کوچۂ سخن

ٹوٹے ہوئے پر اور بہت دور کی خواہش کیا لائقِ تحسین ہے معذور کی خواہش


عارف عزیز June 02, 2025
فوٹو: فائل

غزل
ٹوٹے ہوئے پر اور بہت دور کی خواہش
کیا لائقِ تحسین ہے معذور کی خواہش
اک آخری خواہش بھی نہ پوچھی گئی ہم سے
خاطر میں نہ لائی گئی مجبور کی خواہش
ہونٹوں کو ترے اسمِ مبارک کی تمنا
آنکھوں کو ترے جلوۂ پُر نور کی خواہش
واعظ سے بھلا راہ الگ کیسے نہ کرتا
وہ حور کا مشتاق مجھے طور کی خواہش
آمد کو بھی ہے تیرہ نصیبی کا تقاضا
کرتی ہے غزل بھی شبِ دیجور کی خواہش
دو چار نوالوں کو ترستا ہے جفا کش
فاقوں میں دبی رہتی ہے مزدور کی خواہش
ہوں رندِ خرابات سو ہر پل مجھے صادقؔ
ہوتی ہے کسی بادۂ انگور کی خواہش
(محمد ولی صادق۔کوہستان لوئر)

...
غزل
مرے حالات ہو جائیں اگر قابو کہیں سے
نکل آتا ہے پھر نقصان کا پہلو کہیں سے
میں پھر سے لڑکھڑا کر گرنے والا تھا کہیں پر
مجھے پھر تھامنے آئے ترے بازو کہیں سے
یہ خواہش رفتہ رفتہ سر اٹھانے لگ گئی ہے
مسیحا جان کر مجھ کو پکارے تُو کہیں سے
یہی اب آخری امید بچتی ہے کہ اُس کو
کوئی تعویذ واپس لائے یا جادو کہیں سے
یہ کس نے ہنستے بستے گھر کی بنیادیں ہلا دیں
یہ کس کو مل گئے ہیں سابقہ فوٹو کہیں سے
یہ واعظ آئیں بائیں شائیں کرنے لگ گئے تھے
مقابل آ گیا جب دفعتاً سادھو کہیں سے
کہیں سے مل گیا پستول دشمن کو بھی شاہدؔ
مرے بھی ہاتھ میں اک آ گیا چاقو کہیں سے
(شاہد شوق۔ اسلام آباد)

...
غزل
مت میرے چراغوں کو یوں للکار، خبردار
پروردۂ اقلیمِ شبِ تار، خبردار!
جنبش سے بگڑ جاتا ہے زنداں کا توازن
اے  چشمِ تحیر  کے گرفتار، خبردار!
اس آہ و بکا سے نہ کھلے آنکھ کسی کی
بے وقت  تڑپتے  ہوئے بیمار، خبردار
اے بادِ صبا! گل سے تری شوخی بجا، پر
چھونا نہ وہ لب اور وہ رخسار خبردار
بگڑے نہ کہانی کی نفاست کا تسلسل
اے انت سے باغی ہوئے کردار، خبردار
یہ بارِ گراں بار کہاں سب کے لیے ہے
اے لطفِ اذیت کے طلب گار، خبردار
ہرگز نہ مٹیں کندہ ہوئے نقش پرانے
اے دل کے نئے مالک و مختار خبردار
ناٹک میں تجھے کرنا ہے مسکان کا سودا
ترسیلِ الم ہو نہ اداکار، خبردار
اُس حسن کے صدقے ہوئے اسبابِ بغاوت
میں کہتی رہی دل کو، خبردار خبردار!
(ماہم حیا صفدر۔فیصل آباد)

...
غزل
اوڑھ لیتا ہے کوئی تیرگی شب سے پہلے
رونما ہوتے ہیں اثرات سبب سے پہلے
سب سے اونچا تھا زمانے میں تخیل میرا
حادثے مجھ پہ گرا کرتے تھے سب سے پہلے
ایک دوجے سے نمو پاتی ہیں ساری چیزیں
پیاس کا نام کہاں ہوتا تھا لب سے پہلے
وہ جو دن رات کی ترتیب لگاتا ہے ابھی
جانے کیا کرتا تھا اس کارِ عجب سے پہلے
شعر نے حسن کی ترویج کا سامان کیا
رائگاں جاتی تھی ہر چیز ادب سے پہلے
صبح کا بھولا ہوا آ تو گیا ہے واپس
مسئلہ یہ ہے کہ آیا نہیں شب سے پہلے
ہم کہاں عشق کی معراج کو جا پائیں گے
وہ ہمیں چھوڑنے والا ہے رجب سے پہلے
اس طرح دنیا کی ترتیب الٹ سکتی ہے
کیوں میسر ہوئے جاتے ہو طلب سے پہلے
آج کچھ اور ہی مقصد ہے چراغوں کا عقیلؔ
روشنی اتنی کہاں ہوتی تھی اب سے پہلے
(عقیل عباس چغتائی۔لاہور)

