کیا ٹرمپ نوبل امن انعام کے حق دار ہیں؟

کمیٹی ایسے افراد کو ترجیح دیتی ہے جنھوں نے دنیا میں پائیدار امن اور بین الاقوامی تعاون کے لیے طویل جدوجہد کی ہو


عثمان دموہی October 12, 2025

ماہرین کا پہلے ہی کہنا تھا امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نوبل انعام کے حصول کی بڑی خواہش ضرور رکھتے ہیں مگر ان کی خواہش اور کردار میں بہت فرق ہے۔ ان کے مطابق ٹرمپ کا نوبل انعام جیتنا مشکل ہے کیونکہ ان کا عالمی قیام امن کے سلسلے میں ریکارڈ بہت کمزور ہے۔

نوبل امن کے اجرا کے سلسلے میں ایک باقاعدہ کمیٹی قائم ہے جو نوبل انعام جسے دیا جاتا ہے اس کا پورا ڈیٹا حاصل کر کے اس پر گہری نظر ڈالتی ہے کہ وہ شخص جسے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے، وہ اس کی جدوجہد اس معیار پر پورا اترتی ہے جس کے بل بوتے پر اسے نوبل انعام اسے دیا جائے۔

کمیٹی ایسے افراد کو ترجیح دیتی ہے جنھوں نے دنیا میں پائیدار امن اور بین الاقوامی تعاون کے لیے طویل جدوجہد کی ہو اور اس میں اسے کامیابی ملی ہو۔ ایسا شخص صرف زبانی طور پر امن کا حامی نہ رہا ہو بلکہ اس نے عملی طور پر امن کے لیے کام کیا ہو اور اس کی کوششوں سے امن قائم ہوگیا ہو اور ظلم و تشدد کی فضا رک گئی ہو۔

ایسے میں اگر دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ کے اقدامات امن کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتے، اس لیے ان کا امن انعام حاصل کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کے دوران جو تقاریر کی تھیں ان میں دنیا میں امن کی بگڑتی ہوئی حالت پر سخت تشویش ظاہر کی جاتی تھی۔

انھوں نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دنیا سے جنگ و جدل کے ماحول کو یکسر امن میں تبدیل کردیں گے۔ خصوصاً غزہ اور یوکرین میں جنگ بند کرادیں گے۔

ان سے پہلے صدر بائیڈن کا دور تھا، بائیڈن ایک ڈھیلے ڈھالے امریکی صدر تھے ،ان کے دور میں دنیا میں ہر طرف جنگ و جدل کا ماحول بن گیا تھا۔ یوکرین جنگ ان کے دور میں شروع ہوئی اور غزہ پر اسرائیل نے بہیمانہ بمباری کا سلسلہ شروع کیا جو مسلسل جاری رہا، اس میں اب کہیں جا کر کمی ہوئی ہے ۔

غزہ جنگ کے دوران امریکا اسرائیل کو مہلک ترین ہتھیار مہیا کرتا رہا تو دوسری جانب یوکرین کو بھی ہتھیار فراہم کرتا رہا، صدر ٹرمپ کے ان اقدامات سے ایک طرف اسرائیل کی ہمت افزائی ہوئی اور وہ فلسطینیوں کا دل کھول کر قتل عام کرتا رہا، ادھر یوکرین میں بھی جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا رہا۔

اس میں شک نہیں کہ یوکرین میں جارحیت کا ارتکاب روسی حکومت کی جانب سے شروع ہوا تھا مگر اسے مزید سنگین بنانے میں یوکرین کے صدر زیلنسکی نے اہم کردار ادا کیا۔ زیلنسکی بجائے روس سے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے اس پر حملے شروع کر دیے اور روس کے دشمن مغربی ممالک سے ساز باز کر کے ان سے جدید اسلحہ حاصل کر کے روس پر شدید حملے شروع کر دیے، اس طرح دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا۔

یہ جنگ اب بھی جاری ہے مگر اس جنگ کو آگے بڑھانے میں مغربی ممالک کے ساتھ امریکا کا بھی اہم کردار ہے۔ ایک زمانے تک یوکرین سوویت یونین کا حصہ تھا مگر 1991 میں روس نے اپنی کئی ریاستوں کو آزادی دے دی تھی، ان میں یوکرین بھی شامل تھا۔

