بے چہرہ عدالتوں کا قیام، خدشات

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 7 ستمبر 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

کالم کا موضوع بہت سے لوگوں کو چونکا دینے والا ہے ’’قانون اندھا ہوتا ہے‘‘ یا ’’قانون کے لمبے ہاتھ ہوتے ہیں‘‘ اس قسم کے محاورے  ہماری زندگی میں عام تھے۔ قانون کی چند مخصوص دفعات بھی عام لوگوں کو یاد ہوا کرتی تھیں عام زندگی میں ان کا استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ مثلاً کسی کمزور کو دیکھا یا کسی مخالف سے پالا پڑا تو کہہ دیا کہ اس سے کیا لڑنا یہ تو چلتا پھرتا 302 ہے یعنی خود مرا ہوا ہے اس کا خون میرے سر آئے گا۔

کسی چالباز یا شرارتی بچے کو دیکھا تو کہہ دیا کہ یہ بڑا 420 ہے یعنی دھوکے باز ہے۔ پھر اس کے بعد پرویز مشرف کے دور میں حکومت عدلیہ کا جو تنازعہ چلا تو قانون کو پہلے سیاسی بحث اور پھر عوامی بحث کا موضوع بنادیا گیا تھا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔  پہلے پہل تو مذاکرات، مضامین اور ٹاک شوز کا یہ سلسلہ قانونی ماہرین کے درمیان زیر بحث رہا پھر اس میں عام سیاست دان بھی شریک ہوگئے جو ٹی وی پروگراموں میں دستور پاکستان کی کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف ہوگئے اور آئین و قانون کی اپنی اپنی تشریحات پیش کرنے لگے پھر خالصتاً قانونی اور علمی بحث کا یہ سلسلہ عوامی سطح تک دراز ہوگیا ہر شخص آرٹیکل 6، آرٹیکل 245 اور آئین کی دیگر قانونی شقوں پر گفتگو کرنے لگا اپنی اپنی عقل و فہم اور خواہشات کے مطابق اپنی سیاسی جماعتوں یا من پسند شخصیات کی حمایت میں استعمال کرنے لگا۔ ایسے ایسے لوگ جن کی تعلیم بھی محض واجبی سے ہوتی ہے جنھیں آئین اور قانون کا فرق بھی معلوم نہیں ہوتا وہ بازاروں، دکانوں، دفاتر اور عوامی مقامات پر ان بحثوں میں مصروف اور باہم دست و گریبان نظر آتے ہیں۔

اب خبر آئی ہے کہ دہشت گردی اور سنگین نوعیت مقدمات میں گواہان، وکلا، ججز اور تفتیشی افسران کے تحفظ کے لیے بے چہرہ عدالتوں کے قیام کے حوالے سے پولیس نے سفارشات مرتب کرلی ہیں، آئی جی سندھ پولیس کی زیر صدارت اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج اور سنگین نوعیت کے مقدمات میں گواہان کو تحفظ کی فراہمی کے ضمن میں بے چہرہ عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے سندھ پولیس نے سفارشات مکمل کرلی ہیں، اجلاس میں بتایا گیا کہ سنگین مقدمات کے گواہان اور ان کے اہل خانہ کی زندگیوں کو ممکنہ لاحق خطرات کے باعث بے چہرہ عدالتوں کا قیام وقت کی ضرورت تھا۔ ملزمان کو سزائیں دلوانے اور مقدمہ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ججوں، تفتیشی افسران اور مقدمے کی پیروی کرنیوالے وکلا کو بھی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

بے چہرہ عدالتوں میں ہونے والی تمام تر قانونی کارروائی خفیہ رہے گی۔ کارروائی کے دوران ملزمان، مقدمات کے ججز، وکلا، گواہان اور تفتیشی افسران بھی تفصیل سے لاعلم ہوں گے، پولیس افسران اور اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے منتخب  پولیس لائنز میں نئے فیملی فلیٹس تعمیر کیے جائیں گے وغیرہ وغیرہ، پچھلے سال سندھ اسمبلی نے گواہوں کے تحفظ کا بل مجریہ 2013 اتفاق رائے سے منظور کیا تھا، دہشتگردی ایکٹ مجریہ 1992 میں بھی بہت سی ترامیم مرتب کی گئی تھیں۔ بے چہرہ عدالتوں کا قیام اسی قانون کے تحت عمل میں لایا جارہا ہے۔

گواہوں کے تحفظ کے بل پر بعض دیگر حلقوں کے علاوہ خود حکومتی حلقوں کی جانب سے اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس قانون کی سخت مخالفت کی تھی، گواہوں کے تحفظ، قانون اور دہشت گردی ایکٹ میں ترمیمات کے تحت حکومت کو اختیار دیا تھا کہ گواہی دینے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت ان سے معاہدہ کرے گی، دھمکیوں اور خطرات کی صورت میں ان کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، انھیں رہائش اور ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے گی، روزگار متاثر ہونے کی صورت میں ان کو مالی معاونت فراہم کی جائے یا مستقل طور پر زیر حفاظت رہنے کی صورت میں ان کے زیر کفالت بچوں کو مفت تعلیم، ورثا کو معاوضہ بھی ادا کیا جائے گا گواہ اپنی شناخت، دستاویزات اور آواز کو تبدیل کرسکیں گے، انھیں عدالت میں پیش ہونے کے بجائے ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولیات فراہم کی جائیںگی گواہوں کے تحفظ کے پروگرام کو چلانے کے لیے ایک مشاورتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔ ڈی آئی جی، سی آئی ڈی کی سربراہی میں گواہوں کے تحفظ کا یونٹ بھی قائم کیا جائے گا۔

سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو دہشت گردی میں ملوث کسی بھی شخص پر گولی چلانے کا اختیار اور نوے دنوں تک حراست میں رکھنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے اس کے علاوہ ججوں، گواہوں اور پراسیکیوٹر کے تحفظ کے لیے حفاظتی اسکرین نصب کرنے، مقدمہ کی کارروائی جیل کے اندر ویڈیو لنک کے ذریعے کرنے، غلط انکوائری کرنے پر تفتیشی افسر کو سزا اور بہترین انکوائری پر انعام  دینے اور الیکٹرک ٹرانزک شواہد کو بھی حتمی ثبوت کے طور پر استعمال کرنے کا اختیار بھی شامل ہے، رقم ہے اس بل کے پیش کیے جانے کے موقع پر اپنے اظہاریہ میں ان تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے پولیس کلچر میں مقدمات میں پیشہ ور گواہوں کو پیش کرنے کا عمل عام ہے اس قانون کے نتیجے میں باقاعدہ اجرتی گواہ بھی پیدا ہوجائیں گے جنھیں قانون کا سہارا بھی میسر آجائے گا گواہوں کو خفیہ رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے دہشت گردوں اور جرائم مافیا کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں اور وہ بڑے اثر و رسوخ کے مالک ہیں گواہوں کے تمام کوائف حاصل کرسکتے ہیں۔ محکمہ پولیس میں کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں۔

اس قانون کے تحت گواہی کے سلسلے میں قانون کے بنیادی تقاضے بھی متاثر ہوں گے۔ حکومتیں انھیں سیاسی انتقام کے آلہ کے طور پر بھی استعمال کرسکتی ہیں۔ عدالتیں، عوام اور خود ملزمان بھی اس عمل سے مطمئن نہیں ہوں گے، آئین و قانون کے تحت فری اینڈ فیئر ٹرائل ہر شہری کا حق ہے شخصی آزادی اور انصاف کی فراہمی آئین فراہم کرتا ہے اس صورت میں یہ قانون عدالت میں چیلنج ہوسکتا ہے ورنہ سزاؤں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کی صورت میں اس کو رد کیا جاسکتا ہے۔ گولی چلانے کا اختیار، 90 دن تک قید رکھنے، گواہوں کو سہولیات، روزگار، رہائش وغیرہ دینے، غلط انکوائری پر سزا اور اچھی انکوائری پر انعام وغیرہ ایسے اختیارات ہیں جن کے غلط استعمال ہونے کا قوی امکان ہے، بے قصور شہریوں کو پولیس اور رینجرز کے جعلی مقابلوں میں ہلاکتیں منظور نظر افراد کو نوازنے ناپسند یا ایماندار اہلکاروں کو کھڈے لائن لگانے،سیاسی و من پسند بھرتیاں، تقرریاں، ترقیاں اور تعیناتیاں اور کمیشن و کرپشن سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو کراچی پولیس کے لیے سربیا سے گاڑیاں خریدنے سے روک دیا ہے، درخواست گزار نے بتایا تھا کہ حکومت نے ان بکتر بند گاڑیوں پر بھاری کمیشن حاصل کیا ہے معاہدہ کرانیوالے شخص کو خریداری سے قبل ہی 65 کروڑ روپے کمیشن ادا کردیا گیا جب کہ یہ گاڑیاں بھی استعمال شدہ ہیں۔ ہیوی مکینکل کمپلیکس اس قسم کی معیاری گاڑیاں بناتا ہے، پاک فوج اپنے استعمال کے لیے گاڑیاں اس ادارے سے خریدتی ہے۔ محکمہ پولیس کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ ای پولیسنگ کے تحت بروقت اور براہ راست رابطوں اور ماتحت کو فوری اقدامات و احکامات دینے کے درجن بھر سے زیادہ پولیس دفاتر میں ویڈیو کانفرنسنگ سسٹم کی سہولت فراہم کی تھی مگر اس سے استفادہ حاصل نہیں کیا گیا۔ حساس علاقوں میں سراغ رسانی کا نظام ختم ہوچکا ہے۔

افسران کی عدم دلچسپی سے غیر فعال اسپیشل برانچ کے افسران و اہلکار علاقوں کے مشتبہ افراد کی نقل و حرکت اور ٹارگٹ کلنگ کی پیشگی اطلاعات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ سراغ رسانی کے رموز سے بھی نا آشنا ہیں اسی وجہ سے سابقہ آپریشن کی طرح حالیہ ٹارگٹڈ اپریشن کے سال بھر گزر جانے کے باوجود بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ صرف ماہ اگست میں 157 افراد قتل اور ایک درجن سے زائد دستی بم اور کریکر کے حملے کیے گئے، عجلتی، تجرباتی نمائشی اور بلا سوچے سمجھے اقدامات نہ محکمہ پولیس کی کارکردگی درست کرسکے گی نہ ہی امن و امان کی صورت حال بہتر کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے دیانت دارانہ اور مخلصانہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ نا انصافیاں اور جرائم اسی طرح پنپتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