پشاور/
لاہور/
کراچی/
اسلام آباد/
کوئٹہ:
وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 26-2025 کے لیے 17 ہزار 573 ارب روپے کے لگ بھگ حجم کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں بجٹ مسودے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشن میں اضافے کی منظوری دی گئی۔ آئندہ مالی سال 26-2025 کے وفاقی بجٹ میں دفاع کیلئے 2550 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال مجموعی اخراجات 17 ہزار 573 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے، مجموعی وفاقی ریونیو کا ہدف 19298 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
ایف بی آر ٹیکس وصولی کا ہدف 14131 ارب رکھنے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5167 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ صوبوں کو محاصل کی منتقلی کا تخمینہ 8206 ارب روپے ہوگا خالص وفاقی آمدن 11072 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 8207 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
حکومتی نظام چلانے کے کیلئے 971 ارب روپے، پینشنز کی ادائیگی کیلئے 1055 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ سبسڈیز کی مد میں 1186 ارب روپے، گرانٹس کی مد میں 1928 ارب روپے، ترقیاتی بجٹ کیلئے ایک ہزار ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ آئندہ سال جاری اخراجات 16 ہزار 286 ارب روپے رہنے کا تخمینہ، آئندہ مالی سال بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے۔ بجٹ خسارہ 6501 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے۔
بجٹ میں 850 سی سی کی مقامی گاڑیاں، بیکری آئٹمز، کھاد اور کیڑے مارادویات مہنگی ہونے کا امکان جبکہ سگریٹ اور مشروبات سستے ہوں گے۔ سوشل میڈیا سے ڈالر کمانے والے بھی ٹیکس نیٹ میں آئیں گے۔ مقامی مینوفیکچرڈ کاروں پر جی ایس ٹی ساڑھے 12 سے بڑھ کر 18 فیصد ہونے کی توقع ہے، بجٹ میں پراپرٹی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم جبکہ کیپٹل گین ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویزہے۔ ذرائع کے مطابق سگریٹ پر ہر سال ٹیکس بڑھانے کی روایت ختم کردی گئی۔ مشروبات بھی سستے ہونے کا امکان ہے۔ سگریٹ اور مشروبات پر ٹیکس میں کمی کی تجویز ہے۔
بیکری آئٹمز، کھاد اور کیڑے مار ادویات مہنگی ہونے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف نے تینوں چیزوں پر ٹیکس لگانے پر زور دیا ہے۔ سابق فاٹا ریجن کو حاصل چھوٹ ختم کرکے بارہ فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین پر عائد ٹیکس میں ریلیف کی بھی تجویز ہے۔
مالی سال 26-2025 کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا منفی 0.5 فیصد رکھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے۔ برآمدات کا ہدف 35 ارب 30 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا جبکہ درآمدات کا ہدف 65 ارب 20 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف چودہ ہزار131 ارب روپے سے زائد، اقتصادی ترقی کی شرح کا ہدف 4.2 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔ جبکہ بجٹ میں وفاقی ترقیاتی بجٹ (پی ایس ڈی پی) کا حجم ایک ہزار ارب روپے متوقع ہے۔
تفصیلات کے مطابق آئندہ مالی سال میں خدمات کے شعبہ میں برآمدات کا ہدف 9 ارب 60 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ خدمات کے شعبہ کی درآمدات کا ہدف 14 ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے۔ ترسیلات زر کا ہدف 39 اعشاریہ 4 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔ اشیاء اور خدمات کی برامدات کا ہدف 44 اعشاریہ 9 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ اشیاء اور خدمات کی درآمدات کا ہدف 79 اعشاریہ 2 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال کے لیے مہنگائی کا سالانہ اوسط ہدف ساڑھے 7 فیصد اور معاشی شرح نمو کا ہدف 4 اعشاریہ 2 فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے اور زرعی شعبے کا ہدف 4.5 فیصد مقرر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ اسی طرح نئے مالی سال کے لیے صنعتی شعبے کے لیے 4.3 فیصد، خدمات کے شعبے کا ہدف 4 فیصد، مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.7 فیصد، فکسڈ انویسٹمنٹ کے لیے 13 فیصد، پبلک بشمول جنرل گورنمنٹ انویسٹمنٹ کا ہدف 3.2 فیصد اور پرائیویٹ انویسٹمنٹ کا ہدف 9.8 فیصد کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ نیشنل سیونگز کا ہدف 14.3 فیصد مقرر کرنے، اہم فصلوں کا ہدف 6.7 اور دیگر فصلوں کا ہدف 3.5 فیصد، کاٹن جننگ 7 فیصد، لائیو اسٹاک 4.2 فیصد، جنگلات کا ہدف 3.5 فیصد اور فشنگ کا ہدف 3 فیصد مقرر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔
