دلی دور نہیں
واہگہ کا دھماکا محض ایک دھماکا نہیں تھا اس کے پیچھے بھارت کی کمزور ذہنیت تھی۔
واہگہ کے سانحہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد ساٹھ سے اوپر چلی گئی ہے اور یوں کئی خاندان بھی اجڑ گئے۔ موت کے اس رقص پر پاکستان بھر میں ایک کہرام برپا ہو گیا لیکن آفرین ہے اس قوم کی جرات حب وطنی اور دشمن شناسی پر کہ دوسری مرتبہ یعنی دوسرے ہی دن لاہوریوں اور پاکستانیوں کی اتنی ہی تعداد کچھ لوگوں کے خیال میں پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں اس مقام پر ایسی ہی تقریب میں شریک ہوئی اور اس قدر پر جوش اور برملا انداز میں کہ دشمن کو صاف صاف بتا دیا کہ ہم نے اس کو پہچان لیا ہے اور اس سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔
وہ جس قدر چاہے اسلحہ جمع کر لے لیکن وہ دلوں کے اندر بے قرار اور بے چین جذبہ دنیا کی کس مارکیٹ سے خریدے گا۔ وہی جذبہ جس کے بارے میں ہمارے ایک شاعر نے کہا تھا کہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ ہماری تو پوری تاریخ ہی جرات اور خدا پرستی کی تاریخ ہے۔ ہم نے شمشیر سے زیادہ اپنے ایمان پر بھروسہ کیا اور دشمن کی تعداد اور طاقت کو اس کے منہ پر دے مارا۔ ہماری تاریخ ایسی جرات مندی کے کارناموں سے بھری پڑی ہے وہ تو ہمارے حکمران نکمے نکلے اور بے حوصلہ کہ دشمن کو جرات ہوئی ہے کہ وہ ہمارے گھر میں گھس کر کوئی گستاخی کر لے۔
بھارت میں ایک دشمن وزیراعظم آیا ہے جس نے اپنے صوبہ گجرات میں اپنی وزارت کے دوران وہاں کے مسلمانوں کا جو قتل عام کیا اس کی بنیاد پر بھارت کے عوام نے اسے ووٹ دے کر وزیراعظم بنا دیا۔ اس شخص کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ اب یہ پورا خطہ ہی اس کا ایک گجرات ہے۔ واہگہ میں گستاخی کر کے اسے جس فوری ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے اگر پھر ایسی کوئی حرکت کی گئی تو اب دلی دور نہیں ہے۔
ہمارے حکمران بھی اپنی بند آنکھیں کھول کر دیکھ لیں کہ ان کے مال و اسباب کی سلامتی بھی دشمن کو قابو رکھنے میں ہے ورنہ ہمارا دشمن اس قدر گھبرایا رہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ڈر سے کوئی حرکت بھی کر سکتا ہے اور جب بھی اسے مسلمانوں کے خلاف کوئی کامیابی ملتی ہے تو مسلمانوں کے تحت اپنی غلامی کی زندگی کو یاد کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بھارت کا ایک مشہور مسلمان کہتا ہے کہ ہم مسجد میں سفیدی بھی کرا دیں تو ہندو پریشان ہو جاتے ہیں کہ مسلمان شاید پھر کوئی نئی کروٹ لینے والے ہیں۔
پاکستان کے قائدین نے پاکستان بنایا اور اس پراعتماد اور دلیرانہ عزم کے ساتھ کہ وہ بھارت کے ساتھ امن سے رہیں گے اور اپنے نئے وطن کے لیے ایک خوشحال اور پرامن زندگی تلاش کریں گے لیکن بھارت نے قیام پاکستان کے فوری بعد کشمیر کے مسئلہ پر پہلی جنگ برپا کی۔ اس جنگ پر اس وقت لکھنے کو موخر کرتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی بھارت گویا یہ سمجھتا رہا کہ اسے پاکستان کو ختم کرنا ہے کیونکہ یہ بھارت ماتا کو کاٹ کر بنا ہے۔
