قابل فخر ظفر علی

وجاہت علی عباسی  پير 30 جون 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

کچھ دن پہلے ایک پاکستانی فلمی ایوارڈز میں ایکٹر شان نے اسٹیج پر آکر کہا تھا کہ میں پاکستانی ہوں اور صرف اپنی مٹی سے جڑ کر کام کروں گا، باہر والوں کو ہمارے ساتھ کام کرنا ہے تو یہاں آکر کام کریں، ہم ان کے ملک نہیں جائیں گے۔

علی ظفر جو پاکستان کے مشہور سنگر ہیں اور اب ہندوستانی فلموں میں کام کر رہے ہیں خود پر براہ راست حملہ سمجھ کر شان کو جواب دینے اسٹیج پر آئے، علی ظفر نے اسٹیج پر آکر کہا کہ میں اپنے سینئر آرٹسٹ شان کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ کہوں گا کہ کسی دوسرے ملک جاکر کام کرنے میں کوئی حرج نہیں، ہمیں ان پروجیکٹس کو باہمی تعاون کی نظر سے دیکھنا چاہیے، یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم وہاں جاکر کسی بھی طرح کی غلامی کر رہے ہیں۔

علی ظفر کی بات میں دم تھا لیکن شان کی بات کا مقصد دراصل یہ تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جس طرح کے حالات رہ چکے ہیں اس کے بعد ان سے تعلقات بنانے کے لیے برابری کی سطح پر بات اور کام کرنا چاہیے اور صرف ہمارے بار بار وہاں جاکر کام کرنے سے ہم برابر نہیں ہوتے۔

شان کو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ علی ظفر کے انڈیا جاکر کام کرنے کی حمایت کا وہ برا نہ منائیں کیونکہ علی ظفر نے انڈیا جاکر ویسے بھی کوئی کمال نہیں کیا، جتنی ہندوستانی فلموں میں انھوں نے کام کیا وہ بری طرح فلاپ ہوگئیں نہ صرف ایکٹنگ کے معاملے میں بلکہ ان کا کوئی گانا بھی ایسا نہیں تھا جو بلاک بسٹر ثابت ہوتا۔ اب علی ظفر اگر وہاں جاکر ان کا نقصان پہ نقصان کیے جا رہے ہیں تو شان سمیت پوری قوم کو علی ظفر سے خوش ہونا چاہیے۔

آج ہم ایکٹر و سنگر علی ظفر کی بات نہیں کر رہے بلکہ ’’ظفر علی‘‘ کی بات کر رہے ہیں جنھوں نے ہماری قوم کی ہالی ووڈ میں ناک اونچی کی ہے لیکن انھیں غالباً ہمارے ملک میں کوئی نہیں جانتا۔

آپ اگر گوگل پہ ’’ظفر علی‘‘ لکھیں تو سرچ رزلٹ میں ’’علی ظفر‘‘ کے سیکڑوں صفحے کھل جاتے ہیں لیکن کہیں بھی آپ کی ملاقات اڑتیس سالہ ’’ظفر علی‘‘ سے نہیںہوتی جو کراچی کا ایک عام لڑکا تھا جس نے اپنی محنت سے تین آسکر ایوارڈز جیتے اور دنیا کی سب سے بڑی Animation Film کو کامیاب بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔

میر ظفر علی کراچی کے ایک بڑے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے تھے اور ہر عام لڑکے کی طرح فلمیں دیکھنے کا شوق رکھتے تھے، Jurassic Park نامی فلم نے ان کی زندگی کو ایک نیا موڑ دیا، اس فلم سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے Visual Arts کو اپنا پروفیشن بنانے کی ٹھان لی۔

پاکستان کے نوجوانوں کو وہ کامیابی نہ ملنے کی وجہ جوکہ دوسرے غیرملکی نوجوانوں کو ملتی ہے یہ ہے کہ ہمارے یہاں سوسائٹی کے بنائے قوانین آپ کے خوابوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ علی کو بھی کمپیوٹر سائنس کرنے کے لیے ایک بڑے ادارے میں داخلہ لینا پڑا لیکن وہ علی کا مستقبل نہیں تھا۔ انھیں Visual Arts کا انتخاب کرنا تھا تاکہ وہ بھی جیوراسک پارک جیسی فلمیں بناسکیں، اس لیے ڈگری لینے کے بعد جاب ڈھونڈنے کے بجائے انڈس ویلی میں گرافک ڈیزائننگ کی کلاسیں لیں، جس کے بعد انھوں نے 3d Animation میں ہی جاب تلاش کرنی شروع کی۔

