بُک شیلف

ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ



تبصرہ نگار: ارشاد احمد ا رشد

رسولﷺ کے 200سنہرے ارشادات

پیش نظر کتاب ’’ رسول ؐکے 200سنہرے ارشادات ‘‘ میں رسول ؐ کے ایسے فرامین جمع کئے گئے ہیں جن کا تعلق روز مرہ زندگی سے ہے۔ ہر مسلمان اللہ کے رسول ؐ کی احادیث یعنی آپ کے سنہرے ارشادات کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔ دین اسلام کی بنیاد دو چیزوں پر ہے :ایک قرآن کریم اور دوسری حدیث رسولؐ۔ دین سے آگاہی کے لئے جہاں قرآن مجید کو پڑھنا سمجھنا ضروری ہے وہاں حدیث کو بھی سمجھنا پڑھنا ضروری ہے۔

اللہ کے نبی ؐ فرماتے ہیں : میری ایک بات بھی کسی کو معلوم ہوتو وہ آگے پہنچا دے۔آج ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک اس حدیث پر عمل کررہے ہیں۔ کیا ہم احادیث رسول ؐ خود یاد کرتے اور دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔؟؟؟ہم سے بہت کم ایسے ہیں جو یہ فرض ادا کررہے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ کرام احادیث رسول ؐ کوسننے اوریاد کرنے میں بہت زیادہ مشتاق رہتے تھے۔ صحابہ کرام کی کوشش ہوتی کہ صبح وشام رسالت ماٰ ب ؐ کے دربارمیں ہی بیٹھے رہیں تاکہ آپ کی زبان وحی ترجمان سے نکلاہواہر لفظ اورہرارشاداپنے دل ودماغ میں محفوظ کرسکیں۔صحابہ کرام کے بعد ائمہ کرام اور محدثین عظام نے ایک ایک حدیث کی خاطر ہزارہامیل کے سفر کئے ، تکلیفیں اٹھائی تھیں۔ اس وقت بہت سی کتب حدیث موجود ہیں ان میں بعض کتب ضخیم ہیں اوربہت سی کتب مختصر بھی ہیں۔مختصر کتب ِ حدیث میں نیا اضافہ ’’ رسول اللہ ؐ کے 200سنہرے ارشادات ‘‘ ہے۔ جسے عبدلمالک مجاہد نے مرتب کیا ہے۔

نہایت مختصر انداز میں ان احادیث کی اشاعت کا مقصد یہ ہے کہ عامتہ الناس خصوصاََ نوجوان نسل رسول کریم ؐ کے ارشادات سے آگاہ ہو جائے۔ یہ احادیث صرف اس لیے جمع کی گئی ہیں کہ دوران گفتگو ہماری زبانوں پر آپ ؐ کی احادیث رواں دواں ہوں۔ ہمارے بچے ، بچیاں ، نوجوان نسل ، حضرات و خواتین ان کو مع ترجمہ یاد کریں۔

اس کتاب کو دارالسلام نے نہایت ہی خوبصورت گٹ اپ ، دیدہ زیب سرورق اور آرٹ پیپر پر چہار کلر میں دلکش پرٹننگ اور ڈئزائینگ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ اتنی دیدیدہ زیب اور دلکش کتاب ہے کہ خوشی کے مواقع پر اپنے بچوں بچیوں اور دوست احباب کو تحفے میں دی جاسکتی ہے۔کتاب کی قیمت 800روپے ہے۔ کتاب دارلسلام کے مرکزی شور روم نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لاہور پر دستیاب ہے یا کتاب براہ راست حاصل کرنے کیلئے درج ذیل نمبر 042-37324034پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

