رانا ثناء ا للہ کے گھر پر حملہ پر سزائیں

سزائوں کے اس موسم نے تحریک انصاف کی قیادت کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے


مزمل سہروردی August 27, 2025
[email protected]

رانا ثنا ء اللہ کے گھر پر حملے کے جرم میں بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو سخت سزائیں سنا دی ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت کا موقف ہے کہ عسکری تنصیبات پر حملوں پر سخت سزائیں سنائی گئیں لیکن کیا رانا ثنا ء اللہ کا گھر بھی حساس تنصیب ہے جو اتنی سخت سزائیں سنائی گئی ہیں۔ میں تحریک انصا ف کے اس موقف سے متفق نہیں ہوں۔ میری رائے میں ہر عام شہری کا گھر اتنا ہی مقدم ہے جتنی کوئی عکسری تنصیب ہے۔ تحریک انصا ف کو ایسے فضول دلائل ڈھونڈنے کے بجائے اپنے جرم پر معافی مانگنی چاہیے۔ سیاست کوئی ایک دوسرے کو مارنے کا کھیل نہیں، روداداری کا کھیل ہے۔

اس میں اختلاف ہے لیکن اختلاف کی حدود ہیں۔ اختلاف کا مطلب ایک دوسرے کو مارنے کا نہیں، مخالف کی بات کو برداشت کرنا ہی سیاست کا حسن ہے، مخالفین کے گھروں پر حملہ کرنا کوئی سیاست نہیں، یہ عسکریت پسندی ہے۔ جو لوگ رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ کے جرم پر سزاؤں پر اختلاف کر رہے ہیں، وہ سوچیں اگر یہی حملہ ان کے گھر پر ہوا ہوتا تو ان کے کیا جذبات ہوتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ بانی تحریک انصا ف کی جانب سے ایسی تقاریر کی گئیں جن میں کارکنوں کو رانا ثناء للہ کے گھر پر حملہ کی ترغیب دی گئی۔

وہ کئی دفعہ بانی تحریک انصاف کی سیاسی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ اس لیے صرف سرکار کا نہیں سب کے گھر مقدم ہیں۔ سب کے گھروں کا احترام ہونا چاہیے۔ ویسے آجکل سزاؤں کا موسم چل رہا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف جتنے بھی ایسے مقدمات ہیں سب پر سزاؤں کا عمل جاری ہے۔

سزاؤں کے اس موسم نے تحریک انصاف کی قیادت کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر خوف کا ایک ماحول ہے۔ چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور اور بااثر ہے، ہر کسی کا خیال ہے کہ اسے بھی سزا ہو سکتی ہے۔ جنھیں کوئی چھو نہیں سکتا تھا، انھیں بھی اپنی سزا سامنے نظرا ٓرہی ہے۔ اور ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ اگر اسے سزا ہوگئی تو وہ کیا کرے گا۔ اس لیے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر مزاحمتی سیاست کے خلاف بھی ایک رائے بن رہی ہے۔ اب ایک سوچ بن رہی ہے کہ ان سے غلطیاں ہو ئی ہیں۔ وہ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ یہاں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

نو مئی کو صرف رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ نہیں ہوا تھا۔ لاہور میں مسلم لیگ ہاؤس پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔ وہاں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ آگ لگائی گئی تھی۔ اس کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کو دوسری سیاسی جماعت کے دفتر پر بھی حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی سیاسی دہشت گردی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام بھی کرنا چاہیے۔ سیاسی کارکنوں کو اشتعا ل دینا کوئی اچھی سیاست نہیں۔ سیاسی کارکنوں کو اختلاف برداشت کرنے کی ترغیب دینا ہی اصل سیاست ہے۔

کچھ دوستوں کی رائے کہ تحریک انصاف کو باقاعدہ رانا ثناء اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ان سے معذ رت کرنی چاہیے۔ اور ان سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ سب کو معاف کر دیں۔ میں نے جواب دیا کہ دیکھو معافی کی بات نہیں کرو۔ ساری لڑائی معافی کی ہے۔ ابھی حال ہی میں ملک میں معافی پر اتنی بڑی لڑائی ہوئی ہے۔ اور پھر اگر تحریک انصاف نے معافی ہی مانگنی ہوتی تو وہ مانگ لیتے۔ حالات اتنے خر اب ہی نہ ہوتے۔ لیکن تحریک انصاف کا سیاسی موقف تو یہ ہے کہ ہم نے تو کبھی اپنے باپ سے معافی نہیں مانگی تو کسی سے معافی کیوں مانگیں۔ حالانکہ انھیں جواب میں بتایا گیا کہ والدین سے تو سب معافی مانگ لیتے ہیں۔

بہر حال رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ کے مقدمہ میں سزاؤں نے سیاسی ماحول میں تلخی پیدا کی ہے۔ تحریک انصاف اس وقت شدید مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔ ایک طرف سزائیں ہیں دوسری طرف اندرونی اختلافات ہیں۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ نقصا ن سزاؤں سے ہو رہا ہے یا اختلافات سے ہو رہا ہے۔ ایک طرف سزائیں دوسری طرف ان سزاؤں سے خالی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخاب کا تنازعہ بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس ضمن میں بھی تحریک انصا ف نے بانی تحریک انصاف کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے لوگ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے ارکان کی بات ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔

یہ رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ جو لوگ تحریک انصاف کی طرف سے ضمنی انتخاب لڑ رہے ہیں، وہ بانی کے غدار ہیں۔ انھیں بانی کی حمائت حاصل نہیں۔ اس لیے پارٹی کے ووٹر کو انھیں ووٹ نہیں ڈالنا چاہیے۔  ہر حال رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ پر سخت سزاؤں نے رانا صاحب کے سیاسی مفاہمت اور ڈائیلاگ کے حق میں دیے جانے والے بیانات کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان کی ڈائیلاگ والے موقف اب وزن نہیں رہا۔ یہ ممکن نہیں کہ ان کے گھر پر حملہ پر سخت سزائیں بھی ہوں اور وہ سیاسی ڈائیلاگ کی بات بھی کریں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ رانا صاحب کو اپنی سیاسی لائن بھی بدلنی ہوگی۔ اب ان کی ڈائیلاگ والی بات آگے چلتی نظر نہیں آتی۔

تحریک انصاف کی قیادت کا یہ بھی موقف سامنے آیا ہے کہ ان پر دباؤ ٖڈالا جاتا ہے کہ وہ بانی کی رہائی کو ممکن بنائیں۔ لیکن قیادت کا موقف ہے کہ جب انھیں سیاسی فیصلوں میں آزادی نہیں تو ان سے توقع کیوں ہے۔ یہ رائے بھی دی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور شہباز شریف جب گرفتار ہوئے تھے تب انھوں نے سارے سیاسی اختیارات پارٹی کو دے دیے تھے۔ اور ان کی پارٹی کی قیادت نے ان کی رہائی کے لیے راستہ بنایا تھا۔ جب تک ہمیں بھی اختیارات نہیں دیے جاتے تو رہائی کی توقع بھی نہ کی جائے۔ یہ ایک دلچسپ دلیل ہے۔

 لیکن دوسری طرف یہ بھی رائے کہ تحریک انصاف کی اکثریت اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی حامی ہے ۔ وہ لڑائی بند کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ لڑائی بند کر کے ہی مقدمات سے نکلنے کی راہ نکل سکتی ہے لہٰذا ماحول کو ٹھنڈا کرنا ہوگا۔ ورنہ سزاؤں کے موسم میں سختی آئے گی۔

مقبول خبریں