ایک سینئر اینکر کے بقول ایک اعلیٰ سطح غیر سیاسی اجلاس میں صوبوں میں فضول، غیر ضروری اور نمائشی کروڑوں روپے کے اخراجات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اطلاع کے مطابق کہا گیا ہے کہ ایک صوبے کی وزیر اعلیٰ کے سرکاری پروگراموں پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔
اگر یہ خبر درست ہے تو اجلاس میں ہونے والی تشویش موجودہ حالات کی فوری ضرورت اور قابل تقلید ہے جس پر عمل درآمد کرکے سرکاری سیاسی اجلاسوں میں روزانہ ہونے والے لاکھوں روپوں کے غیر ضروری نمائشی اخراجات کو روکا جا سکتا ہے جو ماہانہ کروڑوں روپے تک پہنچ جاتے ہیں اور چند گھنٹوں کے ان سرکاری سیاسی اجلاسوں پر عوام کی خون پسینے کی کمائی سے حاصل سرکاری فنڈز ضایع کیے جا رہے ہیں جو ختم کرکے کروڑوں روپے بچائے جا سکتے ہیں اور مجموعی طور پر سادگی اختیار کرکے اربوں روپے بچا کر عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دیا جا سکتا ہے جس کے لیے عوام سالوں سے منتظر ہیں۔
مختلف سرکاری اجلاسوں اور تقاریب کی تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جس میز کے اطراف وفد کے ارکان اور سرکاری افسران بیٹھے نظر آتے ہیں وہاں بڑی میزوں پر پھولوں کے گلدستوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔ حکمرانوں کی تقریبات میں کروڑوں روپے کے پھولوں سے ان کی میزوں کی سجاوٹ صرف ایک مثال ہے کہ جہاں تھوڑی دیر کی تقریبات پر سرکاری وسائل ضایع ہو رہے ہیں، ایسی تقریبات پھولوں سے سجاوٹ کے بغیر بھی منعقد کی جا سکتی ہیں مگر سیاسی حکمرانوں کی عارضی تقریبات میں ایسا کرنا سرکاری تقاضا بن گیا ہے۔
صدر مملکت نے حال ہی میں وفاقی ٹیکس محتسب سے حلف لیا اور گورنر ہاؤس کراچی میں گورنر نے نئے چیف جسٹس سندھ سے حلف لیا اور حلف برداری کی دونوں تقریبات کی میزوں پر پھولوں کے گلدستے نمایاں تھے۔ وزیر اعظم کی بھی کوئی تقریب ہو یا سرکاری اجلاس وہاں بھی میزیں پھولوں کے گلدستوں سے سجی ہوتی ہیں جہاں وہ میز پر صرف اجلاس منعقد کرنے بیٹھتے ہیں پھر وہی پھولوں کے گلدستے ضایع کر دیے جاتے ہیں۔ سیاسی حکمرانوں کی ان تقریبات کی میزوں کو پھولوں سے سجانے کے بھی ٹیکس دیے جاتے اور ملک بھر میں ہر ماہ کا بل کروڑوں روپے ادا ہوتا ہے۔
جی ایچ کیو میں کور کمانڈرز کانفرنسوں میں پھولوں کی یہ سجاوٹ نظر نہیں آتی نہ اعلیٰ عدلیہ کی عدالتوں میں ججز کی میزوں یا زیادہ ججز کے سامنے میزوں پر یہ گلدستے نظر آتے ہیں۔اسمبلی کے اسپیکروں اور بڑے سرکاری افسروں کی زیر صدارت اجلاسوں کی میزیں بھی پھولوں کے گلدستوں سے سجے بغیر ہی نظر آتی ہیں مگر صوبائی وزیروں سے صدر مملکت تک سیاسی حکمرانوں کے لیے ہی یہ عارضی سجاوٹ معمول بن چکی ہے جب کہ یہی سیاسی حکمران اقتدار سے ہٹنے کے بعد اپنے جو سیاسی اجلاس منعقد یا سیاسی جلسے کرتے ہیں وہاں تو ان کی میزیں پھولوں سے سجی نظر نہیں آتیں۔ سیاسی رہنماؤں کے خیر مقدم کے لیے انھیں ہار، اجرک یا چادریں، ٹوپیاں اور پگڑیاں پہنائے جانے کا جواز ہوتا ہے۔ سیاسی حکمرانوں کو سرکاری طور پر پھولوں کی خوشبوئیں سونگھانے یا انھیں خوش کرنے کے لیے پھولوں کا استعمال ضروری سمجھ لیا گیا ہے ورنہ فوجی، عدالتی اور اعلیٰ بیورو کریسی کے اجلاسوں میں پھولوں کی سجاوٹ پر سرکاری وسائل کم ہی خرچ ہوتے ہیں۔
سیاسی لوگوں کا اقتدار میں آنے کے بعد پروٹوکول برسوں سے تنقید کی زد میں رہا ہے جو گھٹنے کے بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے جس پر کروڑوں روپے روزانہ خرچ ہو رہے ہیں اور جواز دہشت گردی کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران بھی بھرپور پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں جن کی رہائش گاہیں بھی ایکڑوں اور کنالوں میں ہیں اور ان کی حفاظت بھی سرکاری عملہ کرتا ہے۔ ارکان اسمبلی بھی اب سرکاری پروٹوکول میں سفر کرتے ہیں۔ کئی اہم لوگوں نے اپنے خاندان والوں کو بھی سرکاری گاڑیاں دے رکھی ہیں اور ان کے بچے بھی پروٹوکول ملے بغیر گھروں سے نہیں نکلتے۔ سندھ حکومت نے تو اسسٹنٹ کمشنروں کو مہنگی گاڑیاں دے دی ہیں۔
ملک میں غربت اور بے روزگاری کا موجودہ حکومت میں جہاں ریکارڈ قائم ہوا ہے وہاں اسی وجہ سے خودکشیاں بھی انتہا پر پہنچ چکی ہیں مگر حکومتوں کو کوئی فکر نہیں ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق کے مقابلے میں صوبائی حکومتیں وسائل سے مالا مال ہیں مگر عوام کے لیے نہیں ہیں ۔ چاروں صوبوں میں سیاسی حکمرانی ہے مگر سادگی کہیں نظر نہیں آتی۔ وفاق میں وزیر اعظم کے صرف غیر ملکی دورے نظر آتے ہیں یا مزید مہنگائی بڑھانے کے اقدامات مگر عوام کی سہولت کے لیے کچھ نہیں ہو رہا۔ پٹرولیم مصنوعات اب حکومت کی کمائی کا اہم ذریعہ ہیں جو لیوی بڑھا کر انتہائی مہنگی کر دی گئی ہیں جن کی خریداری عوام کی مجبوری ہے۔ ٹیکس وصولی کے اہداف پورے نہیں کیے جاتے سارا زور بجلی، گیس و پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے پر ہے جو سرکاری کنٹرول میں ہیں۔