روزمرہ کام کاج نمٹاتے جب ہو جائے ’بھوت‘ سے ملاقات

ع محمود  اتوار 23 نومبر 2014
تنہائی میں کسی غیرمرئی وجود کی موجودگی کا انوکھا احساس سائنس کی کسوٹی پہ کیسا اترا؟…ایک دلچسپ تحقیق۔ فوٹو: فائل

تنہائی میں کسی غیرمرئی وجود کی موجودگی کا انوکھا احساس سائنس کی کسوٹی پہ کیسا اترا؟…ایک دلچسپ تحقیق۔ فوٹو: فائل

رات یا دن کو معمول کے مطابق کام کرتے ہوئے آپ نے کبھی کبھی ضرور محسوس کیا ہوگا کہ کمرے میں آپ کے ساتھ یا پیچھے کوئی دوسرا ذی حس بھی موجود ہے …حالانکہ اس جگہ کوئی موجود نہیں ہوتا! اس عجیب کیفیت کو بعض لوگ ’’وہم‘‘ کہتے ہیں۔

دیگر نے اس غیر مرئی وجود کا نام ’’بھوت‘‘ رکھا ہوا ہے ۔جبکہ جدید تعلیم سے شناسا لوگ بھوت پریت پر یقین رکھنے والے کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔‘‘

دلچسپ بات یہ کہ بھوتوں اور روحوں کے وجود پہ یقین رکھنے والے مرد وزن پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ چناں چہ چالاک و عیار لوگ دوسروں کے اس اعتقاد سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں کئی نام نہاد روحانی رہنما یا پیر دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے قبضے میں جنّ بھوت ہیں۔ ان سے وہ جو مرضی کام کراسکتے ہیں۔ لہٰذا دیہاتی و ان پڑھ افراد ان روحانی بزرگوں کی مانگیں پوری کر کے اپنے کام کرانے کی سعی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تُکا لگ جائے، تو الگ بات ہے، ورنہ اکثر لوگ بھوتوں کے پیچھے اپنی جمع پونجی لٹا بیٹھتے ہیں۔

راقم کا بچپن لاہور کے محلہ کلفٹن کالونی میں گزرا ہے۔ وہاں ایک خاتون اندھیرے کمرے میں لوگوں کے فوت شدہ پیاروں کی روحیں بلایا کرتی تھی۔ ایک ایسی ہی محفل میں شرکت کی دھندلی یاد راقم کے ذہن میں محفوظ ہے۔ مگر یاد نہیں، اس تنگ و تاریک کمرے میں روحیں آئی تھیں یا نہیں؟یہ تصّور کہ پیاروں کی روحیں ہمیں دیکھ رہی ہیں، یقینا ہر انسان کو انبساط و تسکین دیتا ہے۔ پھر ہمارے مذہب کی رو سے بھی روحیں بلکہ جن بھی وجود رکھتے ہیں۔ گو اسلامی تعلیمات کی رو سے جنوں کی دنیا علیحدہ ہے جس کا ہم مشاہدہ نہیں کرسکتے۔

دلچسپ بات یہ کہ سائنس بھی روح و جنّ کی موجودگی تسلیم کرتی ہے۔ آئن سٹائن کا نظریہ بتاتا ہے کہ ایک دفعہ جو توانائی (Energy) پیدا ہوجائے وہ تباہ نہیں ہوسکتی… صرف اشکال بدلتی رہتی ہے۔ لہذا سوال یہ ہے کہ جب انسان یا حیوان مرجائے، تو اس کی توانائی (روح یا نفس) کہاں جاتی ہے؟

قرآن و سنت کے مطابق بعداز موت انسان کی روح جنت یا دوزخ میں پہنچتی ہے۔ تاہم یہ قیام عارضی ہے۔ روزِ حشر گناہوں و نیکیوں کے حساب سے ہر انسان کے دائمی ٹھکانے کا فیصلہ ہوگا۔

