قوم کا ضمیر اور ہمارے دانشور

خرم سہیل  منگل 12 اگست 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

ہم اگر ایک نظر دنیائے عالم کے مشاغل پر ڈالیں،تو کیا دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سوئزر لینڈ ہو یا ترکی، سیاحت کے ذریعے زرمبادلہ کمارہے ہیں۔امریکا ہو یاپھر یورپی ممالک،تھیٹر،ریڈیو،ٹیلی ویژن، فلم کے شعبوں میں کام کر کے اپنے ممالک کے لیے معاشی ترقی کی راہیں کھول رہے ہیں۔

لاطینی امریکی ملک برازیل کے باشندے صرف فٹ بال کے مداح نہیں بلکہ بہترین ادب بھی تخلیق کررہے ہیںجو ساری دنیا میں مقبول ہے اور فروخت بھی ہوتا ہے۔جاپان ٹیکنالوجی اورآٹوموبائلز سے دولت کمانے کے بعد اب پرنٹ میڈیا سے بھی پیسے کمارہاہے۔دنیا میںکثیر الاشاعت اخبار جاپان کاہے۔کئی جاپانی ادیب ایسے ہیں جن کی کتابیں لاکھوں اور کروڑوں کی تعدادمیں شایع ہوتی ہیں،پھر بھی ان کا نیا ایڈیشن چھاپنا پڑتا ہے۔

جنوبی کوریا اور چین کی کئی شعبوں میں مثالی ترقی آپ کے سامنے ہے۔آج پاکستان میں موٹرووے پر دوڑنے والی جدید مسافر گاڑیاں جنوبی کوریا کی ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت کو ہی دیکھ لیںاس نے فلمی صنعت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کے شعبے میں دنیا بھر میں اپنالوہامنوا لیا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے ممالک کے سفارتی عملے کے اراکین ہوں یا پھر جامعات کے دانشور،ان کو ہماری زبان بھی آتی ہے اور وہ ہماری تاریخ اور تہذیب سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ ایک ہم ہی کیوں لاتعلق ہیں ایسے معاملات سے؟

ہماری دلچسپی اگر ہے، تو صرف اورصرف سیاست سے، وہ بھی ایسی سیاست جس میں دھوکے بازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ہمارے سیاستدان ایک بات کہتے ہیںاور پھر اس کی تردید پیش کردیتے ہیں۔ایک جماعت دوسری کی جان کی دشمن ہوتی ہے،پھر اچانک سے دونوں میں بھائی چارے کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔دہشتگردی المیے حادثے، فرقہ واریت، قتل عام یہ کبھی بند ہوگا کیا؟

قومی منافقت کے ایسے شاندار مظاہرے ختم ہونے کا کوئی نام ہی نہیں۔ ملک باتیں کرنے سے نہیں چلتے مگر ہمارے ہاں باتیں کرنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے اورہم عوام بھی کسی سے پیچھے نہیں،عوامی مظاہروں کا بھی ایک پورا سلسلہ ہے، جس کو یہاں رقم کرنے کے لیے مطلوبہ گنجائش درکار نہیں ہے۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے ؟

ہمارے ہاں سب کچھ برا نہیں ،لیکن منفی سوچ مثبت طرز فکر پر غالب ہے۔پاکستان میں ہی بیحد پڑھے لکھے لوگ موجود ہیںجن سے بات کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری منفی روش کے پیچھے کیا محرکات ہیںمگر مصیبت یہ ہے، جیسے بارش ہونے کے بعد برساتی مینڈک ٹرٹر کرنے لگتے ہیں،اسی طرح ہمارے گردوپیش ایسے برساتی دانشوروں کا غلبہ ہے جن کی وجہ سے کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔

حقیقی معنوں میں پڑھے لکھے لوگ خاموشی سے اپنا کام کیے جا رہے ہیں اگر کوئی طالبعلم ان سے کچھ پوچھ لے توبہت وضاحت سے بات سمجھا دیتے ہیں مثال کے طورپر ماہرتعلیم ڈاکٹر مہدی حسن سے ایک سوال پوچھا گیا ’’تعلیم ہمارے لوگوں کا کیوں کچھ بگاڑ نہیں سکی،مجموعی حیثیت میں ہم آج بھی جہالت کے پروردہ ہیں؟‘‘

اس سوال کا مختصر اور جامع جواب انھوں نے یہ دیا کہ ’’اس کی بنیادی وجہ ہمارا خراب اور تقسیم شدہ تعلیمی نظام ہے۔‘‘ اسی طرح کئی اوردیگر دانشوروں سے بات ہوئی، توثابت یہ ہوا، ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ نصابی تعلیم میں موجود خامیاں اور ان کوٹھیک نہ کرناہے۔قول وفعل میں تضاد بھی ایک اخلاقی بحران کی علامت ہے۔

ہمارے ہاں ایک اوربڑا مسئلہ یہ بھی ہے ،اگر ہم اپنا نقطہ نظر پیش کریں اوراس میں تنقیدی پہلو بھی موجود ہو، تو سب سے پہلے آپ کے گریبان پر ہاتھ ڈالاجائیگا۔ہم میں سے کوئی اپنی اصلاح نہیں چاہتا،سب اپنے نظریات میں جامد ہوچکے ہیں، اس کے باوجود جہالت کے اندھیرے میں انفرادی طورپر کئی اشخاص اپنے حصے کاکام ایمانداری سے کررہے ہیںجن کے کام سے ابھی نہ سہی مگر مستقبل میں ضرور ملک وقوم کو فائدہ ہوگا۔

