محترم میاں صاحب

میاں نواز شریف واقعی ایک شریف آدمی ہیں لیکن حالات کی ساز گاری نے انھیں قدرے مغرور بھی کر دیا ہے


Abdul Qadir Hassan October 01, 2014
[email protected]

سیاسی دنیا کی رونقیں عروج پر ہیں۔ پرانی قسم کے جلسے جلوسوں کے علاوہ ایک تیسری قسم دھرنے کی سیاست بھی عوام میں بہت مقبول جا رہی ہے۔ خود سیاستدان بھی اپنی سیاسی اور اوچھی حرکتوں سے خبروں میں ہیں لیکن اس وقت دور یخ بستہ پہاڑوں سے پرندے گرم علاقوں کی طرف کوچ کر رہے ہیں اور ان میں چونکہ ہزار ہا میرے مہمان بھی ہیں اس لیے میں سب سے پہلے ان مہمانوں کا خیرمقدم کرتا ہوں اور ہر سال کی طرح اس بار بھی انھیں اپنی وادی سون کی جھیلیں پیش کرتا ہوں جن کے پانیوں میں وہ خوشگوار سردیوں کے دن گزاریں گے اور اپنے خوبصورت پروں آوازوں اور پروازوں سے ہمیں حیرت زدہ کرتے رہیں گے۔

ہر سال کی طرح میں اس بار بھی بندوقوں اور جال کے ذریعے شکاریوں سے عرض کرتا ہوں کہ ان مہمانوں کو آرام اور سکون کے ساتھ موسم کے یہ دن گزارنے دیں۔ ان کے رنگ رنگ کے پروں کو جی بھر کر دیکھیں جھیلوں کے پانیوں پر انھیں تیرتا دیکھیں اور ان پانیوں کے اوپر اڑتے ہوئے انھیں آپس میں کھیلتے اور پیار کرتے دیکھیں۔ یہ ہمیں کوئی تکلیف نہیں دیتے اور دانہ پانی انھیں قدرت خود دیتی ہے۔ صبح ہر پرندے کی طرح یہ بھی خالی پیٹ گھونسلوں سے اڑتے ہیں اور فضاؤں میں پھیلے ہوئے کیڑے مکوڑوں سے پیٹ بھرتے ہیں۔ ہم انسانوں کو یہ فضا اپنے خوبصورت نظارے کا لطف دیتے ہیں اور راتوں کو جھیلوں کے کناروں پر آرام کرتے ہیں۔ بہر کیف ہم وادی سون والوں کے یہ مہمان اب فضاؤں میں طویل پرواز کرتے ہوئے اترنے والے ہیں۔ ہمیں اپنی میزبانی کا لطف عطا کرنے کے لیے۔

زمین پر جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے بے نیاز اپنی فضائی دنیا میں پر لطف زندگی گزارنے والوں کے لیے چند استقبالی جملوں کے بعد اب مجھے اپنے عزیز دوست چوہدری اعتزاز احسن کی یہ شرارت یاد آ رہی ہے جس میں انھوں نے محترم میاں صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اب اپنے گھومنے پھرنے کو ذرا کم کر دیں اور عمران خان کے غیر مہذب نعروں سے دور رہیں اور ان سے پیچھا چھڑا لیں کیونکہ یہ کسی بھی انسان کو بدمزہ کر سکتے ہیں اور آپ کو ان کی بدمزگی سے بہت دور رہنا چاہیے۔ آپ جس رکھ رکھاؤ والی طبیعت کے مالک ہیں یہ نعرے اس سے بالکل لگا نہیں کھاتے۔ چوہدری اعتزاز احسن کے الفاظ تو مختصر تھے لیکن ان کی وضاحت کے لیے کچھ اضافہ کرنا پڑا۔

یاد آیا کہ جب فوجی حکومت عوام میں زیادہ ناپسندیدہ ہونی شروع ہو جاتی تو فوجیوں کو ہدایت کی جاتی کہ وہ پبلک سے دور رہیں اور یونیفارم میں باہر ہر گز نہ نکلیں تا کہ کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو۔ چوہدری اعتزاز نے بھی یہی فوجی مشورہ دیا ہے۔ میاں صاحب نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہ ایسے ایسے جلسہ ہائے عام کریں گے کہ لگ پتہ جائے گا۔ یہ پتہ عمران خان کو لگنا چاہیے جس نے میاں صاحب اور ن کے ہمارے جیسے مداحوں کو تنگ کر رکھا ہے اور گو نواز گو قسم کے بدتمیزی والے نعرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ یہ نعرے سنا ہے امریکا تک بھی جا پہنچے ہیں۔