اسی طرح نئے مالی سال کے لیے مینوفیکچرنگ کا ہدف 4.7 فیصد رکھنے، لارج اسکیل 3.5، اسمال اسکیل 8.9 اور سلاٹرنگ کا ہدف 4.3 فیصد رکھنے کی تجویز ہے بجلی، گیس اور واٹر سپلائی کے لیے 3.5 فیصد کا ہدف مقررکرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، جبکہ تعمیراتی شعبے کا ہدف 3.8 فیصد رکھنے، ہول سیل اینڈ ریٹیل ٹریڈ کا ہدف 3.9 فیصد، ٹرانسپورٹ، اسٹورریج اینڈ کمیونیکیشنز کا ہدف 3.4 فیصد رکھنے، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن کا ہدف 5 فیصد مقرر کرنے اور فنانشل اینڈ انشورنس سرگرمیوں کا ہدف 5 فیصد رکھنے کی تجاویز ہیں۔ ایف بی آر آئندہ مالی سال کے دوران 14 ہزار 307 ارب روپے کے محاصل جمع کرے گا، 6 ہزار 470 ارب روپے ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں جمع کئے جائیں گے۔
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 11 سو 53 ارب روپے اور سیلز ٹیکس کا ہدف 4943 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 1 ہزار 741 ارب روپے، پٹرولیم لیوی کا ہدف 13 سو 11 ارب روپے مقرر کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق نان ٹیکس آمدن 25 سو 84 ارب روپے، صوبے 12 سو 20 ارب کا سرپلس دیں گے۔ آئندہ سال قرضوں پر سود ادائیگیوں کیلئے 8 ہزار 685 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ دفاع پر 2 ہزار 414 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے جبکہ ترقیاتی منصوبوں پر وفاق 1065 ارب روپے خرچ کرے گا۔
آئندہ بجٹ میں عوام کو انرجی سیور پنکھے اقساط پر دینے کا اعلان بھی متوقع ہے۔ صارفین ان پنکھوں کی قیمت کی ادائیگی بجلی کے بلوں کے ذریعے اقساط میں کر سکیں گے۔ بجٹ میں صنعتی ترقی کے لیے سات ہزار سے زائد ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی میں کمی کا اعلان بھی متوقع ہے جن میں خام مال، درمیانی اور کیپیٹل گڈز اوردیگر اشیا کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاء شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت آئندہ بجٹ میں 4294 ٹیرف لائنز پر 2 فیصد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی (اے سی ڈی) ختم کرنے کا اعلان کرے گی، یہ زیادہ تر خام مال پر مشتمل ہیں، جس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی۔ بجٹ میںالیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کیلئے پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں پر 5 سال لیوی لگانے کا پلان ہے۔
لیپ ٹاپ اور اسمارٹ موبائل فونز کی بیٹری اور چارجرز کی مقامی تیاری کیلئے مراعات دی جائیں گی۔ آئی ایم ایف کی مشاورت سے مختلف شعبوں کے اہم معاشی اہداف کا تعین بھی کر دیا گیا۔ لیوی لگانے سے سالانہ 24 ارب اور 5 سال میں 122 ارب روپے کا ریونیو متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق لیوی پیٹرول و ڈیزل پر چلنے والی تمام درآمدی اور مقامی تیار گاڑیوں پر لگائی جائے گی۔ حاصل رقم نئی 5 سالہ الیکٹرک وہیکل پالیسی 2026-30 پر خرچ ہوگی۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال بھی سخت مالی و مانیٹری پالیسیاں برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ آئندہ بجٹ میں پوائنٹ آف سیلز میں رجسٹرڈ ریٹیلرز پر ٹیکس چوری کرنے پر جرمانہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹیکس چوری میں ملوث ریٹیلرز پر جرمانہ 5 لاکھ روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ روپے کیا جائے گا۔ روزانہ کی بنیاد پر ٹیکس چوری میں ملوث 20 ریٹیلرز کو سیل کیا جا رہا ہے۔ ٹیکس چوری میں ملوث ریٹیلرز کی نشاندہی کرنے پر 5 ہزار سے 10 ہزار تک انعام ملے گا۔ ایف بی آر حکام نے کہا کہ پوائنٹ آف سیلز میں رجسٹرڈ ریٹیلرز کی تعداد 39 ہزار ہے، آئندہ بجٹ میں پوائنٹ آف سیلز میں ریٹیلرز کی تعداد بڑھا کر 70 لاکھ کرنے کا ہدف ہے۔ بجٹ میں ریٹیلرز پر مانیٹرنگ کیمرہ اور نگرانی کیلئے ملازمین کی تعیناتی بھی کی جائے گی۔ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 25 ارب ڈالر سے زائد قرض حاصل کرنے کا تخمینہ لگا یا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق سعودی عرب، چین، یو اے ای اور دیگر دوست ممالک سے 12 ارب ڈالر قرض رول اوور کرایا جائے گا، آئندہ مالی سال 4.6 ارب ڈالر پراجیکٹ کیلئے فنانسنگ کا تخمینہ لگایا گیا ہے، 3.2 ارب ڈالر چینی کمرشل لون کی ری فنانسنگ کرائی جائے گی۔ وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چین سے 1 ارب ڈالر کا نیاکمرشل قرض حاصل کرنے کا پلان ہے، 2 ارب ڈالر آئی ایم ایف سے قرض قسط پلان میں شامل ہے۔ مؤخر ادائیگیوں پر سعودی آئل فیسیلیٹی اور دیگر کی مد میں 2 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ذرائع نے مزید کہا ہے کہ پراجیکٹ فنانسنگ میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے شامل ہیں، یو اے ای سے سیف ڈپازٹ کو رول اوور کرانے کی ذمہ داری مرکزی بینک پر ہو گی۔ نئے بجٹ میں پراپرٹی،رئیل اسٹیٹ، تعمیراتی شعبے کو ریلیف ملنے کا امکان ہے۔ پراپرٹی، ریئل اسٹیٹ سیکٹرکیلئے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے، ایف ای ڈی ختم کرنے کا اطلاق یکم جولائی 2025 سے کیا جاسکتا ہے، ایف ای ڈی ختم ہونے سے تعمیراتی شعبے میں سرگرمیاں اور ٹیکس آمدن بڑھنے کا امکان ہے۔ ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ بلڈرز اور ڈویلپرز کی رجسٹریشن شروع کرنے کی بھی تجویز ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے مراعات دینے کی تجویز ہے۔
پیر کو پی بلاک آڈیٹوریم میں اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے رواں مالی سال کی اقتصادی کارکردگی کے متعلق قومی اقتصادی سروے کا اجراء کر تے ہوئے کہا کہ حکومت مہنگائی پر قابو پا چکی ہے جب کہ ملکی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے۔ معیشت کے ڈی این اے کو تبدیل کرنے کیلئے اصلاحات ضروری تھیں، ہر تبدیلی کے لیے دو سے تین سال درکار ہوتے ہیں۔
نئے این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کا فارمولا تبدیل کرنے پر غور ہوگا، صوبوں سے مشاورت ہوگی۔ اگر پاکستان کی آبادی 40 کروڑ تک پہنچ گئی تو کیا ہوگا؟ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ اس سال جی ڈی پی گروتھ2.7 فیصد رہی، 2023 میں شرح نمو منفی0.2 اور 2024 میں 2.5 فیصد تھی۔ 2023 کے بعد شروع ہونے والی ریکوری 2024میں صحیح سمت میں چلی۔ ملک کا پرائمری اکاؤنٹ سرپلس رہا ہے۔ پالیسی ریٹ میں کمی سے قرضوں میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے قرضوں کی شرح 68 فیصد سے کم ہوکر 65 فیصد پر آگئی ہے جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح بھی بارہ فیصد کے ہدف کے مقابلے میں اس وقت 4.6 فیصد پر آگئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی مجموعی پیداوار کی شرح میں کمی آئی۔ ہماری معاشی ریکوری کوعالمی منظرنامے میں دیکھا جائے، پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر11 فیصد پر آگیا، قرضوں کی شرح 68 فیصد سے کم ہو کر 65 فیصد پر آگئی۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا۔ ایک سال میں توانائی شعبے کی ریکوری میں نمایاں اضافہ ہوا، اصلاحات کاعمل چلتارہے گا۔ وزیر خزانہ کے بقول گورننس میں بہتری آئی، نقصانات بھی کم ہوں گے، 24 ادارے نجکاری کیلئے پیش کیے گئے۔ ڈسکوز میں پروفیشنل بورڈز لگائے گئے، این ٹی ڈی سی کو 3 کمپنیوں میں تقسیم کیا گیا، پالیسی ریٹ کم ہونے سے قرضوں کی لاگت میں ایک ہزارارب تک کمی آئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری اداروں کاخسارہ ایک ہزار ارب سے زیادہ ہے۔ بینکوں سے1.27 ٹریلین روپے کا معاہدہ کیا گیا، ایس او ایز میں 800 ارب کاخسارہ ہے۔ معاہدے کا مقصد گردشی قرضے کو ختم کرنا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران کئی ادارے ختم اور بعض ضم کیے جاچکے ہیں، رائٹ سائزنگ کو مرحلہ وار آگے لے کر جا رہے ہیں، بجٹ میں رائٹ سائزنگ کی پیشرفت سے آگاہ کروں گا۔ رائٹ سائزنگ میں43 وزارتیں، 400 سے زیادہ ادارے شامل ہیں۔ پینشن اصلاحات میں کنٹری بیوٹری سسٹم لاگو ہوچکا۔
