فیض صاحب‘ دو ٹوک باتیں اور مولانا آزاد

وہ ایک مسلمان پاکستانی تھے صرف معاشی اصلاحات میں ترمیم چاہتے تھے عربی زبان میں ایم اے کیا تھا۔


Abdul Qadir Hassan November 21, 2014
[email protected]

الحمد للہ کہ ان دنوں موضوعات کی فراوانی ہے اور وجہ یہ کہ سیاست ایک بار پھر زندہ ہو رہی ہے اپنی تمام خوبیوں خرابیوں کے ساتھ لیکن آج میں ایک مہربان کی کرمفرمائی پر فخر کر رہا ہوں۔ اقبال کے بعد وہ اس ملک کے دوسرے بڑے شاعر تھے اور زندگی بھر کی اخباری ملازمت کا مجھے ایک ہی فائدہ ہوا کہ ان کی نگرانی میں کچھ عرصہ کام کرنے کا شرف حاصل ہو گیا۔ ان کی دلآویز مسکراہٹ اور بھیگی ہوئی آنکھوں کی زیارت ہوتی رہی اور ایک نشہ سا طاری رہا۔

یہ تھے جناب فیض احمد فیض جن کی تیسویں برسی منائی گئی۔ میں ایک نظریاتی اخبار کو چھوڑ کر اس کے متضاد نظریاتی اخبار میں چلا گیا لیکن شکر ہے کہ میرا نظریہ جو بھی تھا وہ ان اخباروں کا محتاج نہ تھا۔ میں ہفت روزہ لیل و نہار کی بات کر رہا ہوں جس کے چیف ایڈیٹر جناب فیض احمد فیض تھے۔ اس ادارے کے دو اور اخبار بھی نکلتے تھے پاکستان ٹائمز اور امروز لیکن فیض صاحب زیادہ وقت لیل و نہار میں بیٹھتے تھے۔ اس کا ایڈیٹر سید سبط حسن ان کا پرانا دوست ہم خیال۔ میرے جیسا ایک جونیئر سب ایڈیٹر کبھی کبھار کوئی تحریر دکھانے سبط صاحب کے پاس جاتا تو فیض صاحب کا موڈ ہوتا تو وہ کاغذ پکڑ لیتے کہ دکھائو کیا زور مارا ہے۔

میں احتراماً اور ذرا سا شرمندہ ہو کر بھی یہ تحریر ان کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ اگر ان کی پسند کا موضوع ہوتا تو ٹھیک ورنہ وہ یہ تحریر سبط صاحب کو دے دیتے اور ان سے کہتے کہ یہ روز مرہ کی صحافت آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں اگر کبھی سبط صاحب غیر حاضر ہوتے تو پھر چار و ناچار فیض صاحب کو نظرثانی کرنی پڑتی اور اس طرح اس عظیم صحافی شاعر اور دانشور کے ساتھ کچھ وقت بیٹھنے کا مل جاتا۔ وہ مضمون کی غیر اخباری اور شاعرانہ انداز میں تصحیح کرتے بعد میں مرحوم حسن عابدی کے مشورے پر ہم ان کی شاعرانہ ترمیم کو بدل کر اخباری بنا دیتے۔ اگر اشاعت کے بعد وہ کبھی اسے دیکھ بھی لیتے تو برا نہ مناتے۔

یہ ایک بڑے دل کا انسان تھا اپنی شاعری کی طرح کشادہ دل۔ بیچ میں کچھ وقفہ آ گیا اور میں لیل و نہار چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا پھر ایک دن ان سے انٹرویو کرنا پڑا میں ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا۔ فرمایا تم کہاں گم ہو گئے تھے پھر انٹرویو میں ان سے افغانستان میں روس کی مداخلت پر سوال کیا اور پوچھا کہ کیا آپ روس اور پاکستان کے درمیان مصالحت کرانے پر تیار ہیں۔ اس سوال پر وہ بہت خوش ہوئے اور مکمل آمادگی کا اظہار کیا۔ اس ملاقات میں انھوں نے کافی پلائی اور تحفہ کے طور پر ایک نظم لکھ کر دی۔ ''رئیس المتغزلین'' کے نام مولانا حسرت موہانی کے بارے میں اخباری کاغذ پر انھوں نے اپنے قلم سے لکھ کر یہ تحفہ عطا کیا۔

جناب فیض کی شاعری پر تو میں کچھ عرض کرنے کے قابل نہیں ہوں لیکن ایک عرض کرتا ہوں کہ وہ ایک مسلمان پاکستانی تھے صرف معاشی اصلاحات میں ترمیم چاہتے تھے عربی زبان میں ایم اے کیا تھا اور ان کے کلام میں آپ کو قرآن مجید کی بعض آیات کا شاعرانہ ترجمہ ملے گا سورہ زلزال کا تو انھوں نے گویا ترجمہ بھی کر دیا تھا ''یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی'' اور راج کرے گی خلق خدا۔ آپ اس مختصر سی سورت کا اردو ترجمہ سامنے رکھیں اور فیض کی یہ نظم تو اندازہ ہو گا کہ انھوں نے اس سورت کا کس طرح شاعرانہ ترجمہ کیا ہے ۔

