کراچی میں اسٹریٹ پرفارمرز کی آڑ میں چھوٹے بچوں کا استحصال 

حکومت و مقامی انتظامیہ کو ان بچوں کو استعمال کرنے والے لوگوں اور گروہوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے


رزاق ابڑو December 15, 2025

کراچی کے مختلف چوراہوں اور سگنلز پر نظر آنے والے 'اسٹریٹ پرفارمرز' میں چھوٹے بچے بھی شامل ہوگئے ہیں جن کی عمریں 8 سے 15 سال تک ہوتی ہیں۔

عام طور پر ان بچوں نے چہرے اور کپڑوں پر گولڈن رنگ کا پینٹ کیا ہوا ہوتا ہے جس پر روشنی لگنے سے وہ چمکنے لگتے ہیں اور وہاں سے گزرنے والے لوگوں کی توجہ حاصل کرتے ہیں، اس طرح وہ بچے  پیسے کمانے کا ذریعہ بنادیے گئے ہیں ۔یہ بچے اس حلیے میں چوراہوں اور سگنلز پر گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔

اس طرح نہ صرف ان بچوں کا جسمانی اور معاشی استحصال ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ان کی جلد کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

ان کے متعلق عام رائے ہے کہ اکثر بچے ان ہی پیشہ ور بھکاریوں اور گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جو عرصہ دراز بچوں کو کراچی کے چوراہوں پر بھیک مانگنے کے لیے استعمال کرتے آ رہے ہیں، جبکہ ان میں کچھ ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کے والدین غریب ہیں جنہوں نے غربت کے باعث اپنے بچوں کو روزگار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی نظر میں یہ بھی بچوں کی جبری مشقت کے ذمرے میں آتا ہے، اس طرح ان بچوں کا استحصال کیا جاتا ہے، حکومت و مقامی انتظامیہ کو ان بچوں کو استعمال کرنے والے لوگوں اور گروہوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

مقامی انتظامیہ کبھی کبھار ان بچوں کو اپنے علاقوں  سے ہٹادیتی ہے، خاص طور ضلع جنوبی کے کلفٹن اور ڈفینس کے چوراہوں پر کھڑے ہونے والے اس طرح کے بچوں کو وہاں سے ہٹادیا جاتا ہے، تاہم شہر کے دیگر علاقوں میں اس طرح کے لباس اور حلیے میں بچے اب بھی چوراہوں پر نظر آتے ہیں۔

ایسے ہی حلیے میں دو معصوم بچے مزار قائد کے قریب واقع نمائش چورنگی پر نظر آئے، ان کی عمریں 10 سے 12 سال تھی۔ ان کے لباس اور چہرے پر سنہری رنگ کا پینٹ کیا ہوا تھا اور کسی مجسمے کی طرح کھڑے ہوئے تھے۔

ان میں ایک لڑکی تھی۔ ان بچوں نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ وہ روزانہ شام کو سور ج غروب ہونے کے بعد تیار ہوکر یہاں آتے ہیں اور رات تک کھڑے رہتے ہیں۔

یہاں انہیں ان کے والد چھوڑ کر جاتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ جسم پر سنہری رنگ لگانے سے کیا انہیں جلن محسوس ہوتی ہے تو لڑکی نے جواب دیا کہ شروع کے دنوں میں ہوتی تھی اب نہیں ہوتی۔

ان سے پوچھا گیا کہ گھنٹوں کھڑے رہنے سے انہیں تھکن یا درد ہوتا ہے تو دونوں بچوں نے سر ہلا کر بتایا کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے وہ یہاں پھول بیچتے تھے۔ دونوں بچوں کو اس حلیے اور لباس میں دیکھ کر وہاں سے گزرنے والے لوگ پیسےدیتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ انہیں روزانہ کتنی آمدنی ہوتی ہے کیونکہ وہ پوری رقم اپنے والد کے حوالے کردیتے ہیں۔

ابھی ان بچوں سے گفتگو جاری تھی کہ ان کے والد پہنچ گئے اور بچوں سے زیادہ سوال و جواب کرنے پر ناگواری کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس نمائندے کو کہا کہ سوال و جواب کافی ہوگئے اب بچوں کو اکیلا چھوڑدیں اور یہاں سے چلے جائیں۔ 

سماجی مسائل پر تحقیق کرنے والے محقق جی ایم بلوچ کے مطابق اس طرح کے بچے شہر کے مختلف چوراہوں اور سگنلز پر نظر آتے ہیں، انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان بچوں کی تربیت بڑی محنت سے کی ہوئی ہوتی ہے، انہیں ایک مخصوص قسم کی تربیت دی گئی ہوتی ہے۔

حکام کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ان بچوں کو زبردستی اس کام کے لیے تربیت دی گئی ہے یا یہ خود اپنی مرضی سے یہ کام کرتے ہیں، اس سے پہلے اس طرح کے حلیہ میں بڑی عمر کے لوگ دیکھے جاتے تھے جو ظاہر ہے آرٹسٹ لوگ ہوتے ہیں،اس طرح کے آرٹسٹ دنیا کے بڑے شہروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،

کچھ لوگ کوئی ساز بجاتے ہیں تو کچھ مخصوص حلیہ بنا کر کھڑے ہوتے ہیں اور وہاں سے گذرنے والے لوگ انہیں پیسے دیتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں اس کام کے لیے بچوں کا استعمال تشویشناک ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم سوسائٹی فار پروٹیکشن آف چلڈرن کے رہنما کاشف مرزا کے مطابق اسٹریٹ پرفارمز کے طور پر چھوٹے بچوں کا استعمال ان کے جسمانی اور ممعاشی استحصال کے ذمرے میں آتا ہے اور یہ عمل اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال)UNCRC کی خلاف ورزی ہے۔

ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ عمل سندھ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے تحت صوبائی حکام کہ ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے خطرات سے دوچار بچوں کو ان حالات سے نکالے اور ان کی بحالی کے لیے اقدامات کرے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکام کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے استحصال میں لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ پروہیبیشن آف ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 2017 بھی واضح طور پر بچوں کو خطرناک ماحول میں کام کرنے سے روکتا ہے اور بچوں کو بھیک مانگنے یا ایسی کسی سرگرمی میں استعمال کرنے کو جرم قرار دیتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسی طرح وفاقی حکومت کی سطح پر بھی بچوں کے حقوق کے حوالے سے مختلف قانون ہیں جو بچوں کے قانونی تحفظ فراہم  کرتے ہیں۔

گھنٹوں تک اپنے جسم پر پینٹ لگا کر کھڑے ہونے سے ان بچوں کو اسکن کی بییماریوں کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ معروف اسکن اسپیلسٹ ڈاکٹر شمائل ضیا نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ پینٹ میں آرسینک اور مرکیوری جیسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو اسکن کے لیے اانتہائی نقصان کار ہوتے ہیں، اگر زیادہ دیر جسم پر پینٹ لگا رہے تو اس سے رنگت میں تبدیلی، سیاہ دھبے اور سوزش ہونے کے خطرات ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سردیوں کے موسم میں یہ خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔

مقبول خبریں