...
غزل
گھر سے باہر بھی تو آ سکتے ہیں
سر پرندے بھی اٹھا  سکتے  ہیں
حادثہ خواب میں ہو سکتا ہے
زخم بستر پہ بھی آ سکتے  ہیں
میرے بارے میں بتائیں مجھ کو
آپ  جتنا  بھی  بتا  سکتے  ہیں
ایسے چہرے ہیں مری نظروں میں
جو مری نیند اڑا سکتے ہیں
ایسے لگتا ہے پرندوں سے مجھے
یہ مرے خواب چرا  سکتے ہیں
آپ سے اور توقع بھی نہیں
آپ بس آگ لگا سکتے ہیں
(بلال شافی۔ جڑانوالہ، فیصل آباد)

...
غزل
کھلا جو رات وہ حیرت کا باب دوسرا ہے
یہ آنکھ اور ہے اس میں یہ خواب دوسرا ہے
نہ جانے کون سی رہ پر کوئی چھڑا لے ہاتھ
سفر میں ہوں یہ مرا ہم رکاب دوسرا ہے
کفِ بہار جو میرے لبوں نے سینچ دیا
وہ شاخ اور ہے اس پر گلاب دوسرا ہے
وہ پہلا عشق بھی برباد کرنے والا تھا
مگر یہ عشق بھی خانہ خراب دوسرا ہے
ترے سوال کا پہلے بھی دے چکا ہوں جواب
وہی سوال سہی پر جواب دوسرا ہے
سراب اور تھا فاروقؔ بر کفِ صحرا
جو پانیوں کے ہے اندر سراب دوسرا ہے
(فاروق بھٹی۔ جڑانوالہ)

...
غزل
ایک سے ایک شجر راہ گزر میں اس کی
مجھ سے بہتر ہیں کئی لوگ نظر میں اس کی
اس پہ اب گرد جمی ہے مگر افسوس نہیں
ویسے تصویر لگا رکھی ہے کے گھر میں اس کی
اس نے جو چاہا اسے ویسا بنایا گیا ہے
ایسے توہین نہ کر نور و بشر میںاس کی
کچھ نہیں دوست ہے بس، ماں سے کہا تھا اس نے
میں نے تو بات بھی کر رکھی تھی گھر میں اس کی
ٹوٹنے والے ستاروں کے نشاں مٹتے ہیں
میں بھی معدوم ہوا گردِ سفر میں اس کی
(شہرام رضا۔ برطانیہ)

...
غزل
کتنے آثار مرتے جاتے ہیں
مجھ میں ادوار مرتے جاتے ہیں
موسموں کا پتا نہیںچلتا
سارے تہوار مرتے جاتے ہیں
کیوں مصنف کو اس کی فکر نہیں؟
سارے کردار مرتے جاتے ہیں
ہجر، غم، انتظار، سناٹا
میرے سب یار مرتے جاتے ہیں
ہو سکے تو پھر آ کے زندہ کر
تیرے اقرار مرتے جاتے ہیں
کل زمانے کو یاد آئیں گے
اب جوبے کار مرتے جاتے ہیں
ہے فساد اس طرف بپا شرجیلؔ
لوگ اس پار مرتے جاتے ہیں
(شرجیل بخاری۔فیصل آباد)

...
غزل
اس کی مرضی وہ اختلاف کرے
پر عداوت کا اعتراف کرے
میں کئی روز سے نہیں رویا
میری آنکھوں کی گرد صاف کرے
گر اسے ڈر ہے شہر والوں کا
وہ مرے دل میں اعتکاف کرے
ہم نے پوچھا جو اپنے بارے میں
ہنس کے بولے خدا معاف کرے
جس کو چاہے یہ اس کی مرضی ہے
جس سے چاہے وہ انحراف کرے
(سید فیروز عباس ہادی۔ ضلع بھکر)

...
غزل 
ملا جو مجھ کو مری طرح رہ نورد ملا
جدھر بھی دیکھا ہر اک چہرہ زرد زرد ملا
سیاہ جھیل سی آنکھیں بجھی بجھی کیوں تھیں
ترے خیال کا ہر گوشہ گرد گرد ملا
قصیدہ خوانوں کی بستی سے جب گزر ہوا تھا
ملایا جس سے بھی ہاتھ اس کا ہاتھ سرد ملا
ہوائیں کرتی نظر آئیں بس خرید فروخت
تمام شہر میں عورت ملی نہ مرد ملا
جھلستی دھوپ سے بچنے کی جستجو جو کی
کہیں ملا بھی تو بس سائبان درد ملا
کہیں سکون کے بستر لگے نہیں دیکھے
جو آئنہ ملا خاشاک سے نبرد ملا
سبھی کی آنکھوں میں تاریکیاں تھیں بیٹھی ہوئی
اک ایک شخص سے اے نور فرد فرد ملا
(سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی)