ہمارے ہاں روح کی ایک قسم ’’بدروح‘‘ بھی پائی جاتی ہے۔ مگر دین کی رو سے یہ کوئی وجود نہیں رکھتی۔ وجہ یہی کہ مرنے کے بعد ہر مسلمان کی روح جنت یا جہنم میں پہنچ جاتی ہے۔ اِدھر اُدھر بھٹکتی نہیں پھرتی جیسا کہ ہندوئوں کا عقیدہ ہے۔اس عقیدے پہ بالی وڈ میں کئی فلمیں بھی بن چکیں۔

تاہم سائنس داں بھوت پریت،روح، جنّ وغیرہ پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انسان سمیت جو بھی ذی حس چل بسے، اس کی توانائی بہ شکل حرارت (Heat) لاش کھانے والوں یعنی جراثیم، کیڑوں یا جانوروں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ گویا انہیں دعویٰ ہے،ہماری توانائی ماحول (Enviroment) ہی کا حصہ بنتی ہے۔ لیکن یہ بھی محض ایک نظریہ ہے۔ ممکن ہے کہ انسانی توانائی (بہ شکل روح) کسی اور علاقے (جنت یا دوزخ) کا رخ کرتی ہو! سائنس تو حال کی پیداوار ہے، اللہ تعالیٰ سوا چودہ سو سال پہلے قرآن پاک میں فرما چکے :’’اور یہ (کفار) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ روح میرے خدا کا معاملہ ہے اور انسان کو اس کے بارے میں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔‘‘ (17:85)

بات شروع ہوئی تھی اس غیر مرئی وجود سے جو روزمرہ کام کاج کے دوران اکثر ہم سے ٹکرا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ تندرست مرد و زن بھی اس کی موجودگی محسوس کرکے چونک جاتے اور پھر کچھ خوفزدہ ہوتے ہیں ۔جبکہ نفسیاتی امراض میں مبتلا لوگ یا کوئی دشوار گزار کام مثلاً کوہ پیمائی کرتے افراد تو باقاعدہ اس پُراسرار ہستی کو دیکھتے ہیں۔

1933ء میں مشہور برطانوی کوہ پیما، فرینک سمتھی نے مائونٹ ایوریسٹ سر کرنے کی کوشش کی تھی۔ دوران چڑھائی وہ محسوس کرنے لگا کہ کوئی انسان اس کے ساتھ ہے حالانکہ وہ بالکل تنہا تھا۔ ایک بار تو اس نے اپنے اجنبی ساتھی کو کافی بھی پیش کر ڈالی۔ یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ ایک سخت اور کٹھن کام کرتے ہوئے انسان وہموں کا نشانہ بن سکتا ہے۔تنہائی میں کسی نظر نہ آنے والے وجود کی موجودگی محسوس کرنے کا عمل سائنسی اصطلاح میں ’’موجودگی کا احساس‘‘ (Feeling Of Presence) کہلاتا ہے۔ سائنس دانوں کی نگاہ میں یہ وہم کی ایک قسم ہے۔ دیگر اقسام میں ’’جسم سے باہر ہونے کا احساس‘‘ ( Out-Of-Body Experiences) اور ڈوپل گینگر اثر ( Doppelgänger Effect) شامل ہیں۔ اس اثر میں مبتلا انسان اپنے ہم شکل کو دیکھتا اور باتیں کرتا ہے۔

کئی چیزوں کی طرح وہم بھی نیک یا بد خصوصیات رکھتا ہے۔ جب نیک ہو، تو ’’چھٹی حس‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ روحانی کیفیت عموماً مثبت معنی میں لی جاتی ہے کیونکہ کسی خطرے سے بروقت خبردار کرکے انسان کو نقصان سے بچاتی ہے۔ بد ہونے کی صورت میں وہم ’’گمان‘‘ بن جاتا ہے۔ اور یہ ذہنی کیفیت عام طور پر منفی معنی رکھتی ہے۔ مثال کے طور پہ قرآن و سنت میں مسلمانوں پر زور دیا گیا ہے کہ دوسروں کے متعلق زیادہ گمان نہ رکھیں، وجہ یہی کہ وہ انسان کو بھٹکاتے اور گمراہ کرتے ہیں۔

