یہ بڑی اچھی خبر ہے کہ ٹیکس چوروں کو سزائیں دی جائیں گی لیکن ’’ٹیکس خوروں‘‘ کو کیا دیا جائے گا۔یہ ایک سیدھی بات ہے کہ ٹیکس حکومت کاحق اورعوام کا فرض۔ لیکن جہاں حقوق ہوتے ہیں وہاں فرائض بھی ہوتے یا جہاں اختیارہوتا ہے وہاں ذمے داری بھی ہوتی ہے، چنانچہ تمام مخلوقات میں انسان ایسی مخلوق ہے جو صاحب اختیار ہے ،یہ چاہے تو اچھا بھی بن سکتا ہے اور چاہے تو برا۔ خیر بھی ہوسکتا ہے ، اس لیے یہ مکلف اور جوابدہ بھی ہے جب کہ باقی مخلوق صرف جبلت کے تابع ہے ، شیر گوشت کھاتا ہے گھاس نہیں بکری گھاس کھا سکتی ہے گوشت نہیں مطلب یہ ان کے پاس اختیار یاچوائس نہیں ہوتی اس لیے جواب دہ بھی نہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری حکومتیں عوام سے ٹیکس تو بڑھ چڑھ کر زبردستی وصول کرتی ہیں بلکہ اس خبرکے مطابق سزائیں بھی دیتی ہیں مگر بدلے میں اپنا فرض اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتیں اور وہ ذمے داری یا فرائض ’’چار‘‘ ہیں ، عوام کی جان مال اورعزت کاتحفظ۔ صحت کاتحفظ ۔ تعلیم کاتحفظ۔ اور روزگار کا تحفظ۔
اب نگاہ ڈالیے کیا ہماری حکومتیں اپنی یہ ذمے داریاں یا فرائض پوری کرتی ہیں؟
اگر پوری کرتیں توملک میں این جی اوز، مخبر اداروں، پرائیویٹ سیکیورٹی اداروں، پرائیویٹ درسگاہوں اورقصائی خانوں سے مشابہہ کلینک اور اسپتال نہ ہوتے ۔ بلکہ ان کی بے تحاشا بھرمار نہیں ہوتی۔ جہاں تک جان مال اورعزت کی بات ہے تو اس کے لیے قائم اداروں سے لوگ اتنے ڈرتے ہیں جتنے ظالموں، لٹیروں، ڈاکوؤں اورچوروں سے ڈرنا چاہیے بلکہ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ حکومتی اداروں کے پاس جانے کے بجائے لوگ مجرموں کے پاس جانا پسند کرتے ہیں چنانچہ کوئی قتل ہوجائے، مال لٹجائے، آبرو لٹ جائے تو زیادہ تر خاموش رہنا بہتر سمجھتے ہیں کہ سرکاری اداروں کے پاس جانا، خود کو دوبارہ لٹوانے کے مترادف سمجھتے ہیں بلکہ سرکاری لٹیرے ان لٹیروں سے زیادہ بے رحم ہوتے اور زیادہ لوٹتے ہیں ۔
وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا جو لطیفہ نہیں حقیقہ ہے کہ کسی بین الاقوامی فورم میں مختلف ملکوں کی پولیس اپنی کارکردگی بتا رہی تھی، کسی نے کہا کہ ہم دودن میں مجرموں کاپتہ لگا لیتے ہیں، کسی نے ایک ہفتہ کہا، کسی نے چوبیس ’’وارداتیوں‘‘ کا پتہ لگانے کی بات کی ، پاکستانی مندوب کی باری آئی تو اس نے شکم کے مٹکے پر بیلٹ کستے اورمونچھ کو تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو چوبیس گھنٹے پہلے پتہ ہوتا ہے کہ کہاں کہاں ، کون کون ، کیا کیا واردات کرنے والا ہے ۔