...
غزل 
خاموش نیند میں وہ اچانک جدا ہوا
رک رک کے آنکھ سے کوئی اشک آشنا ہوا
جب گفتگو کا لب پہ کوئی مدعا نہ تھا
ہر لفظ بے صدا تھا کہ جملہ ادا ہوا
یہ زندگی ہے بزم نہیں رزم گاہ ہے
اک لمحے میں کوئی نہ کوئی سانحہ ہوا
رستے تمام وقت سے پہلے بدل گئے
اک موڑ زندگی کا تھا، جیسے چھپا  ہوا
چپ کی فصیل ٹوٹ کے بکھری تو یوں لگا
دل کا سکوت چیخ کی صورت صدا ہوا
ہر سمت بے یقینی تھی اور پھیلتی گئی 
سچ بولنا جہاں میں کوئی حادثہ ہوا
آئینہ دیکھتا رہا چپ چاپ دیر تک
چہرہ مصیبتوں میں تھا جیسے بٹا ہوا 
پتھر سے بات کرنے کی ہمت کہاں رہی
دل بھی کسی مقام پہ خود سے خفا ہوا
(سیف علی عدیل۔اسلام آباد)

...
غزل
تیری تصویر مرے دل سے اتاری میں نے 
درد تنہائی میں پھر عمر گزاری میں نے 
اس طرح کون بھلا یار کیا کرتا ہے
جس طرح کاٹی تری چاہ میں خواری میں نے 
غم ہجراں میں لگا مجھ کو مناسب تھا یہی
زندگی شوق محبت میں جو ہاری میں نے 
ڈرتے ڈرتے یونہی کل گھر کی اداسی پرکھی
پھر ہٹا ڈالی ہے تصویر ہماری میں نے
جس کی چھاؤں میں پرندوں کا بھی اک مسکن تھا 
کاٹ کر رکھ دی وہی شاخ بچاری میں نے
اس کی مشتاق نگاہوں نے تقاضا جو کیا
جان معصوم سی خواہش پہ یہ ہاری میں نے 
اول اول تری یادوں کا تقاضا تھا یہی
عہد و پیمان میں دی عمر بھی ساری میں نے
(خالد سروہی۔ جدہ ،سعودی عرب)

...
غزل
گلاب رنگت، حسین چہرہ ، گیا ہے تم پر، تمہارا بیٹا
خراب صحبت ، شدید غصہ، گیا ہے تم پر تمہارا بیٹا
ابھی ہے کمسن ضرور پھر بھی یہ ایک خامی ہے ظالمانہ
قرار دل کا ہے لوٹ لیتا ، گیا ہے تم پر تمہارا بیٹا
لہو میں شامل ہے زوق شاید ،پرانی غزلیں ہیں گنگناتا
ضرور مہدی حسن ہے سنتا ، گیا ہے تم پر تمہارا بیٹا
قریب ہونے لگے ہیں پرچے ’اسے تیاری کی ہے ضرورت‘
ذہین ہے پر نہیں ہے پڑھتا ، گیا ہے تم پر تمہارا بیٹا
ہزار میڈم! ہوں عیب پھر بھی یہ ایک خوبی بھی ہے نمایاں
دلوں کی الجھن کو ہے سمجھتا ، گیا ہے تم پر تمہارا بیٹا
(معروف شاہ۔اسکردو)

...
غزل
یہ قبل و بعد کے قصے حضور رہنے دو
اُسی طرح سے ملو گے ضرور رہنے دو
مسیحا دیر سے آئے ہو کیا کرو گے دوا
کہ زخم دینے لگا ہے سرور رہنے دو
فریبِ زندگی کے خوش گماں سے مل لینا
پڑا ہوا ہے جو دردوں میں چور رہنے دو
اگر اعمال کے بدلے مجھے ملی جنت
تمہیں ہی چاہوں گا،کہہ دوں گا حور رہنے دو
خدا سے کرتا ہوں میں بھی کلام یکطرفہ
اسی لیے تو یہ کہتا ہوں طور رہنے دو
زمین زادے کو نہ آسماں دکھا صائمؔ
فلک سے بھاگتا پھرتا ہے دور رہنے دو 
(مختار مغل صائم۔ راولپنڈی)

شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
 

مقبول خبریں