زندگی کی جمالیات کو ڈھونڈتے ہوئے ایسے کچھ لوگوں کو دریافت کیا جانا چاہیے جن سے آپ بھی واقف ہونگے لیکن آپ ان کے کام کوضروردیکھیں کیونکہ جس کام سے ہمارے معاشرے کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ ان کی فکری اساس کیا ہے، ہمیں اس پر بات کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔

محبت کا لفظ کسی بھی زبان میں لکھا جائے، اس کی معنویت وہی رہے گی۔ہمارے ہاں تعلیمی نصاب کے اپنے پیمانے ہونگے مگر کچھ لوگوں نے اس شعبے میں ایسا کام کیا ہے جس کو زندگی کا نصاب کہا جا سکتا ہے۔ اس سے واقفیت اورعمل درآمد ہماری زندگی کی جمالیات کو واپس لا سکتا ہے۔ ہم بھی ایک عام انسان کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوشیوں کو کشید سکتے ہیں ، شعور کا پہلا درجہ یہی ہے۔

لاہور میں کتابوں کی اشاعت کا ایک نیا مگر معیاری نام ’’ریڈنگز‘‘ ہے جس کے ذیلی ادارے ’’القا‘‘ سے اردو زبان میں لکھی گئی کلاسیکی اورجدید کتابیں شایع کی جاتی ہیں۔ عامر ریاض اس ادارے کے سربراہ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ صرف اپنے ادارے کی تجارتی سرگرمیوں تک محدود رہتے لیکن جس طرح یہ تعلیمی میدان میں سرگرم ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ انھوںنے تعلیمی میدان میں خود کوتحقیق کے لیے وقف کیا اور پاکستانی معاشرے میں تعلیم کے بنیادی مسائل پر روشنی ڈالی۔

ان کے دو اہم تحقیقی مقالے ’’ہم اپنے بچوں کوکیا پڑھا رہے ہیں؟‘‘ اور’’ہماری بچیاں،ہمارا مستقبل‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں قوم پرستی ،صوبائی خودمختاری اورعدم مرکزیت کے موضوعات پر ایک اوراہم تحقیق کی ہے،جو عنقریب کتابی شکل میں شایع ہوجائے گی۔پنجاب کی تاریخ میں انگریزکا دور،پاکستانی سیاست میں پنجاب مخالف رویے جیسے موضوعات پر بھی ان کے کئی تحقیقی مقالے چھپ چکے ہیں۔عامر ریاض جیسے حساس سوچ رکھنے والے انسان معاشرے کے دکھ کو بیان کرتے ہیں اور درد کی دوا بھی کرتے ہیں۔ہمیں مثبت انداز میں سوچنے والے ایسے نوجوان لکھنے والوں کی ضرورت ہے۔

کراچی میں پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ رہنے والے شاہنواز فاروقی بھی معاشرتی علوم پر لکھنے والوں میں ایک اہم نام ہیں ۔اس کے علاوہ وہ کئی کتابوں کے مصنف اوربہت عمدہ شاعر بھی ہیں۔آمریت کے آخری دور میں ان کو اپنی پی ٹی وی کی ملازمت کی قربانی دینا پڑی ، مگر انھوںنے لکھنے پر سمجھوتہ نہیں کیا اوراپنی تحریروں کے ذریعے معاشرتی سدھار میں برابر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ایک مہذب اورفلاحی سوچ رکھنے والے ایماندار انسان کو اپنے پیشے سے ایساہی مخلص ہونا چاہیے ۔

شاہنواز فاروقی کئی برسوں سے کالم نویسی کر رہے ہیں۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ’’کاغذ کے سپاہی‘‘کے نام سے شایع ہوا،اب تک اس کے دوایڈیشن چھپ کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔انھوںنے بچوں کے لیے بھی بہت ساری کہانیاں لکھیں جس کا مجموعہ ان کے ایک دوست مرتب کررہے ہیں انھوں نے معروف مغربی دانشور سیموئل ہنٹنگٹن کی کتاب ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘کا جواب لکھا،جو اسی نام سے کتابی صورت میں شایع ہوا۔

ان کی ایک اورکتاب’’اسلام اور مغرب‘‘ بھی شایع ہوئی اورشاعری کا مجموعہ’’کتاب دل‘‘کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ان کے کالموں میں ملکی مسائل کی نشاندہی بھی ملتی ہے۔بین الاقوامی معاملات پر بھی ان کی گہری نظر ہے ۔ یہ وسعت نظری معاشروں کو درست ڈگر پہ ڈال سکتی ہے اور اس حوالے سے ایسے لوگ قوم کا ضمیر ہوا کرتے ہیں، جن کی وجہ سے مثبت تصورات فروغ پاتے ہیں۔پاکستان میں ایسی کئی اور بھی شخصیات ہیں،جنہوں نے خود کو تصنیف وتالیف کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔یہ تحریریں معاشرے کے شعور کی آبیاری کا کام دیتی ہیں۔

ایسے دانشور معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں ہمیں اچھے کاموں کا اعتراف کرنے کی روایت قائم کرنی چاہیے، بدقسمتی سے ہماری صحافتی اورادبی اشرافیہ اس روایت کی پاسداری نہیں کرتی،شاید اس لیے کہ ہم اپنے اپنے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں ،مگر سچائی کسی خانے کی محتاج نہیں ہوتی۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہم ذہنی طور پر بھی ترقی کریں تو ہمیں ذہن کے بند دریچے کھولنا ہونگے۔خاموشی کا ہرقفل توڑنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