امریکا کی ریاست ڈیلاویئر کی سپریم کورٹ نے ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک کے 2018 کے تنخواہی پیکج کو بحال کر دیا ہے، جس کی مالیت اب تقریباً 139 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس فیصلے سے قبل ایک نچلی عدالت نے اس پیکج کو “ناقابلِ تصور” قرار دے کر منسوخ کر دیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تنخواہی پیکج کی مکمل منسوخی ایلون مسک کے لیے ناانصافی تھی، کیونکہ وہ گزشتہ چھ سال کے دوران ٹیسلا کے لیے نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ عدالت کے مطابق اس فیصلے سے مسک کو ان کی محنت کا معاوضہ نہیں مل رہا تھا۔
یہ تنخواہی پیکج ٹیسلا کے شیئرز پر مبنی ہے، جس کے تحت ایلون مسک کمپنی کے اہداف پورے ہونے پر بڑے پیمانے پر اسٹاک آپشنز حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر مسک تمام آپشنز استعمال کرتے ہیں تو ٹیسلا میں ان کی حصص داری 12 فیصد سے بڑھ کر 18 فیصد سے زائد ہو سکتی ہے۔
فیصلے کے بعد ایلون مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو “سرخرو” محسوس کر رہے ہیں۔ تاہم اس پیکج کو چیلنج کرنے والے وکلا نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ قانونی راستے اختیار کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے ٹیسلا میں ایلون مسک کا کنٹرول مزید مضبوط ہو جائے گا، جو ان کے لیے مالی فائدے سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