گویا وہم بذات خود بری شے نہیں، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ اسی لیے کئی دانشوروں نے وہم کو تعریف وتوصیف سے نوازا ۔ مثلاً آئرش ڈرامہ نگار، آسکر وائلڈ کہتا ہے: ’’تمام لذتوں میں سب سے پہلی لذت وہم ہے۔‘‘ امریکی ہنگری نژاد برطانوی ادیب، آرتھر کوسٹلر لکھتا ہے:’’ وہم کی موت سب سے بڑا غم ہے۔‘‘ جبکہ امریکی ادیبہ، آئرس مردوخ کہتی ہے: ’’انسان ایک تصّوراتی، وہموں کی دنیا میں بستا ہے۔ انسانی زندگی کا کٹھن کام یہ ہے کہ اس میں سے حقیقت تلاش کرے۔‘‘

کہتے ہیں، وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا، مگر ایک سوئس ماہر اعصاب (نیورو سائنسٹسٹ) نے یہ ضرور دریافت کرلیا کہ ’’موجودگی کا احساس‘‘ انسان میں کہاں اور کیوں جنم لیتا ہے۔ اس دریافت کی داستان خاصی دلچسپ ہے۔

ہوا یہ کہ چھ ماہ قبل سوئس ماہر اعصاب، ڈاکٹر اولف بلنک کے پاس مرگی کی ایک مریضہ لائی گئی۔ مرگی بھی ان گنے امراض میں شامل ہے جن کا علاج طبی سائنس بے پناہ ترقی کے باوجود تلاش نہیں کرسکی۔ بس یہ معلوم ہے کہ مرگی دماغ میں کوئی چول یا چولیں ڈھیلی ہونے سے جنم لیتی ہے۔

ڈاکٹر اولف نے مریضہ کو ایک مشین میں بٹھایا اور اس کے ایک دماغی حصّے، پاریٹئل لوب(Parietal lobe) کو بجلی کے معمولی جھٹکے دیئے۔جب بھی جھٹکا دیا جاتا، تو مریضہ کبھی مڑ کر دیکھتی، کبھی دائیں بائیں دیکھنے لگتی جیسے کسی کو تلاش کررہی ہو۔ یہ دیکھ کر ڈاکٹر اولف خاصا حیران ہوا۔ دریافت کرنے پر مریضہ نے بتایا ’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے آس پاس کوئی اور ذی حس بھی موجود ہے۔‘‘

واضح رہے،پاریٹئل لوب ہی وہ دماغی علاقہ ہے جہاں ہمارے سننے،دیکھنے خصوصاً چھونے سے متعلق اعضاسے آنے والے پیغامات کو ملا کر یہ معین و منضبط تصویر بنتی ہے کہ ہم کیا سن،دیکھ اور چھو رہے ہیں۔مثال کے طور پر آپ ٹی وی دیکھ اور سن رہے ہیں۔ چناں چہ آنکھوں اور کانوں کے آخذے (Receptors) بذریعہ اعصاب ٹی وی دیکھنے و سننے سے متعلق برقی پیغامات مسلسل اور بڑی تیزی سے پاریٹئل لوب تک بھجواتے ہیں۔ وہاں جب مختلف اعضا سے آنے والے پیغامات ترتیب پا جائیں تبھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فلم میں ہیرو ہیروئن سے عشق فرما رہا ہے یا غنڈوں سے بھڑچکا۔

