یہ بم دھماکے اور بس دھماکے

ایک بس جو سوات سے کراچی جا رہی تھی یعنی ملک کے آر پار کا سفر کر رہی تھی سندھ میں ایک ٹرک سے ٹکرا گئی


Abdul Qadir Hassan November 11, 2014
[email protected]

ایک بس جو سوات سے کراچی جا رہی تھی یعنی ملک کے آر پار کا سفر کر رہی تھی سندھ میں ایک ٹرک سے ٹکرا گئی اور کوئی ساٹھ مسافر اللہ کو پیار ہو گئے اور دس سے زائد زخمی۔ خبر ملی ہے کہ بس کی غلطی تھی جو ایک ٹرک سے ٹکرا گئی اور اس طرح پوری بس ہی ختم ہو گئی۔

ہمارے ہاں پولیس کی سہولت کے لیے ٹریفک کے قوانین موجود ہیں اور ان قوانین کی مدد سے ہی پولیس والے اپنی روزی کماتے ہیں۔ یوں تو ان کی تنخواہ بھی ہوتی ہے لیکن وہ اسے بچوں کے جیب خرچ کے لیے الگ رکھ لیتے ہیں۔ پولیس کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ میں نے لاہور جیسے صوبائی دارالحکومت میں گاڑی چلانے والی خواتین سے انھیں رشوت طلب کرتے خود کئی بار دیکھا ہے جہانتک باہر کے راستوں کا تعلق ہے تو ٹریفک پولیس کو رشوت دیے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور ہر بس اور ٹرک ڈرائیور کے پاس راستے کا خرچ الگ سے رکھا ہوتا ہے جو وہ اپنے سفر کے مطابق بانٹتا چلا جاتا ہے اور منزل تک بخیریت پہنچ جاتا ہے۔

میرا خیال ہے جس بس کا تازہ حادثہ ہوا ہے اس کے طویل سفر کے لیے غالباً ایک ہی ڈرائیور ہو گا۔ نیند اور سفر کی مشقت کا مارا ہوا۔ ڈرائیونگ ایک اعصاب شکن ڈیوٹی ہے لیکن ہمارے ہاں سفر کے لحاظ سے ڈرائیور بدلنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ ایک اسٹیشن سے ڈرائیور بس پر سوار ہو گیا تو بس کا پورا سفر اسی کو ہی طے کرنا ہوتا ہے اور سوات اور کراچی جیسے طویل ترین سفر کے لیے تو ایک سے زیادہ دو تین ڈرائیور چاہئیں جو باہوش ہو کر یہ سفر طے کر لیں اور کسی ٹرک وغیرہ سے ٹکڑا کر اپنے تمام مسافروں کو اس دنیا سے رخصت نہ کر دیں۔

پولیس ایک بہت ہی با اختیار محکمہ ہے جس کے قانونی اختیارات بھی بہت ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پولیس ان اختیارات پر عمل درآمد بھی خود ہی کرتی ہے سوائے بڑے جرائم کے جو کسی عدالت میں لے جانے کی مجبوری ہوتی ہے لیکن عدالت تک جانے کے مرحلے میں بھی پولیس اپنا مطلب پورا کر لیتی ہے یعنی کسی چھوٹے بڑے جرم میں کوئی پکڑا جائے تو وہ فوراً ہی پولیس کی آسامی بن جاتا ہے اور اس کے گھر والے جیب میں مناسب رقم ڈال کر ہی اس کی خیریت پوچھنے جاتے ہیں کیونکہ ملزم کو دیکھنے اور اس سے بات کرنے کا ایک مرحلہ بھی ہوتا ہے جس سے گزرنے کی تیاری ضروری ہوتی ہے یوں کہیں کہ تھانے سے رابطے کے لیے دھرتی قلعی کرانی پڑتی ہے۔ پولیس کا محکمہ جرائم کی روک تھام کے لیے بنایا جاتا ہے لیکن جرائم نہ ہوں تو پولیس کی روک تھام کیسے ہو۔

اس گلشن کا کاروبار جرائم سے ہی چلتا ہے۔ ایک عام محاورہ ہے کہ پولیس کے بڑے اور ان کے حکمران بھی تھانہ کلچر بدلنے کی بات کرتے ہیں جس میں وہ ہمیشہ سو فی صد ناکام ہوتے ہیں کیونکہ تھانہ کلچر بدلا جائے تو لوگ بھوک سے مر جائیں۔ یہ تھانہ کلچر ایسا ہے کہ اس سے بچ کر زندگی بسر کرنا آسان نہیں ہے میں مدتوں سے لاہور میں رہتا ہوں لیکن میری ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ شہر کا کوتوال میرا مہربان ہو کوئی دوسرا ہو یا نہ ہو۔ علاقے کے تھانیدار کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ کی کوئی وقعت نہیں ہے اور یہ ایک زمینی حقیقت ہے جس سے کوئی وزیر اعلیٰ بھی انکار نہیں کر سکتا۔