تبصرہ: قراۃالعین حیدر

عشق کے رنگ ہزار

شاعرہ: ارم شہزادی، ناشر: دربان کتابیں ڈسکہ، سنِ اشاعت: جون 2025

ارم شہزادی کی شعری کتاب "عشق کے رنگ ہزار" اردو ادب کے موجودہ تخلیقی منظرنامے میں ایک نرالا، نکھرا ہوا اور دل سے لکھا ہوا اضافہ ہے، جو نہ صرف محبت، ہجر، ذات، تنہائی اور خوابوں کی ترجمانی کرتی ہے بلکہ اردو کے بڑے ادیبوں کے لیے محبت و عقیدت کے نذرانے پیش کر کے شاعری کو ایک وسیع تر تناظر میں لے جاتی ہے۔

یہ کتاب محض اشعار کا ایک شخصی مجموعہ نہیں، بلکہ ایک شعری کائنات ہے، جہاں عشق محض ایک محبوب سے نسبت نہیں بلکہ فکری ارتقاء ، جذباتی سچائی اور روحانی کشف کا استعارہ بن کر ابھرتا ہے۔

ارم شہزادی کی شاعری کا ایک خاص اور قابلِ قدر پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے جذباتی اظہارات کو ادبی عقیدت سے جوڑتی ہیں۔ کتاب میں مستنصر حسین تارڑ جیسے بلند پایہ ادیب کے لیے کہے گئے اشعار نہ صرف ان کی شخصیت کے حسنِ کلام اور فکری وسعت کا اعتراف ہیں بلکہ شاعرہ کی اپنی علمی بصیرت اور ادبی شعور کا آئینہ بھی:

زندگی راز ہے، راز گہرا بھی ہے

اس کے رازوں سے پردہ اٹھاتے رہیں

اپنے الفاظ سے، حسنِ انداز سے

سیر سب کو جہاں کی کراتے رہیں

ہے دعا میری، میلہ یہ سجتا رہے

آئیں مرشد سے سب فیض پاتے رہیں

یہ اشعار نہ صرف عقیدت کے اظہار ہیں بلکہ تارڑ صاحب کی ادبی عظمت، ان کے فکری سفر، اور زبان کی جمالیات پر ان کی گرفت کی دل سے نکلتی ہوئی توصیف ہیں۔ شاعرہ نے ان اشعار میں "مرشد" کا لفظ چن کر تارڑ صاحب کے روحانی مقام کو جس احترام سے یاد کیا ہے، وہ خالص اردو تہذیب کی روایات سے جڑی محبت کی ایک زندہ علامت ہے۔

ارم کی شاعری کی بنیاد میں عشق کی دھیمی آنچ جلتی ہے۔ ان کے اشعار میں عشق فقط محبوب سے محبت نہیں بلکہ خودی، خامشی، قرب و بعد، اور خوابوں کے ملبے سے جنم لینے والے درد کا نام ہے:

"خود سے اب میرا اکثر

رابطہ نہیں ہوتا"

۔۔۔۔۔۔۔

"میرے رتجگوں کا مکیں کوئی، میری نسبتوں کا امیں کوئی

کوئی بیخبر میرے حال سے، کوئی میرا واقفِ حال ہے"

یہ اشعار خودکلامی کی اس کیفیت کا مظہر ہیں جہاں لفظ انسان کی روح سے ہم کلام ہو جاتے ہیں۔

ارم کی نظم "تنہائی" قلیل ترین لفظوں میں وہ گہرائی رکھتی ہے جو اکثر ضخیم کتابیں بھی نہیں دے پاتیں:

 "اپنے اپنے دائروں میں

ساتھ ساتھ چلتے بھی

سب کے سب ہی

تنہا ہیں!!!!"

یہ نظم آج کے انسان کی ظاہری گہما گہمی اور باطنی تنہائی کا ایسا پیکر ہے جو ہر قاری کے دل میں ایک آہستہ سی چبھن پیدا کرتا ہے۔

ارم کی غزلیں روایت سے جڑی ہوئی ہیں مگر ان میں خیال کی تازگی، زبان کی نرمی اور احساس کی روانی ایسی ہے جو قاری کو چونکنے پر مجبور کر دیتی ہے:

"چاند جو اترا میرے گھر کے آنگن میں

میں نے گھر میں دیپ جلانا چھوڑ دیا

وہ مجھ کو اب بھولنے لگا ہے اکثر

اور میں نے بھی یاد دلانا چھوڑ دیا"

یہ اشعار ترکِ تعلق کے بعد کی خاموشی اور خودداری کا بیان ہیں، جو نہ احتجاج میں بدلتی ہے نہ گریہ میں، بلکہ دل کے کسی کنارے پر ہنر بن کر ٹھہر جاتی ہے۔

ارم شہزادی صرف جذبے کی شاعرہ نہیں بلکہ مشاہدے کی آنکھ بھی رکھتی ہیں۔ ان کے اشعار میں سماجی رویوں پر ایک نرم مگر گہرا طنز چھپا ہوتا ہے:

"اپنے ہر عمل کا وہ اجر ضائع کرتے ہیں

جو زا اٹھاتے ہیں نیکیاں جتانے کا"

ایسے اشعار ارم کی شعری شخصیت کو محض رومانی شاعرہ کے خانے میں نہیں آنے دیتے بلکہ انہیں فکر اور مشاہدے کے سنگم پر کھڑا دکھاتے ہیں۔

"عشق کے رنگ ہزار" محض ایک عنوان نہیں بلکہ ایک دعویٰ ہے، اور ارم شہزادی نے اس دعوے کو خوبصورتی سے پورا کیا ہے۔ ان کی شاعری جذبات کی تجریدی تصویروں سے نکل کر قاری کے دل کے کمرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ ان کا اسلوب سادہ ضرور ہے مگر اس سادگی میں جو سچائی، درد، جذبہ، اور بصیرت ہے، وہ ان کے شعری مستقبل کی پختگی کی نوید ہے۔

تارڑ صاحب جیسے عظیم ادیب کو خراجِ عقیدت پیش کرنے والی یہ آواز یقیناً آنے والے وقتوں میں اردو ادب میں اپنی الگ شناخت بنائے گی — ایک ایسی شناخت جو "عشق" کو صرف "جذبہ" نہیں، "تجربہ، کشف، اور تخلیق" مانتی ہے۔

تبصرہ نگار: عبید اللہ عابد

شہابِ فکر(کالم اور مضامین)

مصنف: رانا محمد شاہد، قیمت: ایک ہزار روپے

ناشر: رانا محمد شاہد، 26، گلستان کالونی، بورے والا، رابطہ نمبر: 03457094506

ادب کی دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے لکھنا صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ زندگی کا جزو بن جاتا ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے اپنے محسوسات، تجربات اور مشاہدات کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ قاری ان کے ساتھ چلنے لگتا ہے۔ رانا محمد شاہد بھی ایسے ہی لکھاریوں میں سے ایک ہیں، جن کا قلم جہاں چل پڑا، وہاں ٹھہرنا بھول گیا۔

رانا محمد شاہد بچوں کے مشہور اور مقبول رسالے ’آنکھ مچولی‘ میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔ ان کی تحریروں کی خاص بات ان کی سادہ، رواں اور بے ساختہ زبان ہے۔ ان میں ایک ایسا فطری بہاؤ ہے جو قاری کو شروع سے آخر تک باندھے رکھتا ہے۔ ان کی دو درجن سے زائد تحریریں ایسی ہیں جو بیک وقت کالم کا رنگ بھی رکھتی ہیں اور مضمون کی شکل بھی اختیار کرتی ہیں۔ ان میں خودنوشت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور اجتماعی مشاہدات بھی۔

ان کی تحریروں کا دائرہ وسیع ہے۔ وہ صرف ذاتی تجربات پر قناعت نہیں کرتے بلکہ معاشرتی مسائل، سماجی رویے، فلمیں، ڈرامے، صحت، اور یہاں تک کہ کرکٹ جیسے موضوعات پر بھی گہری اور جامع رائے رکھتے ہیں۔ ان کی ایک تحریر 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل پر ہے، جو صرف ایک میچ کا احوال نہیں بلکہ پاکستانی کرکٹ کے مسائل اور کھلاڑیوں کے پس منظر کو سمجھنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