اس وقت کی روسی حکومت نے یہ اقدام اس نظریے کے تحت اٹھایا تھا کہ روس ان ریاستوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا ساتھ ہی اس وقت اسے مغربی ممالک سے بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا، کیونکہ وہ تمام ہی سوویت یونین کے ٹوٹنے سے خوش تھے اور روس سے دوستی کا اظہار کر رہے تھے۔

مگر بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ مغربی ممالک روس کے حقیقی دوست یا خیر خواہ نہیں ہیں، وہ روس کو مزید کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح روس کی مغربی سرحدیں ہر وقت خطرے میں تھیں۔ ایسے میں روس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی مغربی سرحدوں کو مضبوط بنانے کے لیے یوکرین کے کچھ علاقوں کو خصوصاً مشرقی علاقوں کو اپنی تحویل میں لے لے۔

چنانچہ اس نے اس مقصد کے حصول کے لیے یوکرین کے مشرقی علاقوں پر یلغارکردی اور اب یوکرین کے وہ علاقے جو روس کو مطلوب تھے وہ اس نے حاصل کر لیے ہیں چنانچہ لگتا ہے روس جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

مگر مغربی ممالک یوکرینی صدر زیلنسکی کو اپنا ہمنوا بنا چکے ہیں اور اسے روس کے خلاف برسر پیکار رکھا ہوا ہے۔ ادھر غزہ میں دو سال سے زائد عرصہ تک اسرائیلی جارحیت جاری رہی، اس کی بے یار و مددگار فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری سے 80 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار دراصل مغربی ممالک کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں مگر آزاد ذرایع کے اعداد و شمار کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ فلسطینی مرد، عورتیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں اور غزہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

بائیڈن کے بعد ٹرمپ سے یہ امید لگائی جا رہی تھی کہ مشرق وسطیٰ میں فوری امن قائم ہوگا اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ ختم ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ حالانکہ ٹرمپ جب نئے نئے صدر منتخب ہوئے تھے، انھوں نے پھر وعدہ کیا تھا کہ وہ چند ہی دنوں میں غزہ کی جنگ رکوا دیں گے اور وہاں دائمی امن قائم کر دیں گے۔

مگر افسوس کہ صدر ٹرمپ نہ تو غزہ میں جلد جنگ بند کرا سکے اور نہ ہی یوکرین کی جنگ بندی ہو سکی، اب حماس کے ساتھ معاہدہ ہوچکا ہے اور غزہ میں جنگ بند ہے لیکن اس وقت غزہ میں انتہائی ہولناک حالات ہیں۔

اسرائیل نے بڑی بے رحمی سے فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے جتنی قراردادیں پیش ہوئیں، انھیں امریکا کی جانب سے ویٹو کر دیا ۔ اس امریکی اقدام سے نیتن یاہو کی ہمت افزائی ہو تی رہی اور وہ بڑی ڈھٹائی سے فلسطینیوں کا قتل عام کرتا رہا اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ وہاں قحط کی صورت حال پیدا کر دی گئی۔

صدر ٹرمپ کو اپنے وعدے کے مطابق فوری طور پر غزہ میں امن قائم کرنے کی ضرورت تھی مگر وہ اس ذمے داری کو پورا نہیں کر سکے۔ غزہ میں مسلسل دو سال کی بھیانک بمباری سے سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔

جنگ روکنے کے اقوام متحدہ کے احکامات کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی، ایسے حالات میں صدر ٹرمپ کا نوبل امن کے حصول کے لیے امید رکھنا حقائق کے برعکس ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انھوں نے پاک بھارت جنگ کو ختم کرا دیا ، وہ تھائی لینڈ اورکمبوڈیا ساتھ ہی کانگو اور راوانڈا کے درمیان جنگ ختم کرانے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔

یہ اگر صحیح بھی ہے کہ ان جنگوں کو ختم کرانے میں انھوں نے کردار ادا کیا تھا مگر اصل جنگ جہاں روز انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے یعنی یوکرین کی جنگ ، وہ اسے ختم نہیں کرا سکے بلکہ وہ اسے جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، غزہ جنگ بندی بھی خاصی دیر سے ہوئی ۔

اس طرح وہ کیسے خود کو عالمی امن کا علم بردار کہہ سکتے ہیں اور نوبل امن انعام کے حق دار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہی ہوا ہے، نوبل امن انعام وینزویلا کی ماریا کورینا کو ملا ہے۔

مقبول خبریں