پولیس کا کوئی شعبہ بھی ہو وہ ایک عام شہری کے لیے ایک شعبہ نہیں مکمل پولیس ہوتا ہے اور اگر آپ کا رشتہ کسی سڑک کے ساتھ ہے یعنی آپ ڈرائیونگ کرتے ہیں اور کسی سڑک پر گاڑی چلاتے ہیں تو آپ ٹریفک پولیس کی تحویل میں ہیں۔ گاڑی تو بڑی بات ہے سائیکل بھی پولیس کی دسترس میں ہوتی تھی ایک بار پولیس نے مجھے سائیکل پر پکڑ لیا۔ میں نے رعب ڈالنے کے لیے کہا کہ مجھے جلدی ہے میں نے دفتر جا کر خبر بنانی ہے تو متعلقہ ذہین پولیس افسر نے حکم دیا کہ بھئی انھیں جلدی ہے ان کا چالان پہلے کر دیں۔ اس کے بہت بعد ایک گورنر نے حکم جاری کیا کہ آیندہ سائیکل کا چالان نہ کیا جائے۔ اس حکم کا اعلان انھوں نے جس پریس کانفرنس میں کیا اس میں میں بھی موجود تھا اور عرض کیا کہ سر آپ نے بہت تاخیر کر دی ہے اس پر خوش مزاج گورنر صاحب نے مزید کچھ کہے بغیر کہا کہ چالان کی پرچی لے آئیں معاف کر دیتا ہوں۔

پولیس اور عوام کے مزاج کا تعلق ایسا بن چکا ہے کہ اب اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا اصلاح کا کوئی راستہ تجویز کیا جا سکتا ہے کہ لاٹھی اور سانپ والا معاملہ بن جائے۔ میں نے ایک بار خبر پڑھی تھی کہ انڈونیشیا میں رشوت سے تنگ آ کر حکومت نے اس کی حد مقرر کر دی تھی کہ اس سے تجاوز نہ کیا جائے باقی ٹھیک ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ اس سے زیادہ سنگین ہے یہاں ملازمین سرکار کا مسئلہ نہیں سرکار کا بھی ہے۔

موٹروے پر ذوالفقار چیمہ کو بٹھا دیا گیا اور مسئلہ پورا حل ہو گیا لیکن ہر سڑک کے لیے ایک چیمہ کہاں سے لائیں۔ جو لوگ تھانہ کلچر کی اصلاح کا نعرہ لگاتے ہیں وہ اس پر عمل نہیں کر سکتے۔ انھیں پولیس کے ساتھ سمجھوتہ کر لینا چاہیے جیسے عمران خان نے 'گو نواز گو' پر کر لیا ہے سڑکوں کے حادثے ایک معمول بن گئے ہیں اور ان کی بڑی وجہ پولیس ہے اگر وہ کسی حد تک بھی ٹریفک قوانین پر عمل کی کوشش کرے تو حادثات سے بچا جا سکتا ہے اور ایسے سانحے نہیں ہو سکتے کہ پوری بس ہی مسافروں سمیت تباہ ہو جائے۔ بس کا یہ ایک بڑا حادثہ ہے اور بس کے روٹ کو دیکھیں کہ سوات سے کراچی تک پھیلا ہوا ہے ۔

اس طویل روٹ پر کیا ایک ہی ڈرائیور چل رہا تھا۔ اس کا دھیان رکھنا پولیس کا فرض ہے کہ جب بس چلی تھی تو وہ اس کی مکمل تفتیش کر لیتی کہ مالک نے کیا انتظام کیا ہے لیکن یہ سب بگڑے ہوئے بلکہ تباہ حال تھانہ کلچر کی خرابی ہے جس کی سزا قوم کو ملتی رہتی ہے جس کا ایک نمونہ اس بس کا حادثہ ہے جس کے تمام مسافر ہی کسی کی سستی کے شکار ہو گئے۔ چند روز پہلے واہگہ میں ایک بڑا حادثہ ہوا اس کے برابر کا حادثہ اس بس سے ہو گیا ہر پاکستانی اپنی انتظامیہ سے پوچھتا ہے کہ وہ کہاں جائے۔ جائے پناہ کہاں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں