اگر روزانہ کی عادت میں صرف ایک سادہ سی تبدیلی شامل کرلی جائے، یعنی ایک کپ گرین ٹی، تو ایک مہینے کے بعد جسم میں کئی مثبت تبدیلیاں واضح محسوس ہوسکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گرین ٹی کا اثر فوری نہیں ہوتا، مگر اس کی افادیت دیر تک قائم رہتی ہے اور اندرونی طور پر جسم کے کئی نظام بہتر ہونے لگتے ہیں۔
پہلی نمایاں تبدیلی میٹابولزم میں نظر آتی ہے۔ صحت سے متعلق رپورٹس کے مطابق گرین ٹی چربی کو تیزی سے جلانے میں مدد دیتی ہے۔ باقاعدہ استعمال سے توانائی کی سطح بڑھنے لگتی ہے، کھانا بہتر ہضم ہوتا ہے، پیٹ کی سوجن اور بوجھل پن میں کمی آتی ہے اور وزن کم کرنے والے افراد کو رفتارہ میں بہتری محسوس ہوتی ہے۔
ایک اور اہم فائدہ جلد سے متعلق ہے۔ گرین ٹی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس جلد کی سوزش کم کرتے ہیں، دانے اور سرخی گھٹتی ہے اور رنگ صاف محسوس ہوتا ہے۔ ایک مہینے بعد بہت سے لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ چہرہ پہلے سے زیادہ تازہ اور شفاف دکھائی دیتا ہے۔
گرین ٹی کا ایک نرم مگر مستقل اثر ذہنی کارکردگی پر بھی پڑتا ہے۔ اس میں موجود ایل تھیانین دماغ کو پرسکون رکھتا ہے اور ہلکی کیفین توجہ بڑھاتی ہے۔ باقاعدہ استعمال سے موڈ بہتر رہتا ہے، ذہنی تھکاوٹ کم ہوتی ہے اور پڑھائی یا دفتر کے کام پر زیادہ یکسوئی کے ساتھ توجہ دینے میں مدد ملتی ہے۔
آنتوں اور ہاضمے کی صحت پر بھی اس کا فائدہ نمایاں ہوتا ہے۔ گرین ٹی قدرتی پری بائیوٹک کا کام کرتی ہے، یعنی ایسے بیکٹیریا بڑھاتی ہے جو آنتوں کو صحت مند رکھتے ہیں۔ ایک ماہ بعد گیس اور پیٹ پھولنے جیسی شکایات میں کمی آتی ہے، کھانے کے بعد بوجھل پن کم محسوس ہوتا ہے اور مدافعتی نظام مضبوط ہونے لگتا ہے۔
دل کی صحت کے حوالے سے بھی مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس مشروب کے اجزا خون کی نالیوں کو محفوظ رکھتے ہیں، کولیسٹرول کے نقصان دہ حصے (LDL) میں کمی متوقع ہوتی ہے، بلڈ پریشر متوازن رہتا ہے اور خون کی گردش بہتر ہوتی ہے۔ طویل مدت میں دل کی بیماریوں کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔
تحقیقات کے مطابق گرین ٹی کے روزانہ استعمال سے تناؤ میں بھی کمی آتی ہے۔ یہ تناؤ بڑھانے والے ہارمون کو کم کرتی ہے، نیند کا معیار بہتر کرتی ہے اور بے چینی یا چڑچڑاہٹ کی کیفیت میں واضح کمی لا سکتی ہے۔ مسلسل استعمال جذباتی توازن اور ذہنی سکون میں اضافہ کرتا ہے۔
یوں بظاہر ایک سادہ سی عادت، یعنی روزانہ ایک کپ گرین ٹی جسم، ذہن اور جذبات پر بیک وقت مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہے، شرط صرف یہ ہے کہ اسے مستقل اور باقاعدگی سے ایک مہینے تک آزمایا جائے۔