قبول ہے

وجاہت علی عباسی  پير 11 اگست 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

’’یہ شادی نہیں ہوسکتی‘‘ والا ڈائیلاگ آپ نے سیکڑوں بار سنا ہوگا۔

پاکستان کے کئی فلمی ہیروز کے کیریئر ختم ہوگئے لیکن ہیروئن کے والدین نے کسی بھی فلم میں اپنی خوشی سے بیٹی کی شادی اس ہیرو سے نہیں ہونے دی، پاکستان ہو یا انڈیا، شادی کی اجازت نہ ملنا فلمی ہیروز کے لیے کامن ہے۔

وقت بدلا، فلمیں بدلیں لیکن ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ ہو یا ’’ہمپٹی شرما کی دلہنیا‘‘ ہیرو کا ہمیشہ سے یہی مسئلہ ہے کہ شادی میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آجاتی ہے۔

کچھ دن پہلے سعودی عرب کی حکومت نے بھی اپنے یہاں یہی فلمی قانون نافذ کرنے کی بات چلائی ہے۔ وہ قانون جس میں حکومت اپنے ہی شہریوں سے کہے گی کہ ’’یہ شادی نہیں ہوسکتی‘‘ اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ اس وقت کہا جائے گا جب کوئی سعودی لڑکا پاکستانی لڑکی سے شادی کرنا چاہے گا۔

پاکستان، بنگلہ دیش، چڈ اور میانمار (برما) یہ وہ ممالک ہیں جہاں کی لڑکیوں سے اب سعودی شادی نہیں کرپائیں گے، یہ مسئلہ سعودی عرب میں کئی سال سے زیر بحث رہا کہ سعودی آدمی دوسرے ملکوں کی لڑکیوں سے دوسری یا پھر تیسری شادی کرتے ہیں اور لڑکی کو پھر کچھ عرصے بعد چھوڑ دیتے ہیں یا پھر اسے بیوی کا درجہ نہیں دیتے۔

اس وقت پاکستان، بنگلہ دیش کو ملاکر سعودیہ میں تقریباً پانچ لاکھ لڑکیاں موجود ہیں اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سعودیوں کا شکار یہی لڑکیاں بنتی ہیں۔

مکہ پولیس کے مطابق نئے قوانین کچھ یوں ہوں گے کہ کسی بھی سعودی کو ان چار ملکوں میں سے کسی لڑکی سے شادی کرنی ہو تو اسے باقاعدہ حکومت سے شادی کی اجازت لینی ہوگی، سعودی لڑکے کی عمر کم ازکم 25 سال ہونی ضروری ہے اور اسے اپنا پورا کیس بنواکر علاقے کے میئر سے دستخط کروانے ہوں گے جب ہی وہ شادی کا سوچ سکتا ہے۔

دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ لڑکا اگر پہلے سے شادی شدہ ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی پہلی بیوی مرچکی یا پھر معذور ہے یا اسے کوئی جان لیوا بیماری ہے یا پھر اس کے بچے نہیں ہوسکتے۔

اس وقت سعودیہ میں نو ملین سے زیادہ امیگرنٹس کام کرتے ہیں، جس میں بیشتر نے اپنی فیملیز کو ساتھ رکھا ہے یعنی ان کی بہنیں اور بیٹیاں ہی ان سعودی آدمیوں کا شکار بنتی ہیں۔

عرب کے کئی اخباروں میں اس خبر پر چرچا ہوا، سب ہی نے اس نئے رول کی تعریف کی، واہ کیا قانون ہے، اس سے سعودی معصوم غریب لڑکیوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرپائیں گے وغیرہ وغیرہ۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جسے سعودی اتھارٹیز اور میڈیا کے لوگ بہت کمال کا ہیومن لا رائٹ سمجھ رہے ہیں وہ دراصل کئی بین الاقوامی ہیومن اور ویمن رائٹس کے خلاف ہے، نہ صرف یہ بلکہ کئی ایسے ریگولیشن جن کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔

سب سے پہلی بات یہ کہ صرف چار ہی ملک کیوں؟ عرب میں تو انڈین، نیپالی، سری لنکن، انڈونیشیا غرض یہ کہ ہر جگہ مسلمان موجود ہیں پھر محض ان چار ملکوں کے لوگوں کو یہ احساس دلانا کیوں کہ تم دوسرے لوگوں سے کمتر ہو، کیونکہ تمہارے ملکوں کی لڑکیوں سے شادی کرکے انھیں وہ درجہ نہیں دیا جاتا۔

سعودی جہاں چار ملکوں کے دروازے بند کر رہے ہیں وہیں بقیہ مسلمان ملکوں کی لڑکیوں کے ساتھ یہی سلوک کرنے کے لیے کوئی قانون نافذ نہیں ہو رہا، جہاں پہلے آٹھ پاکستانی اور دو انڈین لڑکیوں کی شادی ہوتی تھی وہیں اب دو پاکستانی اور آٹھ انڈین لڑکیوں کی شادی ہوگی۔ اس کے علاوہ شادی کے لیے لڑکوں کا پچیس سال کی عمر کا ہونا کیوں لازمی قرار دیا گیا۔

سمجھ میں نہیں آیا جب کہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکیوں کے ساتھ برا سلوک کرنے والے مرد زیادہ تر چالیس بلکہ عموماً پچاس برس سے بھی زیادہ کے ہوتے ہیں اور دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر لڑکے کی عمر پچیس سال سے کم کی ہو اور وہ دوسری شادی کرلے تو بیشتر وقت دونوں بیویوں کے ساتھ صحیح سلوک کرتا ہے۔

جہاں تک علاقے کے میئر سے اجازت کا تعلق ہے تو اگر کوئی شخص بارسوخ ہے تو وہ آسانی سے یہ اجازت نامہ حاصل کرسکتا ہے، کوئی بڑا ڈیپارٹمنٹ اس کام کے لیے تشکیل نہیں دیا گیا ہے جہاں تک ہر شخص کی پہنچ نہ ہو۔

یہ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ اگر آپ اپنی بیوی کو کسی کمزوری کی وجہ سے کمتر گردانتے ہیں تو بھی آپ دوسری شادی کرسکتے ہیں۔ آج پانچ میں سے ایک لڑکی کو بچے پیدا کرنے میں کسی نہ کسی مسئلے کا سامنا ہوجاتا ہے لیکن میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ یہ مسئلہ بھی کسی نہ کسی طرح حل ہوجاتا ہے۔ کسی کے بچے نہ پیدا ہو رہے ہوں اور کوئی شخص اپنی بیوی کا علاج کروائے بغیر دوسری شادی کرنے کے لیے اجازت حاصل کرلیتا ہے تو وہ نہ صرف پہلی بلکہ دوسری بیوی کے ساتھ بھی غلط ہوگا۔

کسی بھی ڈاکٹر سے جھوٹی رپورٹ لکھوانا بہت سے لوگوں کے لیے مشکل بات نہیں ہے خصوصاً وہ سعودی جن کے پاس بے تحاشا دولت ہے اور جھوٹی کیوں، معذور تو کوئی بھی ہوسکتا ہے۔

’’معذوری‘‘ کی کوئی ایک تعریف نہیں ہوتی، ’’کلر بلائنڈنیس‘‘ جس میں کسی شخص کو کچھ خاص رنگ نظر نہیں آتے ’’معذوری‘‘ مانی جاتی ہے یا پھر بار بار انجانے میں ٹانگ ہلاتے رہنا میڈیکل ٹرمز میں ایک طرح کی Disability ہے۔ اگر کوئی ثابت کرنا چاہے کہ اس کی بیوی معذور ہے تو اسے کوئی خاص دقت نہیں ہوگی۔

ایک آسان سی چیز یہ ہے کہ اگر کوئی سعودی کسی بھی لڑکی سے شادی کرے تو اسے اپنی جائیداد میں آدھے کا حصہ دار بنائے جیساکہ مغرب میں ہوتا ہے۔ اگر آدھا نہیں تو دس بیس فیصد ہی ہو جو لڑکی طلاق کی صورت میں حاصل کرپائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو چیزیں خودبخود بدل جائیں گی، یہ آسان سا قانون کسی کو نہ کمتر سمجھنے دے گا اور نہ ہی قانون کو توڑ کر دوسری شادی کے لیے راستے نکالنا پڑیں گے۔

امریکا وہ ملک ہے جہاں طلاق کی شرح فیصد بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود لوگ بہت سوچنے سمجھنے کے بعد طلاق دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکی اگر کوئی کام نہ کرتی ہو اور گھر میں ہی رہتی ہو اس کے باوجود قانون کے مطابق وہ شوہر کے مکان، گاڑی اور بینک بیلنس میں آدھے کی حقدار ہوتی ہے بلکہ طلاق ہوجانے کی صورت میں شوہر کو بچوں کا خرچہ بھی اٹھاتے رہنا ہوتا ہے، یہ قانون ان ملکوں میں نافذ کرنے کی سخت ضرورت ہے جہاں شادی جیسے مقدس رشتے کو Abuse کیا جاتا ہے۔

دنیا میں بہت کچھ غلط ہو رہا ہے، سعودی آدمی اور کیا کیا کر رہے ہیں اگر سعودی حکومت یہ غور کرے تو شادی کا یہ مسئلہ بہت چھوٹا لگے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دوسری شادی کو لے کر اگر کوئی قانون مکمل طور پر نافذ ہوجائے تو وہ کم ازکم ایسا نہ ہو جسے توڑنا بہت آسان ہو۔ جیساکہ اس وقت لگ رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