ایک تو امریکا میں امریکیوں نے ہماری عزت افزائی نہیں کی نہ اوباما ملے اور نہ کوئی دوسرا بڑا آدمی یعنی اقوام متحدہ کے اس میلے میں سجن نے نہ سینما دکھایا نہ لیمن پلایا۔ کروڑوں روپوں کے کرائے کے جہاز میں واپس بھجوا دیا وہ بھی دورے کا وقت ختم ہونے سے پہلے۔ بہر کیف جب گھر میں عزت ہو تو باہر تب ہوتی ہے اور امریکا تو ہر ایک کی پل پل کی خبر رکھتا ہے کہ کون کیا ہے اور کیسا جا رہا ہے۔ برسوں گزر گئے ہماری تو میاں صاحب سے علیک سلیک نہیں ہوئی ورنہ انھیں بے غرض اور بے لوث مشورے دیتے اور شاہی محلوں کے باہر کی خبریں سناتے۔ اب میاں صاحب کو تصویروں میں ایسے لوگوں کی پناہ میں دیکھتے ہیں جن کے سر اور دماغ دکھائی نہیں دیتے۔

میاں نواز شریف واقعی ایک شریف آدمی ہیں لیکن حالات کی ساز گاری نے انھیں قدرے مغرور بھی کر دیا ہے پھر بار بار اقتدار کی آمد کوئی معمولی بات نہیں۔ ایسے میں ہوش و حواس کو بجا رکھنا کوئی آسان بات نہیں اس کے لیے طویل تربیت اور روایت چاہیے۔ میاں صاحب میں احساس عزت اور غیرت بھی ہے سب کو معلوم ہے کہ وہ فوج کے ذریعے اقتدار میں آئے اور انھیں لالچی لوگوں سے رابطہ کرنا پڑا۔ چند واقعات کا میں ذاتی طور پر گواہ ہوں جو کبھی ظاہر نہیں ہوں گے لیکن میں یہ عرض کروں گا کہ میاں صاحب نے فوج سے مصالحت نہیں کی بس ایک جبر تھا جس کو انھوں نے برداشت کیا۔ ایک معمولی سی بات کہ امریکی صدر نکسن پاکستان کے دورے پر وہ لاہور بھی آئے گورنر ہاؤس میں جنرل جیلانی کی طرف سے جو دعوت ہوئی اس میں چند لوگ شریک تھے۔

میاں صاحب سے آمنا سامنا ہوا تو مجھے اپنے ڈرائیور کی پلاٹ کی درخواست یاد آئی میں نے اس کی سفارش کی تو کہا کہ ذرا ان کو جانے دیں اور مجھے یاد دلائیں۔ جنرل جیلانی قریب ہی کھڑے تھے جن کی طرف انھوں نے واضح اشارہ کیا۔ مجھے اس پر سخت تعجب ہوا یہ تو منہ پر کہنے والی بات ہوئی لیکن جب سوچا تو اندازہ ہوا کہ ان لوگوں نے میاں صاحب کو اقتدار دیتے ہوئے ان کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی چبھن وہ محسوس کرتے رہے۔ ان کے مزاج کے میرے لیے ایک قابل تعریف پہلو کی طرف اشارہ تھا لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کو سیاست میں بہت سارے سمجھوتے کرنے پڑے لیکن وہ عملی سیاست غالباً کامیابی کے ساتھ نہ کر سکے کہ اب پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار کسی بڑے کے لیے استہزائی فقرے کہے گئے جو زبان زد عام ہو گئے۔

حالات کو اس حد تک لے آنا میاں صاحب کی سیاسی ناکامی ہے۔ انھوں نے عوام سے بے اعتنائی کی حد کر دی ایسی تو بادشاہ بھی نہیں کیا کرتے۔ عمران خان جیسے غیر سیاسی لوگ بھی شیر ہو گئے ہیں میرے خیال میں اس وقت میاں صاحب کے خلاف جو اپوزیشن ہے اور اس کی جو طاقت یا مقبولیت ہے وہ سب میاں صاحب کی سیاسی پالیسیوں کا نتیجہ ہے مگر اب حالات بہت آگے نکل گئے ہیں میرے جیسے قلم کے ایک بے بس مزدور کو میاں صاحب سے سچی ہمدردی ہے۔

مقبول خبریں