اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ رپورٹ میں افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے طالبان کے دعوؤں کو ناقابلِ اعتبار قرار دے دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد تنظیم موجود نہیں، تاہم مختلف ممالک کی جانب سے مسلسل رپورٹس آ رہی ہیں کہ داعش، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، جماعت انصاراللہ اور دیگر شدت پسند گروہ افغان سرزمین پر بدستور سرگرم ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغانستان سے پاکستان کے خلاف متعدد حملے کیے ہیں، جس سے علاقائی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ سلامتی کونسل کے مطابق افغان طالبان کی قیادت، بشمول امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ، کے احکامات ملک بھر میں مؤثر طور پر نافذ نہیں ہو رہے اور کئی علاقوں میں دہشت گرد گروہ آزادانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ طالبان حکومت میں قانون کی عملداری کمزور ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور خواتین و اقلیتیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان غیر پشتون آبادی کے ساتھ زیادہ سخت رویہ اختیار کر رہے ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی گزرگاہوں کی بندش کے باعث افغان معیشت کو روزانہ تقریباً 10 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر افغانستان میں بنیادی سیاسی، سکیورٹی اور انسانی مسائل حل نہ کیے گئے تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق طالبان عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کے خواہاں ہیں، تاہم دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرنے کے باعث عالمی تحفظات کم نہیں ہو پا رہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ افغانستان اس وقت انتہا پسند گروہوں کے لیے ایک خطرناک پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے، جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی سنجیدہ خطرہ ہے۔