میرے بھائی، میرے پیارے بھائی

خدا نے اس کی محنت میں برکت ڈالی اور کچھ ہی عرصے میں امیر ہوگیا


سعد اللہ جان برق September 10, 2025
[email protected]

وہ ساری خبریں بلکہ خوش خبریاں اور مژدہ ہائے جاں فزا اور روح افزا تو آپ نے سن لی ہوں گی اور سن اور پڑھ رہے ہوں گے کہ کس طرح ہمارے وزیرخارجہ جو نائب وزیراعظم بھی ہیں، بنگلہ تشریف لے گئے ۔

مل گئے جب وہ گلے،سارے گلے جاتے رہے

اس مبار ک ملن پر اپنے دانا دانشور اپنے گھوڑے خوب خوب دوڑا رہے ہیں اور اس مبارک ملن کو ہر ہر زاویے سے مبارک خیز،مسرت خیز اور ولولہ خیز قرار دے رہے ہیں بلکہ بین السطور میں یہ خوش خبری بھی جھلکیاں دے رہی ہے کہ دونوں پیارے ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے پیارے ہوجائیں گے۔ پھر وہی پہلی سی بہاریں ہوں گی، دراصل پاکستان کی آب وہوا میں کچھ ایسی تاثیر ہے کہ یہاں کے لوگوں کی قریب کی بینائی ازحد کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دور کی بینائی تارے دکھاتی رہتی ہے۔

اندازہ اس سے لگائیں کہ ہر پاکستانی کو دوسرے کی ساری غلطیاں دکھائی دیتی ہیں اور اپنی ایک بھی نہیں۔اور ہر وقت دوسروں کی رہنمائی پر کمربستہ رہتا ہے۔ ثبوت کے طور پر دانا دانشور قلم کاروں کی تحریریں، جلسوں جلوسوں میں تقریریں اور چینلوں پر تجزیات کی نہریں دیکھیے۔اب اتنے بڑے بڑے نقاروں کے بیچ ہم کیا اور ہمارا نحیف ونزار طوطا کیا؟اس لیے ہم اس واقعہ پر تو کچھ نہیں کہیں گے البتہ آپ کو قصے کہانیاں سناسکتے ہیں۔

کہتے ہیں کچھ لوگ سفر پر نکلتے تھے، ایک لق ودق بیابان سے گزر ہوا تو سخت بھوک لگی، پاس تو کھانے کو کچھ نہ تھا لیکن آس پاس بھی کھانے کی کوئی چیز نہیں تھی، اس لیے بھوک اور تھکن سے نڈھال ہوکر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے، قسمت اچھی تھی کہ تھوڑی دیر بعد وہاں سے ایک ایسے شخص کا گزر ہوا جس نے گدھوں پر ’’مولیاں‘‘ لادی ہوئی تھیں۔ انھوں نے مولیاں مانگیں تو اس نے ایک پورا گھٹا اتار کر دے دیا۔

  ان کی عید ہوگئی، جی بھر مولیاں کھائیں اور وہیں پڑے رہے۔تھوڑی دیر بعد وہاں سے ایک قافلہ گزرا تو قافلے والوں نے بہت ساری کھانے کی چیزیں انھیں دے دیں، روٹیاں،گوشت،چاول پھل وغیرہ۔یہ لذیذ مرغن چرغن نعمتیں ٹھونس کر وہ پھولے نہیں سمائے۔چلتے وقت ایک کی نگاہ مولیوں کے قتلوں پر پڑی تو حقارت سے لات مارکر سارے قتلے بکھیر دیے اور بولا، ہونہہ مولیاں آخ تھو۔پھر ان میں سے ایک نے مولیوں کے قتلوں پر ’’جواب چائے‘‘ کیا۔ یہ’’جواب چائے‘‘ کا لفظ افغان مہاجروں سے ہم نے سیکھا ہے۔

ایک نے مولیوں کے قتلوں پر جواب چائے کیا تو دوسرے کیسے پیچھے رہتے۔دو دن بعد اپنا جو کچھ بھی کام تھا، وہ کرکے یا نہ کرکے واپس ہوئے تو پھر وہی بھوک ۔ اتفاق سے اسی پیڑ کے سائے پہنچے اور بیٹھ گئے۔ مولیوں کے قتلوں وہیں پڑے تھے، سوکھ کر خراب ہوچکے تھے۔ وہ سب ان قتلوں کو دیکھتے رہے، سوچتے رہے، بھوک سے لڑتے رہے۔آخر ان میں سے ایک اٹھا، قتلوں کے پاس گیا اور دیکھتا رہا۔پھر ایک قتلہ اٹھا کر بولا، میرا خیال ہے چھینٹے اس پر نہیں پڑے ہیں اور قتلے کو منہ میں ڈال کر چبانے لگا۔

ایک اور نے بھی کولمبس بن کر ایسے قتلے دریافت کر لیے جن پر چھینٹے نہیں پڑے تھے۔اب باقی کیسے پیچھے رہتے، انھوں نے بھی ایسے قتلے دریافت کرنا شروع کردیے جن پر چھینٹے نہیں پڑے تھے اور تھوڑی دیر بعد وہاں مولیوں کا ایک بھی قتلہ باقی نہیں رہا۔ نہ جانے وہ قتلے کہاں چلے گئے تھے جن پر چھینٹے پڑے تھے، شاید ان کی غیرموجودگی میں وہ قتلے کہیں بھاگ گئے تھے اور ان کی جگہ تازہ تیار نئے نویلے اور پاک و صاف قتلے وہاں خود بخود آگئے تھے۔ایک اور کہانی دُم ہلانے لگی ہے، اس سے بھی سنتے چلیں۔

ایک شخص کے دو بیٹے تھے لیکن ان کی مائیں الگ الگ تھیں۔ ان میں جو پہلی بیوی سے تھا، شادی شدہ تھا اور اس کے کئی جوان بیٹے تھے چنانچہ باپ کے مرنے کے بعد اس نے سب کچھ قبضے میں کرلیا اور چھوٹے کو گھر سے بھی نکال دیا۔

چھوٹے نے بڑی منتیں سماجت کی کہ میں تمہارا بھائی ہوں لیکن بڑے نے حقارت سے اور اسے دھکے دے کر کہا۔کہاں کا بھائی کیسا بھائی تم تو میرے سوتیلے ہو۔مجبور ہوکر سوتیلا چلا گیا۔اور محنت مزدوری کرنے لگا۔ خدا نے اس کی محنت میں برکت ڈالی اور کچھ ہی عرصے میں امیر ہوگیا۔ادھر بڑے کے بیٹے مقروض ہوگئے۔پھر ایک دن وہ اپنے بیٹوں کو لے کر چھوٹے کے پاس گیا۔اور اس سے لپٹتے ہوئے بولا،میرے بھائی میرے پیارے بھائی۔۔

مقبول خبریں