محمداورنگزیب کا کہنا تھا کہ رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ 1.9 ارب ڈالر سرپلس رہا، جون تک ترسیلات زر 38 ارب ڈالرتک جانے کا امکان ہے۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس8 لاکھ سے تجاوز کرگئے۔ ان کا اہم کردار ہے، جولائی سے مئی تک ٹیکس ریونیو میں 26 فیصد اضافہ ہوا، انکم ٹیکس فائلرز 37 لاکھ سے تجاوز کرگئے۔ ہائی ویلیو فائلرز میں 178 فیصد اضافہ ہوا۔ زیرجائزہ عرصے کے دوران سکوک اور طویل مدتی قرضوں کی میچورٹی میں اضافہ ہوا، قرض بلحاظ جی ڈی پی کو 65 فیصد سے نیچے لانا چاہتے ہیں، ڈیبٹ منیجمنٹ آفس کو بہتر بنارہے ہیں۔ وزیرخزانہ کے مطابق مالی سال کے دوران انڈسٹری کی گروتھ 4.8فیصد رہی، کیمیکلز،آئرن اسٹیل کے شعبے نیچے گئے ہیں، سروسز کے شعبے نے2.9فیصد پر گروتھ کی۔
انفارمیشن اور کمیونکیشن شعبے نے 6.5 فیصد پر گروتھ کی، کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ 3.5 فیصد، فوڈ سروسز میں 4.1 فیصد اضافہ ہوا، ٹرانسپورٹ بڑھی ہے، زراعت نے0.6فیصد گروتھ کی، لائیواسٹاک نے4.7فیصد پر گوتھ کی، ہدف 3 فیصد تھا۔ انہوں کہا کہ رواں مالی سال کے دوران چاول، مکئی سمیت بڑی فصلوں میں حکومتی مداخلت ختم کی، زرعی شعبے کے قرضوں میں بھی اضافہ ہوا، زرعی قرضے2 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال لائیو اسٹاک کی پیداوار 4.4 فیصد سے بڑھ کر 4.7 فیصد ہوگئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ افواج پاکستان نے بھارت کے خلاف اپنا لوہا منوایا ہے، اقتصادی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی، معاشی سیکیورٹی قومی سلامتی کیلئے انتہائی اہم ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، فچ نے پاکستان ریٹنگ اپ گریڈ کی، موڈیز کی رپورٹ مثبت آئی۔
لوکل سرمایہ کار آئیں گے تو غیرملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ ہمارامقامی وسائل پر دارومدار ہونا چاہیے، اگلے سال ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے منصوبے شروع کریں گے۔ آنے والے برسوں میں فنانسنگ کی ضرورت کم ہوتی جائے گی، اگلے سال 4.2 فیصد ترقی کے ہدف کے حصول کیلئے درست سمت پر ہیں۔ وزیر خزانہ نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کی تنخواہوں میں اضافے کے سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا بجٹ میں کمزور ترین طبقے کیلئے اقدامات کا اعلان کروں گا، کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کیلئے کام کریں گے، یہ عملدرآمد کا ایشو ہے۔
وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا تھا کہ ٹیکس ٹوجی ڈی پی 14 فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے، ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 18 فیصد ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں لوگ بل نہیں دیں گے وہاں لوڈ شیڈنگ تو ہو گی۔ معیشت میں ہر کسی کوحصہ ڈالنا ہوگا۔
ہمیں مالی نظم و ضبط کامظاہرہ کرناہے، گردشی قرضہ بھی ختم کرنے جارہے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میں مزید کٹوتی ممکن نہیں۔ اسٹرکچر ریفارمز پر توجہ دی جائے گی۔ درآمدات میں 16 فیصد اضافے کی وجہ زرعی شعبے کی مشینری کی درآمدات میں اضافہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال ترسیلات زر 38 ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان سے لاکھوں افراد بیرون ملک کام کیلئے گئے۔
حکومت کے مجموعی قرضوں کا حجم جاری مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 76007 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ جس میں ملکی قرضوں کا حجم 51518 ارب روپے اور بیرونی قرضوں کا حجم 24489 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں سرکاری قرضوں پر سود کی ادائیگی کا حجم 6439 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا، جس میں 5783 ارب روپے ملکی اور 656 ارب روپے بیرونی قرضوں پر ادا کیا گیا۔ اس مدت میں حکومت نے ایک ٹریلین روپے کی حکومتی سکیورٹیز کی خریداری کی۔ مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 1.6 ٹریلین روپے کے شریعہ کمپلائنس سکوک جاری کئے گئے۔
