پشاور میں صفائی کا سنگین بحران، 84 فیصد آلودہ پانی فراہم کرنے کا انکشاف

شاور میں تقریباً چار لاکھ افراد اب بھی بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں، یونیسف سروے


وصال یوسفزئی December 23, 2025
فوٹو فائل

پشاور: خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور پانی اور صفائی کے سنگین بحران سے دوچار ہے، جہاں پانی کی فراہمی کا 84 فیصد حصہ آلودہ پایا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ تشویشناک صورتحال شہر میں پولیو سمیت دیگر آبی امراض کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔

یونیسف کے حالیہ سروے کے مطابق پشاور میں تقریباً چار لاکھ افراد اب بھی بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔

ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ غیر محفوظ پینے کا پانی اور ناکافی صفائی کے انتظامات اسہال، پولیو اور دیگر قابلِ تدارک بیماریوں میں اضافے کا براہِ راست سبب بن رہے ہیں۔

شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ پشاور کی آبادی 24 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور سالانہ شرحِ نمو 2.86 فیصد ہے، جس کے باعث پہلے سے کمزور پانی اور صفائی کے نظام پر شدید دباؤ پڑ رہا ہے۔

یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق پشاور کے تقریباً 80 فیصد پانی کے ذرائع آلودہ ہیں، جبکہ صرف 20 فیصد پانی پینے کے لیے محفوظ ہے۔

اسی دوران زیرِ زمین پانی کی سطح میں بھی خطرناک حد تک کمی آ رہی ہے۔ کے پی موضع مردم شماری 2020 کے مطابق اوسطاً زیرِ زمین پانی کی سطح 188 فٹ تک نیچے جا چکی ہے، جو طویل المدتی پائیداری کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔

اگرچہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ 79.6 فیصد علاقوں میں پانی کی دستیابی مناسب ہے اور 83.4 فیصد گھروں میں پانی موجود ہے، تاہم اصل مسئلہ پانی کے معیار کا ہے۔

ای کولی بیکٹیریا کی آلودگی وسیع پیمانے پر پائی گئی ہے، جو 13.6 فیصد پانی کے ذرائع کو متاثر کر رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح 12.9 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں خطرناک حد تک بڑھ کر 17.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ صرف 13.6 فیصد نمونے ای کولی سے پاک پائے گئے۔

رپورٹ کے مطابق کیمیائی آلودگی نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پانی کے نمونوں میں 13.8 فیصد نائٹریٹ، 1.2 فیصد فلورائیڈ، 3.3 فیصد آئرن اور 14.6 فیصد سختی (کیلشیم کاربونیٹ) پائی گئی، جو طویل عرصے تک استعمال کی صورت میں صحت کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

صفائی کی صورتحال بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ سروے کے مطابق پشاور کی 9.5 فیصد آبادی، یعنی تقریباً چار لاکھ افراد، اب بھی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کھلے میں رفعِ حاجت اور ناقص صفائی کی عادات پولیو اور دیگر آبی بیماریوں کے پھیلاؤ میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔

 

شہریوں کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں صورتحال میں واضح بگاڑ آیا ہے۔ گل بہار کے رہائشی سلیمان خان نے کہا کہ ’’پشاور کا پانی کبھی اتنا میٹھا تھا کہ شعرا اس پر اشعار کہتے تھے۔‘‘

ان کے مطابق قبائلی اضلاع سے نقل مکانی اور افغان مہاجرین کی طویل المدتی آبادکاری نے شہر کے محدود وسائل پر بے پناہ دباؤ ڈال دیا ہے۔

سلیمان خان نے مسلسل آنے والی حکومتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہر حکومت صاف پانی کے وعدے کرتی ہے، مگر کوئی وعدہ پورا نہیں ہوتا۔‘‘

 

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پشاور ضلع میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 2 لاکھ 21 ہزار 308 ہے، جو خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ ہے، اور اس سے شہری سہولیات پر مزید دباؤ پڑ رہا ہے۔

