پاکستان کی تاریخ میں 1971 کی پاک بھارت جنگ کی المناک کہانی سیاہ حروف سے درج ہے۔
1971 میں بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں بے گناہ پاکستانیوں کا وحشیانہ قتل عام کیا۔ مکتی باہنی کے خونی مظالم اور نہتے پاکستانیوں کے قتل کا الزام بھارت نے مکارانہ طریقے سے پاک فوج پر دھر دیا۔
سفاک بھارت نے دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگائے۔1971 کے غازی میجر جنرل ریٹائرڈ محمد یاسین نے بھارتی و مکتی باہنی کی درندگی کی کہانی بیان کی۔
(ر) میجر جنرل محمد یاسین کا آپ بیتی سناتے ہوئے کہنا تھا کہ مارچ 1971 میں بہاریوں، پاکستان کے حامی بنگالیوں اور پاکستانیوں کا قتل عام اتنا بڑھ گیا کہ 26 مارچ کو آپریشن ناگزیر ہوگیا۔
آپریشن میں پلاٹون کمانڈر کی حیثیت سے میں نے مکتی باہنی کے خونی حملوں کے خلاف محاذ سنبھالا۔ چٹاگانگ پہنچے تو باغیوں نے شہر یرغمال بنا رکھا تھا اور بھارتی سفاکیت کا وحشت ناک منظر تھا۔
میجر جنرل (ر) محمد یاسین نے بتایا کہ متحدہ پاکستان کا آخری سہارا چٹاگانگ کنٹونمنٹ اور نیول بیس تھی جہاں ہم نے اپنا دفاع مضبوط کیا۔ ڈھاکہ میں بھارتی فوج اور مکتی باہنی دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج نے دفاعی آپریشن کیے۔ بھارتی فوج نے متحدہ پاکستان توڑنے کیلئے مکتی باہنی کو اسلحہ، تربیت اور مکمل سرپرستی فراہم کی۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے کبھی انسانی حقوق پامال نہیں کیے، بھارتی پروپیگنڈا ہمارے کردار کو داغدار کرنے کیلئے گھڑا گیا۔ 150 سے زائد خواتین اور مردوں کو بھارتی ایما پر مکتی باہنی اور باغیوں نے سفاکیت سے قتل کردیا۔
ڈاکٹر عبدالمومن چوہدری نے اپنی کتاب میں 30 لاکھ قتل اور 6 لاکھ عورتوں کی عصمت دری کے بھارتی پروپیگنڈا کی سختی سے تردید کی۔ صحافی قطب الدین عزیز کی کتاب بلڈ اینڈ ٹیئرز نے مکتی باہنی کے 170 خونی واقعات دنیا کے سامنے رکھے۔
میجر جنرل (ر) محمد یاسین نے کہا کہ بنگالی اور بھارتی صحافی شرمیلا بوس نے بھی لکھا کہ عصمت دری اور مظالم میں پاکستانیوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، 1971 کی جنگ بھارت کی سرپرستی میں مکتی باہنی دہشت گردی اور خونریزی کی ہولناک داستانوں کا مجموعہ ہے۔