اقتصادی سروے کے مطابق اس مدت میں مجموعی طور پر 5.1 ارب ڈالر کی بیرونی معاونت موصول ہوئی جس میں 2.8 ارب ڈالر کثیر الجہتی شراکت داروں اور 0.3 ارب ڈالر دوطرفہ شراکت داروں نے فراہم کئے۔ نیا پاکستان سرٹیفکیٹ سے 1.5 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں سے 0.56 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کئے گئے۔ آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کو 1.03 ارب ڈالر کی معاونت موصول ہوئی۔
وزیر اعظم کے خواتین کو بااختیار بنانے کے پیکیج 2024 کے تحت ملک بھر میں متعدد اقدامات شروع کیے گئے۔ خاص طور پر پسماندہ اور کمزور برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے وزیر اعظم کا اقدام خواتین کو بلا سود قرضے، ہنر مندی کی تربیت اور کام کرنے والی خواتین کے لیے ڈے کیئر سینٹرز فراہم کرتا ہے۔ ویمن پنک بس سروس اور ویمن آن وہیلز پراجیکٹ کا آغاز خواتین کی سفری سہولیات اور حفاظت کو بہتر بنانے کے لئے کیا گیا۔
اسی طرح پنجاب پنک سکوٹی سکیم کے تحت طالبات کو سکوٹر خریدنے کے لیے بلاسود قرضے دیئے جاتے ہیں جبکہ ویمن پارلیمانی کاکس خواتین کی سیاسی شرکت بڑھانے کے لیے کام کرتی ہے۔ صوبائی سطح پر خیبر پختونخوا کی صنفی طور پر حساس لیبر انسپکشن ٹیمیں اور بلوچستان کی جینڈر ڈیسک جیسے پروگرام روزگار اور مزدوروں کے حقوق میں صنفی مساوات کو فروغ دیتے ہیں۔ خواتین انٹرپرینیورز کے لئے گردشی فنانسنگ سہولت جیسی پالیسیوں کا نفاذ خواتین کی مالی شمولیت کو ہدف بناتی ہیں، قومی مالیاتی شمولیت کی حکمت عملی (2023) نے خواتین کے لئے 20 ملین فعال بینک اکاؤنٹس کے اپنے ہدف کو عبور کیا ہے، پاکستان خواتین کی مالی آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو توڑ رہا ہے۔
رواں مالی سال 2024-25 کے دوران حکومت کی جانب سے دی جانے والی ٹیکس چھوٹ 5 ہزار 840 ارب روپے سے تجاوز کرگئی جبکہ صرف انکم ٹیکس چھوٹ 8 سو ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ رواں مالی سال میں پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر ترقی کرنے والے شعبوں میں نمایاں رہا ہے۔ رواں مالی سال میں آئی ٹی برآمدات 23.7 فیصد اضافہ کے ساتھ 2.825 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ اقتصادی سروے کے مطابق مارچ 2025 میں آئی ٹی ایکسپورٹ 342 ملین ڈالر، ماہانہ 12.1 فیصد اضافہ ہوا آئی ٹی خدمات میں سب سے زیادہ تجارتی سرپلس 2.4 ارب ڈالر رہے فری لانسرز نے 400 ملین ڈالر کا زرمبادلہ ملک میں لایا 1900 سے زائد اسٹارٹ اپس نے نیشنل انکیوبیشن سینٹرز سے تربیت حاصل کی 12,000 سے زائد خواتین کو کاروباری طور پر بااختیار بنایا گیا ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر کی آمدن 803 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ ملک میں صحت کے اخراجات کا جی ڈی پی میں تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہو نے کا انکشاف ہوا ہے تاہم اسکے باوجود ملک میں صحت کے شعبہ میں نمایاں ترقی ہوئی ہے اور پاکستان میں اوسط عمر بھی میں بھی دو سال کا اضافہ ہوا ہے۔ اوسط عمر65 سال چھ ماہ سے بڑھ کر 67 سال چھ ماہ ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے پیر کو جاری کردہ اقتصادی سروے کے اعداوشمار میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے دوران صحت کا مجموعی بجٹ 925 ارب روپے رہا ہے۔
پنجاب کے بجٹ میں زراعت کوخصوصی ترجیح دینا ہوگی
رضوان آصف(لاہور)
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں موجودہ ٹیکسز کی شرح میں ممکنہ اضافہ انتہائی کم رکھنے کی تجویز زیر غور ہے۔ حکومتی ذرائع بتا رہے ہیں کہ پنجاب کے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صحت،تعلیم، اور ٹورازم پر خاص توجہ دی گئی ہے، تعلیم کے بجٹ میں پچھلے سال کے مقابلے میں 110 ارب روپے زیادہ مختص کیے جانے کا امکان ہے جبکہ ممکنہ طور پر صحت کے بجٹ میں 90 ارب روپے زیادہ رکھے جائیں گے۔ ٹورازم کے لئے بجٹ میں 600 فیصد اضافہ کے ساتھ 35 ارب روپے بجٹ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ لاہور میں نواز شریف میڈیکل سٹی میں مزید ہسپتال بنائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ پنجاب بھر میں سینیٹیشن اور صاف پانی کی نئی اسکیمیں لائی جارہی ہیں۔ تادم تحریر حکومتی ذرائع کی جانب سے ایساکوئی اشارہ نہیں ملا جس سے یہ یقین مضبوط ہو پائے کہ پنجاب حکومت تباہ حال کسانوں اور زرعی شعبے کی ترقی کیلئے کوئی میگا پراجیکٹ لانے والی ہے۔ ملکی زرعی پیداوار کا60 فیصد سے زائد پنجاب ہی فراہم کرتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران پنجاب میں زراعت اور کسان ، دونوں کی حالت ناقابل بیان ہے ۔ پنجاب حکومت کے زیادہ تر منصوبے شہری آبادیوں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ حکومت کا ایک حصہ اس بات پر تالیاں بجا رہا ہے کہ آٹا روٹی سستی ہو رہی ہے مگر یہ لوگ اس حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں کہ گندم کے کاشتکاروں کو جس خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے اثرات مستقبل میں کیا ہوں گے ،کسان کو رواں برس کھیت میں پڑی گندم کی قیمت1900 روپے تا2200 روپے فی من ملی ہے جس نے فصل کی لاگت کاشت بھی پوری نہیں کی۔ وزیر اعلی کے اعلان کردہ ’’ای ڈبلیو آر سسٹم‘‘ اور ’’ فلورملز کیلئے خصوصی قرضہ سکیم‘‘ کے منصوبے بروقت شروع ہی نہیں ہو سکے۔
رواں برس تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ بیوپاریوں نے کسانوں کو لوٹا ہے کیونکہ بیوپاری تو خود مظلوم بن چکے ہیں۔ ان کی بڑی بڑی رقوم پھنس گئی ہیں۔ کسان نئی فصل کی کاشت کیلئے پھر سے قرض مانگ رہے ہیں۔ اسی طرح سے کپاس کی زیر کاشت فصل کے حالات بھی کمزور دکھائی دے رہے ہیں، سبزیوں کی حالت یہ ہے کہ منڈیوں میں بھنڈی50 روپے فی من قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ مکئی کو ماضی میں منافع بخش فصل سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ بھی کسان کیلئے خوشحالی نہیں لا رہی ہے۔ بادی النظر میں زرعی معیشت ملکی تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ اگر زرعی سیکٹر گراوٹ کا شکار ہوگا تو دیگر سیکٹر بھی شدید متاثر ہوں گے۔
پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ خالد محمود کھوکھر کے مطابق پنجاب میں زراعت کو بچانا ہے تو حکومت کو امسال زراعت کو پہلی ترجیح بنانا ہوگا۔ پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے سابق سینئر وائس چیئرمین اور وفاقی وزارت کے ٹیکنیکل گروپ کے رکن حافظ احمد قادر نے کہا کہ دنیا میں زرعی اجناس کی فی ایکڑ پیداوار کا موازنہ پاکستان کی پیداوار سے کریں تو ہم بہت پیچھے ہیں، پنجاب حکومت کو آئندہ مالی بجٹ میں زرعی شعبے کیلئے ایک ایمر جنسی پلان لانا چاہئے کیونکہ کسان خوشحال ہوگا تو ملک چلے گا۔
عامر خان (کراچی)
موٹرویز، صحت، صاف پانی کے منصوبے حکومتی ترجیحات میں شامل
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد تک اضافہ متوقع ہے، ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب سے زائد رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ اضلاع کا ترقیاتی بجٹ 65 ارب روپے متوقع ہے۔ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ صحت اور پینے کے پانی کے منصوبے پہلی ترجیح ہوں گے۔
ہر شعبے میں بجٹ 15 فیصد زیادہ رکھا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی وزیر برائے بحری امور جنید انور چوہدری اور وفاقی وزیر برائے مواصلات کے ساتھ ملاقاتوں میں کراچی کے اہم منصوبوں کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وفاق کراچی کے منصوبوں کے حوالے سے اپنی دلچسپی دکھا رہا ہے۔ کراچی کے ساحلی مسائل اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت اور وفاقی وزارت بحری امور نے مشترکہ منصوبوں پر تعاون کا اعلان کیا ہے جن میں سیوریج ٹریٹمنٹ سے لے کر ساحلی ترقی تک کئی اہم اقدامات شامل ہیں۔
دونوں حکومتوں نے پائیدار ساحلی ترقی کے لیے تعاون جاری رکھنے پر مکمل اتفاق کیا۔ دوسری جانب وزیراعلی سندھ اور وفاقی وزیر مواصلات علیم خان کے درمیان اپنی اپنی ٹیموں کے ہمراہ ایک تفصیلی اجلاس ہوا جس میں زیر التوا مسائل ایم 6 حیدرآباد کراچی موٹروے کی تعمیر، لیاری ایکسپریس وے کو ہیوی ٹریفک کے لیے کھولنے، سہراب گوٹھ پر ٹریفک کے مسائل کا انجینئرنگ حل تلاش کرنے، جامشورو سیہون روڈ کی تکمیل اور بندرگاہی ٹریفک کو براہ راست حیدرآباد لے جانے کے لیے ایک اضافی موٹروے (ایم 10) کی تعمیر پر غور کیا گیاہے۔ وزیراعلی مراد علی شاہ نے ایم 6 موٹروے کی تکمیل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ کراچی سے پشاور اور لاہور تک موٹروے نیٹ ورک کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