2023 کی مردم شماری کے مطابق پشاور میں 6 لاکھ 90 ہزار 976 گھرانے ہیں، جن میں سے 6 لاکھ 70 ہزار 248 کو بہتر پینے کے پانی تک رسائی حاصل ہے۔ ان میں 2 لاکھ 94 ہزار 991 گھر نلکے کا پانی استعمال کرتے ہیں جبکہ دیگر کنوؤں (45,682)، بوتل بند پانی (683) یا فلٹریشن پلانٹس (683) پر انحصار کرتے ہیں، تاہم بوتل بند پانی کے معیار پر بھی سنگین خدشات موجود ہیں۔

اکتوبر 2025 میں خیبرپختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی نے انکشاف کیا تھا کہ صوبے میں فروخت ہونے والا 40 فیصد بوتل بند پانی غیر محفوظ ہے۔

 

لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق 143 کمپنیوں کی یومیہ پیداوار 4 لاکھ 19 ہزار 96 لیٹر میں سے ایک لاکھ 17 ہزار 543 لیٹر پانی معیار پر پورا نہیں اترتا۔

ماحولیاتی ماہر حسیب خان نے پشاور کو ’’انتہائی بوجھ تلے دبا ہوا شہر” قرار دیتے ہوئے کہا کہ تنازعات سے متاثرہ اضلاع سے آبادی کی آمد نے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان کے مطابق اصل مسئلہ ناقص طرزِ حکمرانی ہے۔قانون ساز عوامی فلاح کے بجائے سیاست اور احتجاج پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ شہر میں آج تک مکمل سیوریج نظام موجود نہیں۔ ماسٹر پلان کے وقت صرف حیات آباد اور ورسک روڈ کو سیوریج نیٹ ورک کے لیے مختص کیا گیا تھا، اس کے بعد کوئی مؤثر توسیع نہیں ہوئی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ناقص نکاسیٔ آب بارشوں کے دوران سیلاب اور بڑے پیمانے پر نقصانات کا سبب بنتی ہے۔ حسیب خان نے کے پی واٹر ایکٹ 2020، کے پی ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2015، کے پی سینیٹیشن پالیسی 2015 اور کے پی کلائمٹ چینج پالیسی 2022 پر عملدرآمد نہ ہونے پر بھی تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’صاف پینے کا پانی اور صفائی کی سہولیات بنیادی حقوق ہیں، مگر یہ پالیسیاں صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔‘‘

دوسری جانب واٹر اینڈ سینیٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی) کے ترجمان جاوید علی نے کہا کہ پانی کے معیار کی ماہانہ نگرانی کی جاتی ہے۔

ان کے مطابق ڈبلیو ایس ایس پی 42 یونین کونسلز میں 545 ٹیوب ویلز چلا رہی ہے۔ “400 کلومیٹر سے زائد زنگ آلود پانی کی پائپ لائنیں تبدیل کی جا چکی ہیں اور باقی کام جاری ہے، جس سے پانی کے معیار میں نمایاں بہتری آئے گی۔‘‘

ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ انفراسٹرکچر کی بہتری کے ساتھ ساتھ صحتِ عامہ کے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔ پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں پشاور کی تیز اور غیر منصوبہ بند توسیع نے پانی اور صفائی کے مسائل کو شدید کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’آلودہ پانی براہِ راست اسہال، ہیپاٹائٹس اور دیگر انفیکشنز کا سبب بنتا ہے اور پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘

انہوں نے صاف پانی، بہتر صفائی، محفوظ ویسٹ مینجمنٹ، عوامی آگاہی، ویکسی نیشن اور سخت فوڈ سیفٹی قوانین پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا۔

صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ اقدامات جاری ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان شفیع جان نے کہا کہ صحت اور تعلیم موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’وزیراعلیٰ نے تمام محکموں کو ہدایت دی ہے کہ بنیادی سہولیات، خصوصاً صاف پینے کے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔‘‘

ان کے مطابق پشاور اپ لفٹ منصوبے کے تحت زنگ آلود پائپ لائنوں اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے اور جلد واضح نتائج سامنے آئیں گے۔

مقبول خبریں