دو سال علی نے کراچی میں ہی کام کیا اور درجنوں ٹی وی ایڈز بنائے، اگر انسان کا جذبہ سچا اور مضبوط ہو تو وہ بڑے سے بڑے پہاڑ سر کرلیتا ہے۔

علی نے امریکا میں Graphic Designing کے کورس کے لیے اپلائی کیا اور امریکا چلے گئے، 1999 میں، موقع ملتے نہیں بنائے جاتے ہیں، ظفر علی نے اپنی کامیابیوں سے ثابت کیا، دل لگا کر پڑھائی کی اور کورس ختم ہوجانے کے بعد جگہ جگہ اپنا Resume بھیجنے کے بجائے انھوں نے اپنی شوریل بنائی اور مختلف اسٹوڈیوز کو بھیجی تاکہ وہ ان کا کام دیکھ سکیں۔

دو ہی ہفتوں میں ظفر علی کو ہالی وڈ سے کال آگئی اور ایک بڑی فلم Day after Tomorrow کے لیے ان کو گرافک ڈیزائننگ کا کام مل گیا۔

رکنا اور تھکنا یہ دو لفظ کسی بھی کامیاب آدمی کی ڈکشنری میں نہیں ملتے، اتنی بڑی فلم مل جانے کے بعد بھی ظفر علی رکے نہیں وہ بہتر سے بہتر کام کرنے کی چاہ میں آگے بڑھتے رہے۔

پاکستان میں اکثر میڈیا میں ہم ایسے لوگوں کو زیادہ سامنے لے آتے ہیں جنھیں زیادہ لفٹ نہیں دینی چاہیے، اگر کوئی خاتون مارننگ شو میں غلط کام کرتی ہیں تو انھیں مزید پبلسٹی دینے کے بجائے ان لوگوں کو میڈیا پر لانا چاہیے جو ہمارا نام روشن کر رہے ہیں۔ علی کی کامیابی کی بات کرتے پاکستانی میڈیا والے کبھی نظر نہیں آئے لیکن اس سے علی کی کامیابیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Incredible Hulk, Spiderman, Three, Ghost Rider, X-Men جیسی کامیاب فلموں کے علاوہ دنیا کی سب سے بڑی اینی میشن فلم FROZEN کے زیادہ تر کام کا سہرا بھی ظفر علی کے سر جاتا ہے۔ یہ 2013 میں ریلیز ہوئی وہ اینی میشن فلم ہے جس میں ہیروئن پوری دنیا کو برف سے جما دیتی ہے۔ فلم میں نظر آنے والی ساری برف علی نے اکیلے animate کی ہے، نہ صرف سال کی بہترین بلکہ تاریخ کی ٹاپ ٹین فلموں میں سے ایک قرار دی گئی ہے۔

علی نے FROZEN پر آسکر ایوارڈ جیتا لیکن یہ ان کا پہلا نہیں تیسرا آسکر ایوارڈ تھا، علی کو اپنے ملک سے پیار ہے اور امریکا میں جب بھی ان سے کوئی انٹرویو لیتا ہے تو وہ اس سے اپنے بچپن، پاکستان اور پاکستانیوں کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں وہ پاکستان کی اچھی تصویر کھینچتے ہیں۔

اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ انڈیا آنے جانے والی جس بات پر شان اور علی ظفر بحث کر رہے تھے اسی انڈیا میں کوئی اتنا ٹیلنٹڈ شخص نہیں جتنا ظفر علی پاکستان اپنی فلم انڈسٹری دوبارہ کھڑی کرنے کی بات کرتا ہے اور وہ لوگ جو پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستان کے لیے کچھ کرسکتے ہیں وہ انڈیا کا کب ٹکٹ کٹواؤں کی تاک میں لگے رہتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری قوم میں ایسے بھی بیٹے موجود ہیں جو ایسا کام کر رہے ہیں جن سے دوسری فلم انڈسٹریز بلینز آف ڈالرز کما رہی ہیں، کیوں نہ ہم ان کو ایوارڈز دیں، ٹی وی شوز پر بٹھائیں، عزت و وقار دیں، کیوں ہم انھیں وہ جگہ نہیں دیتے جس کے وہ حقدار ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