صوبائی بجٹ کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ بجٹ کو اعداد کا گورکھ دھندا نہیں ہونا چاہیے۔ سندھ حکومت اپنے مالی وسائل کو دیکھتے ہوئے صرف انہی کاموں کے لیے رقم مختص کرے جو انتہائی اہم نوعیت کے ہیں۔ اس بجٹ میں سندھ حکومت کو کراچی پر خصوصی توجہ دینا ہوگی کیونکہ یہ شہر نہ صرف صوبے بلکہ ملک کی ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔کراچی کے انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے خصوصی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
امید ہے کہ بجٹ میں سندھ حکومت کراچی کے عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے کچھ شعبوں میں بہتری دکھائی ہے خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے شعبے میں شرجیل انعام میمن کی کارکردگی سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے اب خواتین کو مفت پنک ای وی اسکوٹیز دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ وہ مزید خود مختار ہوں۔ اب تک 8 ہزار خواتین نے مفت اسکوٹیز کے لیے درخواست دی ہے جن میں سے 140 خواتین کے پاس ڈرائیونگ لائسنس موجود ہیں۔ شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی بیٹنگ شفاف ہوگی اور اسکوٹیز سو فیصد میرٹ پر دی جائیں گی۔
احتشام بشیر (پشاور)
خیبرپختونخوا حکومت زیرتکمیل ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دے گی
خیبرپختونخوا حکومت 13 جون کو بجٹ پیش کررہی ہے۔ بجٹ کا حجم دو ہزار ارب روپے تک کا امکان ہے۔ ترقیاتی کاموں کیلیے 450 سے 500 ارب روپے مختص کیے جاسکتے ہیں۔ اگلے مالی سال کے لیے صوبائی حکومت 180ارب کا سرپلس بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں کررہی ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافے کا فیصلہ وفاقی حکومت کے فیصلے سے مشروط کیا گیا ہے۔
صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ آنے والے بجٹ میں تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ گزشتہ بجٹ کی طرح اس بار بھی حکومت کی کوشش ہے کہ جاری ترقیاتی سکیموں کو ترجیح دی جائے۔
بجٹ کی تیاری کے حوالے سے وزیراعلی خیبرپختونخوا نے جتنے بھی مشاورتی اجلاس کیے ان میں انہوں نے جاری ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے اور انھیں مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ خیبر پختونخوا کی 11 ماہ کی ٹیکس آمدن میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح نان ٹیکس آمدن میں بھی 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ مزمل اسلم کے مطابق آئندہ سال کے لیے بھی اپنے لیے 40 فیصد کا ٹیکس ہدف مقرر کر رہے ہیں۔
صوبے کے بجٹ کا انحصار وفاق سے حاصل شدہ رقوم پر ہوتا ہے جو مختلف مدوں میں صوبوں کو دیا جاتا ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق وفاقی حکومت کوئی نیا منصوبہ نہیں دے رہی، صوبے کی دو سڑکوں کے لیے جو تقریبا نویں فیصد مکمل ہیں ان کے لیے بھی فنڈز نہیں دیے جا رہے۔ وفاق سے پی ایس ڈی پی کی مد میں خیبر پختونخوا کو صرف 54 کروڑ روپے ملیں گے، جبکہ بلوچستان کو 120 ارب روپے کے علاوہ 20 ارب روپے دے رہے ہیں۔
اس طرح سندھ کو 47.1 ارب روپے مختص کیے ہیں اسی طرح گلگت بلتستان اور کشمیر کے لیے 37 ارب روپے اور 45 ارب روپے رکھے ہیں جبکہ ضم اضلاع کے لیے صرف 70 ارب روپے رکھے ہیں اور رواں سال ضم اضلاع کو 70 ارب روپے میں سے صرف 34 ارب روپے ملے ہیں۔ مزمل اسلم کے مطابق رواں سال خیبر پختونخوا کو وفاق سے 300 ارب روپے کم ملیں گے۔ صرف رواں سال 42 ارب روپے این ایف سی کے مد میں خیبر پختونخوا کو کم ملے ہیں۔
