مہنگائی سنگل ڈجٹ پر

کئی دہائیوں کا قرض سر پر ہے۔ سود کا ناگوار بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کبھی بھی بڑھ کر کم نہ ہو سکی



حکومتی اعلانات نشر ہو رہے ہیں کہ مہنگائی سنگل ڈجٹ پرآگئی ہے تو عام آدمی کے لبوں پر سوال اٹھتا ہے کہ ہر شے اپنی سابقہ قیمت یا پھر نئی بڑھی ہوئی قیمت پرکیوں ہے؟ ٹماٹر اس وقت بازار میں 400 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ ہر دردمند دیوار کے اندر یہ صدا گونج رہی ہے کہ ہم نے کمائی تو کی ہے لیکن قیمتیں ہمیں پیچھے کھینچ رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ چند اشیا کی قیمتیں کم ہوئی ہوں لیکن بجلی،گیس، آٹا، چینی، گھی، پیاز، ٹماٹر اور کئی اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ دودھ کے دام،گوشت کے دام، سبزیوں کے دام میں مسلسل اتار چڑھاؤ سب کے سب مل کر سنگل ڈجٹ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

ہم ابھی تک نچلی سطح پر رہ رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کا قرض سر پر ہے۔ سود کا ناگوار بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کبھی بھی بڑھ کر کم نہ ہو سکی۔ مہنگائی کی یہ لمبی شام ہے جہاں روشنی کم اور سائے زیادہ ہیں۔ سنگل ڈجٹ کا عدد بظاہر نرم ہے لیکن پھر بھی بہت سی اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے نے غربت کا سکون کھینچ لیا ہے۔ وہ مزدور جو صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے، وہ کسان جو زمین میں امید بوتا ہے، وہ ماں جب بھوکے بچے کو دیکھتی ہے، ان کے درد کو سنگل ڈجٹ بیان نہیں کر سکتا۔ ان کے درد کو عدد نہیں بتا سکتا ہے، لیکن اندھیرے کے لیے روشن صبح جب آئے گی جب ہر گھرانے کو احساس ہو کہ ہم نے سانس لینے کی جگہ بھی محفوظ کی اور اب قیمتوں کا طوفان رک گیا ہے۔

اب ماحولیاتی واقعات سیلاب کہیں، زلزلے کہیں، کلاؤڈ برسٹ، سب مل کر معاشی استحکام کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ افراط زر کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اصلاحات پر زور دیتا ہے، اگر پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ایک طرف قدرتی آفات، دوسری طرف غیر مستحکم سیاسی صورت حال، سیکیورٹی کے بے شمار مسائل اور علاقائی ماحول خطے کے سیاسی حالات نے معاشی راستے کو مشکل بنا دیا ہے۔

پہلے ہی بے روزگاری بڑھ رہی ہے، اس کے بعد بہت سی اشیا ایسی ہیں جن کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ کئی اشیا ایسی ہیں جن کی قیمت بڑھنے کی طرف مائل ہے۔ اوپر سے سرحدی مسائل، داخلی سیاسی حالات، خوراک کی پیداوار میں کمی کے علاوہ کپاس کی فصل میں کمی نے افراط زر پر منفی اثر ڈالا ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ مارکیٹ میں اعتماد کا اشارہ ملا ہے لیکن روزگار میں اضافے کا اشارہ نہیں ملا۔ بے روزگاری بے انتہا ہے، ایسی صورت میں مہنگائی سنگل ڈجٹ میں ہوتی رہے، اس کا منفی اثر بے روزگار غریب شخص محسوس کرتا ہے، اگرچہ سنگل ڈجٹ کی خبر کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں لیکن یہ نہ سمجھیں کہ سب ٹھیک ہوگیا ہے۔