رانا محمد شاہد کے ہاں جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے، وہ ہے علم اور مطالعے کا جنون۔ ان کے اندر ایک ایسا اضطراب ہے جو انھیں مسلسل پڑھنے، جاننے اور پھر لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ بچپن اور لڑکپن میں وہ جو کچھ بھی ہاتھ آتا، اسے پڑھے بغیر نہیں چھوڑتے تھے۔ اس راہ میں کئی بار انھیں مایوس کن صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک بار وہ اپنی بہن کے گھر گئے اور وہاں ایک ڈائجسٹ دیکھا۔ جب بہن سے اجازت مانگی کہ ساتھ لے جائیں تو انھوں نے صاف انکار کر دیا۔ شاید انکار کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتی تھیں کہ یہ صرف ساتھ لے جانے کی ضد ہے، پڑھنے کی نہیں۔ مگر اس انکار نے بھی شاہد صاحب کے شوق کو سرد نہ ہونے دیا۔

ادب کی دنیا میں داخلہ آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر جب اشاعت کی بات آئے۔ رانا صاحب نے جب اپنی تحریروں کو کتابی شکل دینے کی کوشش کی، تو وہاں بھی رکاوٹیں اور مایوسیاں ان کا راستہ روکنے آئیں۔ لیکن ان کے قلم کی روانی نے راستہ نکالا۔ ایک مجموعہ شائع ہوا، پھر دوسرا، اور اب تیسرا اور چوتھا بھی اشاعت کے قریب ہیں۔

رانا محمد شاہد کی تحریریں نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں بلکہ ایک عام قاری کے دل کی آواز بھی ہیں۔ وہ نہ تو پیچیدہ اسلوب کے قائل ہیں اور نہ ہی مصنوعی الفاظ کے۔ ان کی سادگی ہی ان کی اصل طاقت ہے، جو ان کی تحریروں کو عام فہم اور پراثر بناتی ہے۔

مصنف کا تخلیقی سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر جذبہ سچا ہو اور ارادہ پختہ، تو الفاظ کی دنیا میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔ ان کا قلم محض اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک ایسا چراغ ہے جو مطالعے، مشاہدے اور مسلسل جدوجہد سے روشن ہوا ہے۔ ایسے ادیب ہماری ادبی روایت کے لیے ایک نعمت ہیں، جنھیں پڑھنا نہ صرف دل کو بھاتا ہے بلکہ ذہن کو جِلا بھی دیتا ہے۔

مال گاڑی میں امانتیں

مصنف : محمد حنیف بندھانی (ایڈووکیٹ)، قیمت: 1500 روپے

ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ، رابطہ نمبر: 0300-0515101

’یہ صرف سامان کی منتقلی کی داستان نہیں، یہ ضمیر کی آواز ہے!‘

تقسیم ہند 1947 صرف ایک سیاسی عمل نہیں تھا بلکہ انسانیت، قربانی، جدوجہد اور ایمان کا ایک عظیم مظہر تھا۔ انہی قربانیوں کی کہانی ہے محمد حنیف بندھانی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ سندھ کی کتاب ‘مال گاڑی میں امانتیں’ دراصل ان کے والد، چودھری محمد اسماعیل (گورنمنٹ کیرج کنٹریکٹر) کی جدوجہد اور خدمات پر مبنی ہے۔

