(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ریویو؛ دعوتِ عشق

حاجرہ افتخار  جمعـء 26 ستمبر 2014
جہاں لڑکوں کو اپنی سوچ بدلنی ہو گی وہیں لڑکی کے والدین کو بھی یہ بات سمجھنا چاہئے کہ ان کی بیٹی کوئی کھلونا نہیں۔ فوٹو فیس بک

جہاں لڑکوں کو اپنی سوچ بدلنی ہو گی وہیں لڑکی کے والدین کو بھی یہ بات سمجھنا چاہئے کہ ان کی بیٹی کوئی کھلونا نہیں۔ فوٹو فیس بک

مووی دیکھنی ہے اور وہ بھی صرف سینما میں، پھر چاہے گیلری میں سیٹ نا ملے ۔ لیکن خوش قسمتی سے مجھے سینما میں نا صرف مووی دیکھنے کا موقع ملا بلکہ فرسٹ کلاس گیلری میں سیٹ بھی مل گئی ۔ شاید میری دعا قبول ہوگئی تھی ، ایسا نہیں ہے کہ میں فلموں کی بہت شوقین ہوں اور ہر فلم کے لیے یوں ہی دعائیں مانگتی ہوں ۔ اس فلم کی میں نے بے حد تعریفیں سنی تھیں بس اسی وجہ سے دعاؤں میں اس فلم کا نام بھی شامل تھا۔ ارے ہاں ! آپ کو بتا تو دوں کہ میں کس مووی کی بات کر رہی ہوں تو جناب میں ’’ دعوتِ عشق‘‘ کی بات کر رہی ہوں۔


یش راج فلمز کے بینر تلے بننے والی اس فلم کے ڈائریکٹر اور رائٹر حبیب فیصل جبکہ پرڈویسر ادیتیا چوپڑا ہیں۔ فلم کا میوزک ساجد واجد نے ترتیب دیا ہے جس میں پانچ گانے شامل ہیں، ان پانچ گانوں میں سے ’’دعوتِ عشق‘‘، ’’منت‘‘ اور ’’ شاعرانہ‘‘ شائیقین کی خاص پسند بنا ہوا ہے ۔فلم میں پرینیتی چوپڑا(گلریز عرف گلو ) اور ادیتیا رائے کپور( طارق عرف طارو) کے کردار میں جلوہ گر ہیں۔ دیگر فنکاروں میں انوپم کھیر (عبدالقادر)، سُمت گاڈی (نیرک) اور کرن وہی (امجد)  شامل ہیں۔

تصویر؛ فیس بک

فلم کے آغاز سے ہی عبدالقادر گلو کے لئے ایک اچھے رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں، لیکن جو بھی رشتہ دیکھنے آتا ہے وہ یہ کہہ کر چلا جاتا ہے کہ بیٹی کو دینے کے لئے 15 لاکھ  کی رقم تو بہت کم ہے ان کے بیٹے کے پاس اس سے زیادہ اچھے رشتے ہیں جبکہ عبدالقادر انہیں اپنی بیٹی کی ذہانت کا یقین دلاتا رہ جاتا ہے ۔ ان سب کے درمیان گلو کی ملاقات امجد سے ہوتی ہے جو بظاہر ایک نیک صفت انسان ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ بھی دوسروں کی طرح لالچی نکلتے ہیں اور عبدالقادر سے 80 لاکھ روپے کی مانگ کرتے ہیں۔ گلو اسی وقت اپنا فیصلہ بدلتی ہے اور امجد اور اس کے ماں باپ کو کھری کھری سنا کر چلتا کرتی ہے۔

غصے کی ہی حالت میں وہ ایک خبر سنتی ہے جو اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے، خبر کچھ یوں ہوتی ہے کہ آئین کے ایکٹ 48-A کے تحت ایک شوہر کو سزا کے طور پر بھاری رقم لڑکی کو ادا کرنا پڑتی ہے کیونکہ وہ اپنی بیوی سے جہیز کی مانگ کرتا ہے۔ گلو کے ذہن میں فوراَ ایسا ہی کچھ کرنے کا خیال آتا ہے جس پر وہ اپنے ’’بوجی‘‘ کو بھی منالیتی ہے۔

