نے ان کی پرورش کی تھی۔ یہ ایک مشکل امر ہے کیوںکہ 2024 کا بچہ ہمارے دور کے بچپن سے بہت مختلف ہے۔

اس لیے والدین کو بچوں کی تعلیم و تربیت ان کی سوچ، شخصیت اور سیکھنے کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے خود سیکھنے کے نئے طریقے سیکھنے ہوں گے اور ان رویوں، باتوں اور سوچوں کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا جو انہوں نے اپنے بچپن میں سیکھی تھیں تاکہ وہ اپنے بچوں کو آج کے جدید دُور کے مطابق ہم آہنگ کروا سکیں۔ آپ کو بچوں کی تربیت کرنے کے نئے طریقے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

4:  بچوں کے تجسس کی قدر کریں

انہیں وہ کرنے کی آزادی دیں جو وہ چاہتے ہیں اور کیسے کرنا چاہتے ہیں۔ بچوں کے تجسس کی قدر کرنا درحقیقت اُن کی قدرتی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کے مترادف ہے۔ بہت سارے والدین بچوں کو سکھانے اور ان کی تربیت کرنے کے دوران اُن کے قدرتی تجسس کو دبا دیتے ہیں۔

تجسس قدرت کا سب سے انمول اور بہترین تحفہ ہے اور بچے اس تحفے سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچوں کے تجسس، ان کے سیکھنے کے انداز اور اُن کی قدرتی صلاحیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کا ساتھ دیں۔

5 :  غلطیوں کو قبول کریں اور نئے تجربے کو اپنائیں

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں غلطی کو ناکامی سے تشبیہ دی جاتی ہے جب کہ غلطی درحقیقت اس عمل کا نتیجہ ہے جو ہمیں ناکامی سے کامیابی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ اس لیے بہت سارے والدین اپنی زندگی کے ناکام تجربوں کی بنیاد پر بچوں کو غلطیاں کرنے سے محروم رکھتے ہیں اور بچے ان غلطیوں کے خوف سے نئے تجربات اور سیکھنے کے عمل سے قاصر رہتے ہیں۔

والدین کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ بچے اگر غلطیاں نہیں کریں گے تو وہ سیکھنے کے عمل میں سے نہیں گزریں گے۔ سیکھنا، غلطیوں کے عمل سے گزر کر آگے بڑھنے کا نام ہے۔ بچوں کی غلطیوں پر انہیں ڈانٹنے اور خوف زدہ کرنے کی بجائے، انہیں متحرک کریں اور انہیں غلطیوں کو مختلف نظر سے دیکھنے، تجربات سے فائدہ حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کی جستجو دیں اور اپنے ماضی کے تجربے کو ان کی غلطیوں میں مداخلت نہ کرنے دیں۔

6:  بچوں کے لیے بچے بنیں

بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے لیے ’’بڑے‘‘ نہیں ’’بچے‘‘ بننا پڑتا ہے۔ بہت سارے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عمر اور تجربے میں بڑے ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں لیکن آج کے دور میں یہ بات کسی حد تک درست نہیں کیوںکہ بچے جس دُور اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

بہت سارے والدین اس چیز سے بالکل بھی واقف نہیں ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنی عمر کی بنا پر بڑے بننے کی بجائے بچوں کے لیے بچے بننا سیکھیں، ان کے معیار، اُن کی سوچ اور اُن کی عمر کے مطابق ان سے برتاؤ کریں۔

7: اپنے بچوں کا موازنہ دوسروں سے نہ کریں

یہ عمل میرے نزدیک انتہائی نامناسب ہے کہ ہم اپنے بچوں کا دوسرے بچوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ عمل ہی قدرت کے قانون کی خلاف ورزی ہے کیوںکہ قدرت نے ہر انسان، ہر بچے کو ایک منفرد اور مختلف شخصیت دے کر پیدا کیا ہے اس لیے کسی بھی بچے کہ سوچنے، سمجھنے اور چیزوں کو عملی طور پر کرنے کا انداز کا، کسی دوسرے بچے سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔ آج کے دور میں بچے مختلف طرح سے سیکھتے، سمجھتے اور چیزوں کو کرتے ہیں۔ اس ضمن میں Multiple Intelligencesکی تھیوری ایک بہترین مثال ہے۔

خلیل جبران نے اپنی کتاب پرافٹ میں لکھا ہے،’’ایک عورت نے، جس نے اپنے بچے کو گود میں اٹھایا ہوا تھا، پوچھا‘ ہمیں بچوں کے بارے میں بتاؤ؟ اس نے کہا ’تمہارے بچے تمہارے نہیں ہیں یہ زندگی کی امانت ہیں انہیں اپنی محبت دو اپنے خیالات نہ دو کیوںکہ ان کے اپنے خیالات ہیں۔

تم ان کے جسموں کا خیال رکھ سکتے ہو روحوں کا نہیں۔ ان کی روحیں فردا کے لیے ہیں جہاں تمہاری رسائی نہیں، خوابوں میں بھی نہیں۔‘‘ اگر والدین چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کام یابی، عزت اور شہرت حاصل کریں، تو اپنے بچوں میں اپنی زندگی کے منفی تجربات، نفرت آمیز رویے اور حسد کے جذبات منتقل نہ کریں کیوںکہ والدین بچوں کو تلقین کرتے ہیں اور بچے والدین کی تقلید کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