مہنگائی ایسا اشاریہ ہے جو کسی وقت تبدیل ہو سکتا ہے۔ البتہ حکومت کی معاشی پالیسیاں ایسی ہوں جس سے اسی بات کا تعین کیا جا سکتا ہو کہ بند کارخانے کھل جائیں، روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے، تو ایسی صورت میں ڈھارس بندھ سکتی ہے کہ شاید سنگل ڈجٹ کے مثبت اثرات غریبوں پر بھی اپنا اثر دکھائیں۔پاکستان کو اب قرض لینے کے بجائے قرض بدلنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ یعنی قرض کی معیشت سے نکل کر پیداوار، برآمدات اور علم کی معیشت کی طرف اثر۔ دنیا کے بڑے بڑے معاشی ادارے پاکستان کے سیلاب سے نکلنے اور صوبائی حکومت کی کوششوں سے سیلاب زدگان کی امداد کی منظرکشی کرنے کے لیے ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جوکہ یہ کام با احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔

اگر پاکستان نے ہمت دکھائی اور عالمی ادارے پاکستان کو ریجنل اسٹڈی کیس کی طرز پر دیکھ رہے ہیں۔ یعنی پاکستان جنوبی ایشیا میں ریجنل گرین اکنامی ماڈل بن سکتا ہے۔ جہاں بائیو فیول، زرعی اصلاحات، ٹیکنالوجی کی مدد سے پھر پیداوار کو بڑھانے کے علاوہ زرعی پیداوار میں زبردست اضافہ کر سکتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل کی بات ہے جب مہنگائی 10 فی صد سے کم اور پاکستان ایسا ملک ہے جو کہ بار بار گر کر اٹھتا ہے اور ہر بار قرض کے ساتھ ٹیک لگا لیتا ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ اگر پاکستان 1.2 ارب ڈالر صحیح طور پر لگانے میں ناکام رہا تو یہ ایک اقتصادی تاثر رہ جائے گا نہ کہ کوئی حقیقی تبدیلی ہونی ہے۔یہ اعداد و شمار خوشنما ہیں جب فرض کیا ایک ماہر ترین شخص شام کو اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو سنگل ڈجٹ کی بات ہو رہی ہے تو ایسی صورت میں یہ بات یقینی ہے کہ دو ہندسوں کا خوف کم ہو رہا ہے اور نیا ڈجٹ متعارف ہو رہا ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہے یہ حکومتی بیانیہ ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں بیرونی زرمبادلہ کی آمد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ حکومت کے پاس کوئی ایسا پلان موجود نہیں کہ کہا جا سکے اور ان افراد کو اطمینان دلایا جا سکے جوکہ میٹرک کر کے روزگار کی قطار میں کھڑے ہو گئے۔ انٹر کرکے روزگار کے متلاشی ہیں۔ گریجویٹ ہو گئے لیکن ابھی تک برسر روزگار نہیں ہوئے۔

اس طرح لاکھوں افراد پڑھے لکھے ہیں سچ پوچھیں تو ان کی تعداد کروڑوں میں ہے اور ناخواندہ بے روزگار افراد تعداد میں اسکول، کالج کے گریجویٹ سے بھی زیادہ ہے اگر ملکی آبادی کی اکثریت برسر روزگار ہو جائے یعنی کم از کم بے روزگاری کی شرح دو یا تین فی صد رہ جائے تو ایسی صورت میں بھی مہنگائی کے اثرات کم سے کم ہی محسوس ہوں گے۔ کیونکہ جیب میں رقم ہوگی تو ایسی صورت میں مہنگائی کو زیادہ محسوس نہیں کیا جائے گا۔ جب روزگار نہیں، کاروبار نہیں آمدن کے ذرایع نہیں جیب خالی ہے تو مہنگائی زیادہ منفی اثرات کا مظاہرہ کرے گی اور غریب آدمی زیادہ پریشان ہو جائے گا۔ حکومت مہنگائی میں کمی کے دعوے کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی بے روزگاری کی شرح میں کمی بھی لے کر آئے۔

مقبول خبریں