اس سلسلے میں کارل مارکس کے ساتھی فریڈرک اینگلز نے اپنی کتاب ’’خاندان، ریاست اور ملکیت‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک جگہ جنگل سے وحشی آکر بستی والوں کو لوٹتے تھے، بستی والوں نے اپنی حفاظت کے لیے محافظ رکھ لیے لیکن پھر ان محافظوں کے مطالبے تقاضے اورنخرے اتنے بڑھ گئے، یوں کہئے کہ حکومت ہوگئے ، تب بستی والے اپنے ان محافظوں کی چیرہ دستیوں (ٹیکسوں سے اتنے تنگ آگئے کہ بھاگ کر ان وحشیوں کے ہاں پناہ لینے لگے ۔جان مال اورعزت کے تحفظ اورمحافظ اداروں کا یہی حال ہے ۔
تعلیمی دکانوں کا تو یہ حال ہے کہ یہ دکانوں اورکیبنوں کے بعد ریڑھیوں ٹھیلوں پر بھی دستیاب ہے۔ جہاں محکمہ تعلیم کے ریٹائرڈ چپڑاسی تک ماہرتعلیم اور پرنسپل ہوتے ہیں کیوں کہ سرکاری درسگاہوں میں صرف جہالت اور غنڈہ گردی سکھائی جاتی ہے ۔
روزگار کی تو خیر بات ہی کیا کریں کہ وہ صرف منتخب لوگوں بلکہ ابتدائے آفرینش سے منتخب یا عالم میں انتخاب لوگوں جدی پشتی جائیداد میں چاہے نکمے نکھٹو ہی کیوں نہ ہوں۔ مطلب یہ کہ ’’ٹیکس خوروں‘‘ کا حق ہے کہ وہ ٹیکس چوروں یا ٹیکس خواروں سے ٹیکس غنڈہ ٹیکس کی طرح وصول کریں اور ذاتی مال کی طرح ہڑپ کریں بلکہ ٹیکس خوروں نے ٹیکس خوری کے جو نئے سلسلے ایجاد کیے ہوئے ہیں ان میں ایک ان ہی ٹیکس کے پیسوں سے ’’ووٹ‘‘ خریدیں۔
یہ بے نظیر انکم سپورٹ کیا ہے ؟ ووٹ خریدنے کا ہی سلسلہ ہے ، یہ کارڈ وہ کارڈ سب ووٹوں کی خریداری ہی کا دھندہ ہے بلکہ اس کا ایک سائیڈ بینفیٹ یہ بھی ہے کہ لوگ جتنے نکمے نکھٹو ہوں اسی میں ٹیکس خوروں کافائدہ ہے ۔ جب سے یہ انکم سپورٹ کاسلسلہ زرخیز ذہن سے نکل کر لانچ ہوا ہے تو پہلی مہربان عہدے دار سے لے کر آج تک وہی ہورہا ہے جو باقی ملک کے ہر محکمے اورادارے میں ہورہا ہے بلکہ اب تو باقاعدہ گن گن کر اپنی پارٹیوں میں تقسیم کیاجاتا ہے ۔
ابھی چند روز ہوئے کسی کالم میں پڑھا تھا کہ آدھے سے زیادہ تو اس میں سرکاری ملازمین بلکہ سرکاری معززین ہوتے ہیں جب تازہ یہ خوان نعیما بچھایا گیا تو ایک سادہ لوح دیہاتی نے کہا کہ لیڈرہوں تو ایسے ہوں کہ اپنی جائیداد سے عوام کے لیے نان ونفقہ کا انتظام کرتے ہیں یہ باقی لیڈر تو ایویں ہیں۔ اس کاخیال تھا کہ بے نظیر انکم سپورٹ کی رقم حکمران پارٹی نے ایصال ثواب کے لیے اپنے پلے سے شروع کی اورجب ہم نے بتایا کہ یہ حلوائی کی دکان پر داداجی کی فاتحہ ہے، تو حیران رہ گیا کہ ایسا بھی ہوتا ہے اس طرح کے لوگوں میں ؟ ہم نے کہاکہ ٹیکس خور کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔
تو گزارش ہماری یہ ہے کہ بے شک ٹیکس چوروں کو سزائیں دے دیجیے لیکن ان ٹیکس خوروں کا بھی کچھ کریں کہ خدا کے لیے بیچارے ٹیکس خوار تو جان سے گزر رہے اورتمہارے پیٹ ہیں یا کنوئیں کہ ٹیکس خوری سے بھرتے ہی نہیں ؎
جاں لب پہ آگئی یہ نہ شیریں ہوا دہن
ازبسکہ تلخئی غم ’’ٹیکساں‘‘ چکبیدہ ہوں