تصویر؛ فیس بک

اب آتا ہے کہانی میں ٹوسٹ جب گلو اور عبدالقادر نام اور حلیہ بدل کر حیدرآباد سے لکھنؤ پہنچتے ہیں جہاں ان کی ملاقات طارق سے اس کے اپنے ہوتی ہے ۔ان کی پہلے ملاقات بہت زیادہ اچھی تو نہیں ہوتی لیکن آگے چل کر یہ لوگ طارق کو اپنا بکرا بناتے ہیں۔ پلان کے مطابق پہلے یہ لڑکے سے ملیں گے پھر اس کے ماں باپ کی جہیز والی باتیں ریکارڈ کرکے شادی کے دوسرے ہی دن انہیں بلیک میل کریں گے تاکہ وہ لوگ انہیں قانون سے بچنے کے لیے عدالت سے باہر خاص رقم دیں اور یہ وہ رقم لے کر امریکہ چلے جائیں۔

تصویر؛ فیس بک

سب پلان کے مطابق طارق کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن طارق شادی سے پہلے گلو جو کہ اس وقت ثانیہ بنی اس کے ساتھ ہوتی ہے اسے 40 لاکھ کی رقم دیتا ہے تاکہ وہ رقم اپنے باپ کو دیں  اور وہ جہیز جیسی لعنت سے بھی بچ جائے۔ بالآخر گلو شادی کے دن ہی اسے بے ہوش کر کے اپنے باپ کے ساتھ تمام پیسہ لے کر حیدرآباد واپس آجاتی ہے، جہاں اسے احساس ہوتا کہ وہ زیادتی کر کے آئی ہے۔

اُدھر جب طارق کو پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے تو وہ اسے ڈھونڈتا ہوا حیدرآباد پہنچتا جاتا ہے جہاں اس کا انتظار ختم ہوتا ہے اور گلو اس کے پیسے اسے واپس دے کر ساری سچائی بتاتی ہے ۔ آگے تو آپ سمجھ ہی چکے ہیں ہوں گے کہ کیا ہو تا ہے دونوں کے درمیان تمام غلط فہمیاں ختم ہوتی ہیں اور دونوں شادی کر لیتے ہیں۔


ایک بات جو اس فلم میں بہت اہم ہے وہ یہ کہ اگر لڑکا یہ بات سمجھ لے کہ لڑکی کوئی بیچنے کی چیز نہیں جسے اس کے ماں باپ کچھ پیسوں کے بدلے دوسروں کے سامنے بہترین آفر کے طور پر پیش کریں گے، اور لوگ ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھائیں گے تو ہمارا معاشرہ بہت سی برائیوں سے بچ جائے گا ۔ مجھے اس فلم کا جو سب سے بہترین ڈائیلاگ لگتا ہے وہ گلو کا ہے جس میں وہ طارق کو کہتی ہے؛

 ’’ اگر سب مرد تمہارے جیسے ہو جائیں تو پرابلم ہے ختم ہو جائے‘‘

تصویر؛ فیس بک

ایک اہم بات یہ بھی کی جہاں لڑکوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی وہیں لڑکی کے والدین کو بھی یہ بات سمجھنا چاہئے کہ ان کی بیٹی کوئی کھلونا نہیں جسے جب دل کیا پسند کیا جب دل کیا پھینک دیا ۔ گلو کا ایک ڈائیلاگ جب وہ اپنے باپ کو یہ بات سمجھا رہی ہوتی ہے کہ جہیز کی وجہ سے ہم دوسروں کے آگے نہیں جھکیں گے وہ کچھ یوں ہے؛

’’ مسٹر ورلڈ کیوں مسٹر یونیورس ملے گا‘‘

تصویر؛ فیس بک

شاید یہ فلم دیکھنے کے بعد لوگ جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

حاجرہ افتخار

حاجرہ افتخار

بی ایس ماس کمیونیکیشن کی طالبِ علم ہیں۔ لکھنا، پڑھنا اور ریسرچ کرنا ان کا شوق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