اکثر ہم نے اپنے والدین یا دادا دادی کو کہتے سنا ہے:
’’وقت ہر سال تیزی سے گزر جاتا ہے۔‘‘ اور وہ حیران ہو کر 4 جولائی یا کسی اور موقع کے اچانک آجانے پر سر ہلاتے ہیں۔
لیکن جب آپ بارہ سال کے ہوتے ہیں تو دماغ وقت کو مختلف انداز سے محسوس کرتا ہے گرمیوں کی چھٹیاں جیسے کبھی نہ آنے والی ہوں، اور ایک اسکول کا دن جیسے گرم ترین اگست میں ٹریفک جام۔
یہ فرق محض افسانہ نہیں، بلکہ دماغ کی وقت کے ادراک (perception) کی تبدیلی ہے، جو ہمارے روزمرہ لمحات کو ناپنے کے انداز کو بدل دیتی ہے۔
پہلی بار اور نئے تجربات
بچوں کی زندگی ’’پہلی بار‘‘ ہونے والے لمحات سے بھری ہوتی ہے:
٭ پہلی بار تیراکی
٭ پہلی بار ریاضی کا مشکل سوال
٭ پہلا سلیپ اوور
یہ نئے تجربات دماغ کو تصویروں سے بھر دیتے ہیں، اور ایک سہ پہر کو لمبا محسوس کرواتے ہیں۔
بڑے لوگ عموماً وہی روزمرہ کے معمولات دہراتے ہیں، جس سے دماغ کو نئی یادداشتیں کم ملتی ہیں۔ نتیجتاً دن مختصر لگتے ہیں، جیسے کوئی فلم کی بجائے ہائی لائٹ ریل ہو۔
ماہرنفسیات مارک وٹمن کے مطابق، یہ احساس کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، اس بات سے جُڑا ہے کہ ہمارے دماغ کو روز کتنی نئی معلومات مل رہی ہیں۔
دماغ، یادداشت، اور وقت
جب دماغ کوئی نئی چیز دیکھتا ہے، تو توجہ فوراً اس پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ جتنی بار ایسا ہوتا ہے، یادداشتیں زیادہ بنتی ہیں۔
جتنا مواد محفوظ ہوتا ہے، بعد میں وہ وقت لمبا محسوس ہوتا ہے۔
بچوں کا دماغ ہر نئی چیز پر ’’فلیگ‘‘ لگا دیتا ہے ایک لطیفہ، نیا لفظ، یا کھیل۔ یہ سب چھوٹے ابواب کی مانند ہوتے ہیں۔
بڑے لوگ اکثر دن بہ دن نقل و چسپ (paste۔ copy) زندگی گزارتے ہیں۔ ابواب کم، کتاب مختصر۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جب عمررسیدہ افراد کو ورچوئل ریئلیٹی میں وقت کا اندازہ لگانے کا کہا گیا، تو انہوں نے اوسطاً 15 فی صد وقت کم سمجھا یعنی وہ وقت کو اصل سے کم محسوس کرتے ہیں۔
روٹین، دماغ، اور تھکاوٹ
روزمرہ کی یکسانیت وقت کو مختصر محسوس کرواتی ہے۔
مطالعات سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کا روزمرہ کا معمول متوقع اور غیرمتنوع ہوتا ہے، انہیں عید، کرسمس یا دیگر مواقع جلد آتے محسوس ہوتے ہیں، جب کہ جو لوگ نئے تجربات کرتے ہیں، انہیں وقت دھیرے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔
دماغی سگنلز اور عمر
جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، دماغی سگنلز کی رفتار کم ہوتی ہے، دماغ دنیا سے فی سیکنڈ کم معلومات حاصل کرتا ہے۔
کم ’’سیمپلز‘‘ کا مطلب کم ’’ٹِک‘‘ اور تیز دن
یہ آنکھوں کی حرکات سے بھی جُڑا ہے۔ آنکھیں ہر لمحہ مختلف چیزوں پر فوکس کرتی ہیں، اور دماغ تصاویر جمع کرتا ہے۔
بچوں یا نوجوانوں کی آنکھیں زیادہ بار ’’فِکس‘‘ کرتی ہیں، یعنی دماغ کو زیادہ تصویریں دیتی ہیں۔ بوڑھے یا تھکے افراد کی آنکھوں میں یہ عمل سست ہوجاتا ہے، اور دن کی فلم ایک مختصر سلائیڈ شو کی مانند لگتی ہے۔
نیند اور دماغی بیداری
ایک رات کی مکمل نیند، دماغ کی رفتار بڑھاتی ہے، یادداشت کو مضبوط بناتی ہے، لمحوں کو واضح طور پر محفوظ کرتی ہے۔ کھیل یا امتحان میں بغیر نیند کے جانا اکثر پوری سرگرمی کو مبہم بنا دیتا ہے۔ یاد کچھ خاص نہیں رہتا ، صرف چند لمحے یاد رہتے ہیں۔ نیند کی کمی مستقل ہوجائے تو دماغ کی بیداری گرتی ہے، لمحے ضائع ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی ڈوپامائن کی سطح گرتی ہے یہ نیوروٹرانسمیٹر وقت کا احساس بنانے میں اہم ہے۔
سوشل میڈیا اور وقت کا گُم ہونا
سوشل میڈیا ظاہری طور پر مختلف لگتا ہے، لیکن الگورتھمز بار بار وہی طرز کی پوسٹس دکھاتے ہیں۔
ایک ہی جیسے ویڈیوز دیکھتے ہوئے گھنٹے گزر جاتے ہیں، دماغ کو کچھ نیا نہیں ملتا، یادداشت خالی رہتی ہے، نیلی روشنی نیند کو خراب کرتی ہے ، دہرا نقصان!
اگر سوشل میڈیا کی جگہ کوئی نیا مشغلہ اپنا لیں جیسے نیا کھانا پکانا، گٹار بجانا سیکھنا تو دماغ کو نئی یادداشتیں ملتی ہیں، اور وقت ’’کھنچ‘‘ جاتا ہے۔
عمر، ذمے داریاں، اور وقت
بڑے لوگ ذمے داریوں میں مصروف رہتے ہیں کام، ای میل، گھر، بجٹ اور نئی چیزوں پر توجہ کم دیتے ہیں۔
ایسا ماحول دماغ کے لیے ’’نوولٹی‘‘ کم کرتا ہے، اور دن مختصر لگتے ہیں۔
ایک اور سروے میں نوجوانوں اور ریٹائرڈ افراد کا موازنہ کیا گیا:
ریٹائرڈ افراد نے دو گنا زیادہ شکایت کی کہ سال ’’اڑتا ہوا‘‘ گزر گیا۔
اصل وجہ؟ روزمرہ کی یکسانیت نہ کہ صحت یا جسمانی کم زوری۔
لیکن ہر بزرگ ایسا محسوس نہیں کرتا۔ ’’سپر ایجرز‘‘ وہ جو نئی مہارتیں سیکھتے ہیں، سماجی طور پر متحرک رہتے ہیں ان کا دماغ وقت کو بہتر طریقے سے محسوس کرتا ہے۔
وقت کو سست کیسے کریں؟
اچھی خبر یہ ہے کہ وقت کو ’’کھینچنے‘‘ کے طریقے آپ کی روزمرہ زندگی میں موجود ہیں:
٭ نیند پوری کریں (7 سے 9 گھنٹے)۔
٭ ہر ہفتے کچھ نیا کریں نیا راستہ، نیا میوزیم، نیا لفظ۔
٭ توجہ دیں آوازیں، خوشبو، مناظر۔
٭ تجسس قائم رکھیں کھانے کے وقت 5 نئی چیزیں نوٹ کریں۔
یہ چھوٹی دریافتیں دماغ کو نیا مواد دیتی ہیں، اور وقت کو ’’فوٹو فریم‘‘ کی مانند بھر دیتی ہیں۔ یوں ہر مہینہ اپنے مکمل 30 دن کا احساس دیتا ہے ، جیسا کیلنڈر پر لکھا ہے۔