حکومت سات نئے بڑے منصوبے شروع کررہی ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اسے شامل کیا جارہا ہے جس میں پشاور ڈی آئی خان موٹروے، بجلی کی نئی ٹرانسمیشن لائن، انشورنس کمپنی، انشورنس اور سی بی آر بی منصوبہ شامل ہے۔ حکومت نے پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کے بنوں اور ڈی آئی خان میں بھی سیف سٹی پراجیکٹ شروع کررہی ہے، اس کے علاوہ حکومت کے بڑے جاری منصوبے صحت کارڈ، بی آرٹی کا بجٹ بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ صحت کارڈ میں نئی بیماریوں کو بھی شامل کیا جارہا ہے اس لیے حکومت صحت کارڈ کا بجٹ بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
رضا الرحمان (کوئٹہ)
وفاقی حکومت کا تعاون، بلوچستان حکومت خوشحالی کے لیے پرعزم
وفاقی حکومت نے رواں سال N-25 )قومی شاہراہ چمن کراچی دورویہ( بنانے کیلئے 125 ارب روپے کی رقم مختص کردی ہے اور اتنی ہی رقم اگلے سال بھی دی جائے گی۔ دو سال میں اس منصوبے کو مکمل کر لیا جائے گا۔ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کو جاری ترقیاتی منصوبوں کو مقررہ وقت پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ گزشتہ دنوں بلوچستان کے گورنر شیخ جعفر خان مندوخیل اور وفاق وزراء احسن اقبال اور جام کمال کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ان ترقیاتی منصوبوں پر گفتگو ہوئی۔ ملاقات کے بعد گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں وفاقی حکومت کے ترقیاتی اقدامات اور عوام دوست منصوبے ترقی کی جانب ایک اہم پیش رفت ہیں۔ غربت اور احساس محرومی کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں تاکہ بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لایا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں، تعلیم، صحت کے نظام کی بہتری اور تجارت جیسے اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔
گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل جنہوں نے حال ہی میں صوبے کے پارلیمانی وفد کے ہمراہ چین کا دورہ کیا۔ ان کاکہنا ہے کہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) بلوچستان کی ترقی کیلئے گیم چینجر ہے۔ خطے میں رونما ہونے والی معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کے پیش نظر صوبے کے قدرتی وسائل اور اسٹریٹجک محل وقوع اور قیمتی معدنیات صوبے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جامع حکمت عملی مرتب کر کے ایک تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ بلوچستان کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کیاجا سکتا ہے۔ مبصر ین کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے اقدامات قابل ستائش عمل ہے۔ وفاق اور صوبے میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں پی پی پی اور ن لیگ کی حکومتیں ہیں اور دونوں بڑی جماعتیں اکٹھی ہو کر بلوچستان کی ترقی وخوشحالی میں دلچسپی لے رہی ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے میں قیام امن کیلئے بھی ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں کیونکہ امن سے ترقی وابستہ ہے۔ ان مبصرین کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ میں بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے خطیر فنڈز کی فراہمی اور جاری منصوبوں کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کی یقین دہانی اور صوبے کو ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے دیگر صوبوں کے برابر لانے کا عزم نیک شگون ہے۔ یہ عمل صوبے کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی، احساس محرومی و پسماندگی کے خاتمے میںسنگ میل ثابت ہوگا۔ صوبے میں بے روزگاری کے خاتمے کیلئے بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوںکو تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ کو روزگارکے مواقع ملیں اور وہ صوبے کی ترقی وخوشحالی میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا آئندہ بجٹ سرپلس ہوگا۔ پہلی بار صوبے میں ترقیاتی فنڈز کا 90 فیصد سے زائد بروقت استعمال ممکن ہوا ہے۔ جو ان کی حکومتی کارکردگی کا واضح ثبوت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں نوجوانوں کو ترجیح دی جائے گی، پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ساتھ مل کر پروگرام کیے جائیں گے۔ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں کو بھی اہمیت دی جا رہی ہے۔ n