کتاب کا مرکزی کردار ایک ایسا سچا اور بے لوث پاکستانی ہے، جو اْس وقت آگ اور خون کے دریا عبور کرتا ہے، جب لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے سب کچھ چھوڑ رہے تھے۔ چودھری محمد اسماعیل نے دہلی سے پاکستان ہجرت کرنے والے اعلیٰ سرکاری افسران کا قیمتی سامان، اہم دستاویزات اور کتب وغیرہ انتہائی خطرناک حالات میں بحفاظت کراچی تک پہنچائیں۔ ان اعلیٰ افسران میں اسکندر مرزا بھی تھے اور چوہدری محمد علی(سابق وزیراعظم) اور قدرت اللہ شہاب جیسے بہت سے دیگر لوگ بھی تھے۔

یہ ایک عام کنٹریکٹ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا مشن تھا جس میں دیانتداری اور قربانی دونوں شامل تھے۔ اس مشن میں یہ ابتلا بھی شامل تھی کہ جن افسروں کا وہ سامان لے کر آئے، انہی افسروں نے ان کے بلز کی ادائیگی برسوں تک روکے رکھی۔

مصنف نے نہ صرف اپنے والد کی خدمات کو بیان کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس دور کے سماجی، اخلاقی اور انسانی پہلوؤں کو بھی بڑی خوبی سے اْجاگر کیا ہے۔ والدہ کے قتل کے دکھ کے باوجود چودھری اسماعیل نے اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑا—یہ جذبہ آج کے انسان کے لیے ایک مکمل سبق ہے۔

کتاب میں ایک اور اہم پہلو اجرت کی عدم ادائیگی کا بھی بیان ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وطن پر سب کچھ قربان کیا جا رہا تھا، ایسے افراد کو معاوضہ تک نہ دیا جانا ہمارے ریاستی رویے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

حالانکہ محمد اسماعیل نامی یہ ’کیرج کنٹریکٹر‘ اعلیٰ افسران اور عملے کی رہائش گاہوں سے سامان بشمول آدمیوں اور ریکارڈ اور فرنیچر وغیرہ کی دہلی اور مضافاتی علاقوں میں واقع سرکاری دفاتر سے اور اس سامان کی دہلی یا نئی دہلی ریلوے اسٹیشنوں کے سامان کے شیڈ تک لے گئے اور اس کا وزن انتہائی احتیاط سے کرایا اور اسے ویگنوں میں لوڈ کیا۔ پھر کراچی ریلوے اسٹیشن پر اسے انتہائی احتیاط سے اتارا، اسے ہر ایک افسر یا عملے کے ممبر کے لیے یا محکمے کے لحاظ سے ترتیب دیا، اور اسے حکومت کے حوالے کیا۔

محمد حنیف بندھانی نے، جو سینئر قانون دان ہیں، محض ایک بیٹا ہونے کا حق ادا نہیں کیا، بلکہ ایک مؤرخ، ایک محب وطن اور ایک باضمیر انسان کا کردار بھی نبھایا ہے۔ انہوں نے 76 برس پرانی دستاویزات کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ انہیں ایک مستند تاریخی کتاب کی شکل میں پیش کیا۔

کتاب کی اشاعت ’قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل‘ لاہور نے نہایت خوب صورتی سے کی۔ فلیپ پر اردو ادب کی معتبر شخصیات جیسے الطاف حسن قریشی، محمود شام اور علامہ عبدالستار عاصم کے خیالات شامل کر کے کتاب کی ثقاہت اور وقعت میں اضافہ کیا گیا ہے۔

‘مال گاڑی میں امانتیں’ ایک ایسی دستاویزی یادداشت ہے جو صرف ماضی کی تصویر نہیں بلکہ حال کا آئینہ اور مستقبل کا رہنما ہے۔ یہ کتاب نہ صرف تقسیم ہند کی اصل روح کو اجاگر کرتی ہے بلکہ ان گمنام ہیروز کو سامنے لاتی ہے جن کی خدمات کے بغیر پاکستان کا قیام ممکن نہ تھا۔ نئی نسل کے لیے یہ کتاب ایک تاریخی ورثہ، ایک سبق اور ایک فخر ہے۔

٭٭٭

مقبول خبریں