حیران کن۔ وہ گائوں جاتے تو اذان بھی دیتے اور نماز بھی پڑھاتے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک مسلمان کمیونسٹ تھے لیکن مسلمان زیادہ کمیونسٹ کم۔ وہ ایک بڑی ہی دلآویز شخصیت کے مالک تھے ان کی شاعری کی شایان شان شخصیت۔ مجھے افسوس ہے کہ ان کے دوستوں نے ان کے کلام پر تو لکھا اور بہت لکھا لیکن ان کی شخصیت کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ نہیں کیا۔ پاکستان کا یہ شاعر دل سے نہ صرف مسلمان بلکہ بے حد پاکستانی تھا میرے دل میرے مسافر والا۔ بہر کیف میں اس قابل نہیں کہ ان کی ذات گرامی کے بارے میں کچھ عرض کر سکوں۔

ایک پولیس افسر کی کتاب موصول ہوئی جس میں ان کے چند مطبوعہ مضامین اور کالم درج کیے گئے ہیں۔ کتاب کا نام ہے ''دو ٹوک باتیں''۔ یہ نام صرف 'دو ٹوک' تک محدود بھی رکھا جا سکتا تھا۔ مجھے اطمینان اس بات کا ہے کہ فوجیوں کے بعد پولیس والوں نے بھی لکھنا شروع کر دیا ہے جب کہ پولیس والوں کو فوجیوں سے زیادہ لکھنا چاہیے تا کہ ان کا مشاہدہ اور عوام کے حالات کا علم ان سے زیادہ کسی کو نہیں ہوتا لیکن ہمارے سیاستدانوں نے پولیس کو اس قابل نہیں رہنے دیا کہ وہ آزادی کے ساتھ کچھ لکھ سکیں اس لیے خاموشی ہی بہتر ہے ورنہ تھانے کے ایک منشی سے لے کر اس کے ایس ایچ او تک اپنے اپنے علاقے کے سیاستدانوں کو ان کی مائوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ ان کے تمام جرائم پولیس کے پاس ہوتے ہیں لیکن یہ ایک ایسی امانت ہے جس کی حفاظت مجبوری ہے۔

دو ٹوک باتوں کے مصنف کو میں ایک عرصہ سے جانتا ہوں اور ان کی دیانت و امانت کا عینی شاہد ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خوبصورت شکل و صورت اور شاید اس سے زیادہ خوبصورت کردار دیا ہے لیکن وہ کئی دیانت دار پولیس والوں کی طرح روکھے پھیکے اور بے کار نہیں ہیں جن کی دیانت و امانت صرف بے سفارش اور بے سہارا عوام پر ٹوٹتی ہے اور اپنے جوہر کسی بڑے آدمی پر دکھاتی ہے درست کہ اونچے لوگوں کو ہی قانون کی زد میں لانا چاہیے لیکن عام آدمیوں کو بھی حوصلہ دینا اور ان کی دلجوئی کرنا دیانت کا جزو اعظم ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ چیمہ صاحب کا پورا خاندان ہی اچھے اور خدا ترس لوگوں کا خاندان ہے ۔

جس کے وہ ایک فرد ہیں۔ ان کی یہ کتاب پولیس کے افسروں ہی نہیں عام ملازمین کے لیے بھی مشعل راہ ہو سکتی ہے۔ تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ساڑھے سات سو روپے ہے اور خاص بات یہ ہے کہ اس کا پبلشر بھی میری اکلوتی کتاب کا پبلشر ہے۔ کتاب کے موضوعات ملکی اور غیر ملکی بھی ہیں اور چیمہ صاحب قارئین کو سفر و حضر میں اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ عنقریب اپنی شاندار ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے والے ہیں اور انھوں نے یہ مشکل ملازمت جس جرات کے ساتھ کی ہے اس کو سامنے رکھیں تو حکومت کو ایسے تجربہ کار نوجوان افسروں کو ریٹائر کر کے خواب گاہوں کے حوالے نہیں کر دینا چاہیے (چیمہ صاحب کی تو خواب گاہ بھی کوئی نہیں) ایسے افسروں سے کام لیں اور ان کے تجربے اور کردار کو قوم کے لیے استعمال کریں۔

میرے بھائی اور بڑے ہی محنت کش جناب منیر احمد منیر نے کئی یاد گار کتابیں اس قوم کی خدمت میں پیش کی ہیں ان کی ایک کتاب مولانا ابو الکلام آزاد کی بعض غلط فہمیوں یا ان کے نقادوں کے بقول ان کی غلط بیانیوں پر مشتمل ہے۔ دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے لیکن میں حضرت مولانا کی بے مثال علمی عظمتوں کو سامنے رکھ کر اور ان کی بلاشبہ نادر روز گار شخصیت کے احترام میں اس کتاب پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔

امام الہند مولانا آزاد کے بارے میں احترام کی ہر حد سے گزر جانا مناسب نہیں ہے اور یہ خاکسار مولانا کے علمی مقام کے سامنے سر جھکاتا ہے اور ان کے بارے میں اس متنازعہ کتاب کو ادب کے ساتھ محفوظ کر لیتا ہے۔ مولانا آزاد کی ہمہ گیر شخصت صرف دینی علوم کی ماہر ہی نہیں تھی اردو ادب میں بھی ان کا بہت بڑا مقام تھا۔ ان کی ذات گرامی کے بارے میں زیادہ لکھ نہیں سکتا۔ لیکن ان کے احترام کی درخواست ضرور کرتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں