دو فیصلے!

سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں 19 دسمبر 1960 کو کراچی میں طے پایا تھا


ایم جے گوہر July 02, 2025

پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان پر بے بنیاد، من گھڑت اور ثبوت کے بغیر الزامات لگا کر نہ صرف پاکستان پر جنگ مسلط کی بلکہ یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے پاکستان کا پانی بھی روک دیا تھا۔ اس حوالے سے پاکستان کا بڑا واضح موقف رہا ہے کہ بھارت کسی بھی صورت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے یہ تاریخی فیصلہ دیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا بھارتی اعلان غیر قانونی ہے۔ کیوں کہ دو طرفہ معاہدے میں ایسی کوئی شق شامل نہیں کہ کوئی فریق یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل کر دے اور نہ ہی کوئی فریق یکطرفہ طور پر عدالت کے ثالثی کے دائرہ اختیار کو ختم کر سکتا ہے۔ لہٰذا ثالثی کا عمل جاری رہے گا۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ بھارت کی جانب سے متوازی طور پر مقرر کردہ ’’غیرجانبدار ماہر‘‘ کے دائرہ اختیار پر ہندوستان کے موقف کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

یہاں واضح رہے کہ عدالت نے یہ فیصلہ پاکستان کی جانب سے بھارت کے مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر پن بجلی منصوبوں کے خلاف دائر مقدمے میں جاری کیا ہے۔ پاکستان عالمی ثالثی عدالت کے مذکورہ فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان پانی، تنازع کشمیر اور دہشت گردی سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر بھارت کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

عدالتی فیصلے سے سندھ طاس معاہدے پر پاکستان کے بیانیے کو تقویت ملی ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل نہیں کر سکتا۔ وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر بھارت پر واضح کر دیا کہ پانی ہماری ریڈ لائن ہے۔ افسوس کہ بھارت نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے مذکورہ فیصلے کو ماننے سے نہ صرف انکار کر دیا ہے بلکہ عدالت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔

سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں 19 دسمبر 1960 کو کراچی میں طے پایا تھا۔ معاہدے پر اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی صدر جنرل ایوب خان نے دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے مطابق مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا جب کہ مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو دیا گیا تھا۔ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ اگر دونوں ممالک میں پانی کے استعمال پر کوئی تنازع پیدا ہوا تو عالمی ثالثی عدالت کے ذریعے اسے حل کیا جائے گا۔ اس پس منظر میں بھارت نہ تو یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر سکتا ہے اور نہ ہی عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کو مسترد کر سکتا ہے۔ اسے ہر صورت عالمی فیصلوں اور معاہدے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

بصورت دیگر حالات ایک اور جنگ کی طرف جا سکتے ہیں جیساکہ حکومت پاکستان اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر متعدد مرتبہ بھارت پر واضح کر چکے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی اور دریاؤں کے بہاؤ کو روکنا جنگ کے مترادف تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں عالمی برادری بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پانی پر دوسری پاک بھارت جنگ کے امکانات کو ختم کیا جاسکے۔

ادھر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کو ان کی جیتی ہوئی نشستوں کی تعداد کی بنیاد پر خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی الاٹ منٹ کے حوالے سے حکومت کی نظرثانی کی تمام اپیلیں منظور کرتے ہوئے عدالت کے 12 جولائی 2024 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس طرح سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اب یہ نشستیں حکمراں اتحاد کی (ن) لیگ، پی پی اور دیگر جماعتوں میں تقسیم ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں حکمراں اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی جس کے بعد وہ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق باآسانی قانون سازی کر سکیں گی۔

وزیر اعظم نے آئینی بینچ کے فیصلے پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین کی بالادستی اور قانون کی درست تشریح قرار دیا ہے۔ جب کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین کی غلط تشریح اور پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے۔ بہرحال عدالتی فیصلے سے پی ٹی آئی کو سخت دھچکا لگا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اس کی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے۔ کے پی کے میں بھی اس کی اکثریت محدود ہونے سے گنڈا پور حکومت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ البتہ حکمران اتحاد مضبوط ہو گیا ہے، جس سے حکومت کے مستحکم ہونے اور پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

مقبول خبریں