بہتر تھا کہ بھارت ماتا کو سلامت رکھا جاتا اور اسے کاٹا نہ جاتا جیسے وہ پہلے ہزار برس تک رہی ہے۔ ان دنوں ٹی وی پر شہنشاہ اکبر کے ایک رومانس کا ڈرامہ چل رہا ہے جس کی ہیروئن بھارت کے ایک بہت ہی اونچے راجواڑے سے تعلق رکھتی ہے اور جو مغلوں کے آنے والے بادشاہ کی ماں بنی تھی۔ اکبر کو اس لیے بھارتی بھی اکبر اعظم کہتے ہیں کہ وہ تلک بھی لگاتا تھا اور سورج کا استقبال بھی کرتا تھا۔ یہ چٹا ان پڑھ بادشاہ اپنی رعایا کو خوش رکھنے کے ایسے حربے استعمال کرتا رہتا تھا اور اس کے نو رتن مملکت ہند کو چلاتے اور سنبھالتے تھے صدیوں بعد مغلوں کی حکومت اتنی کمزور پڑ گئی یا وقت کے ساتھ ساتھ اتنی بوسیدہ ہو گئی کہ بھارت کے غلام ہندوؤں کو انگریزوں کی مدد سے آزادی مل گئی ورنہ وہ خود اب بھی مسلمانوں کے ساتھ شادی بیاہ کے رشتوں میں بندھے ہوئے ملتے۔
انگریز حکمران کہا کرتے تھے اور ان کے اندر یہ پختہ احساس تھا کہ انھوں نے حکومت ہندوؤں سے نہیں مسلمانوں سے چھینی ہے چنانچہ وہ ہمیشہ ہندوؤں کی سرپرستی اور مسلمانوں کے ساتھ برا سلوک کرتے رہے۔ مسلمان تو پاکستان لے کر اپنی یہ نئی دنیا بسانے کی فکر میں لگے رہے لیکن معلوم ہوتا ہے ہندو اپنی غلامی کو کبھی نہیں بھولے اور سقوط ڈھاکا پر اندرا گاندھی کے یہ تاریخی الفاظ ہمیشہ برصغیر کی تاریخ میں زندہ رہیں گے کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار برس کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔
ہم ان کے ساتھ رشتہ داریوں میں لگے رہے لیکن وہ ہمیں آقا اور اپنے آپ کو غلام ہی سمجھتے رہے، یہ ہندو ذہنیت اب تک زندہ ہے اور بھارت کی قومی سیاست پاکستان کے عمل اور ردعمل پر چلتی ہے۔ یہ تازہ دھماکا جس میں ساٹھ سے زیادہ پاکستانی شہید ہو گئے اس ہندو ذہنیت کا نتیجہ ہے لیکن مسلمانوں نے فوراً ہی دوسرے ہی دن بھارت کو کرارا جواب یوں دے دیا کہ وہ اسی مقتل پر پھر سے جمع ہو گئے اور بھارت کو اپنی آزاد زندگی اور خودی کا ثبوت دے دیا۔ خبریں ملی ہیں کہ یہ دونوں دن بھارت کی طرف کے علاقے میں مکمل خاموشی کے دن تھے ان کے دل کے چور نے انھیں باہر نہ نکلنے دیا۔
یہ چور زندہ رہے گا جب تک ڈاکٹر قدیر خان اور ان کا بم زندہ ہے جب تک ہماری سپاہ سلامت ہے بھارت اس چور کے خوف میں زندگی بسر کرے گا کوئی امریکا آخر کب تک اس کو سہارا دے گا وہ تو خود افغانستان سے فرار حاصل کر رہا ہے اور پاکستان سے کہتا ہے کہ ہماری خالی گاڑیاں ہی یہاں سے گزرنے دو کہ وہ امریکا پہنچ سکیں۔
واہگہ کا دھماکا محض ایک دھماکا نہیں تھا اس کے پیچھے بھارت کی کمزور ذہنیت تھی۔ اس کی طویل غلامی کی پرچھائیاں تھیں اور اس سے کہیں کم پاکستان کا وجود تھا جو شکست ماننے پر تیار نہیں تھا بلکہ جرات مندی کے ساتھ میدان میں کھڑا تھا اور اس میں جذبے کا طوفان برپا تھا۔ خدا کرے ہماری حکومت اور سیاستدان قوم کے اس زندہ و پایندہ جذبے کو کسی راہ پر لگا سکیں۔
اس سے تعمیر وطن کا کام لے سکیں۔ پاکستان کی قوم کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے پر تیار ہے لیکن کیا ہمارے قائدین بھی اس پر تیار ہیں یا بھارت جیسے اندر سے کھوکھلے اور کمزور ملک کی برتری تسلیم کر رہے ہیں۔ یہ موضوع طویل ہے اور اس پر میں لکھتا رہتا ہوں تاکہ قوم اور حکمرانوں کی یادوں میں یہ سب تازہ رہے۔