ڈاکٹر اولف کو پہلے بھی مرگی اور نفسیاتی بیماری شیزو فرینیا کے کئی مریضوں نے بتایا تھا :’’ہمیں اکثر لگتا ہے کہ ہمارے پیچھے کوئی ذی حس کھڑا ہے اور وہ نقصان پہنچانے کے لیے ہمیں چھونے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر اولف نے اس عجوبے کا مزید مطالعہ کرنے کی خاطر ایک تجربہ کیا۔انہوں نے ایک ایسا روبوٹ بنایا جس کے دو ہاتھ تھے۔ ایک سامنے سے ہاتھ ملاتا، دوسرا پیچھے سے۔ سامنے والے مشینی ہاتھ پر انگلی پھیری جاتی تو پیچھے والا ہاتھ بھی خود کار انداز میں آگے پیچھے حرکت کرتا۔ اس پچھلے ہاتھ کا کنٹرول ڈاکٹر اولف نے اپنے پاس بھی رکھا۔

اب بیس مردوزن تجربہ گاہ میں لائے گئے۔ ان میں مرگی و نفسیاتی امراض کے مریض شامل تھے اور تندرست افراد بھی۔ انہیں یہی بتایا گیا کہ ایک نئے روبوٹ کا تجربہ کرنا مقصود ہے۔ دوران تجربہ ایک فرد کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ اورکانوں پر ہیڈفون چڑھا اسے دونوں مشینی ہاتھوں کے درمیان کھڑا کردیا جاتا۔ مدعا یہ تھا کہ وہ اپنے احساسات پر توجہ مرکوز کرسکے۔

دوران تجربہ ہر مرد یا عورت اگلے مشینی ہاتھ کی ہتھیلی پر انگلی پھیرتا، تو پچھلا ہاتھ بھی پشت پر ٹہوکے دینے لگتا۔ لیکن ایک منٹ بعد ڈاکٹر اولف پچھلے ہاتھ کی حرکت میں دو تین سیکنڈ کا وقفہ دے دیتا۔ یوں وہ کچھ دیر بعد حرکت کرتا۔ جب یہ وقفہ دیا جاتا،تو 75 فیصد مردو عورتوں نے محسوس کیا کہ وہاں کوئی دوسرا شخص بھی موجود ہے جو ان کی کمر پر ٹہوکے دے رہا ہے۔ بعض خواتین تو اتنی خوفزدہ ہوئیں کہ آنکھوں پر بندھی پٹی اتار کر پیچھے دیکھنے لگیں۔یوں اس انوکھے تجربے سے معلوم ہوا کہ تنہائی میں کئی غیر مرئی وجود کی موجودگی کا احساس پاریٹئل لوب میں ترتیب پاتے پیغامات کی بے ترتیبی سے جنم لیتا ہے۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا،پاریٹئل لوب ہی وہ دماغی علاقہ ہے جہاں تمام جسمانی اعضا سے آنے والے پیغامات ترتیب پا کر کسی وقوع پذیر ہوتے عمل کی تصویر دکھاتے ہیں۔ جب پاریٹئل لوب میں کوئی خرابی جنم لے تو پھر وہ پیغامات کو منظم طریقے سے ترتیب نہیں دے پاتا۔ اسی انتشار ِخیالات کے باعث انسان کو تنہائی میں کسی غیر مرئی وجود یا بھوت کی موجودگی کا نرالا احساس ہوتا ہے۔

اب درج بالا تجربے کا نتیجہ ہی دیکھیے۔ ہر مرد وزن کو علم تھا کہ اگلے مشینی ہاتھ کی ہتھیلی میں انگلی کی حرکات کے مطابق پچھلا مشینی ہاتھ بھی اوپر نیچے اور دائیں بائیں حرکت کرے گا۔ پہلے ایک منٹ تو انگلی اور پچھلا ہاتھ، دونوں ایک ساتھ حرکت کرتے رہے ۔لیکن جب ڈاکٹر اولف دانستہ پچھلے ہاتھ کی حرکت میں دوسیکنڈ کا وقفہ لے آئے،تو انگلی اور ہاتھ کی حرکات مختلف انداز میں انجام پانے لگیں۔

حرکت کے اسی اختلاف نے سبھی مردوزن کا ذہن گڈمڈ کر دیا ۔ان میں جو زیادہ حساس یا نفسیاتی مریض تھے،تب انھیں یہی محسوس ہوا کہ اس جگہ کوئی دوسرا موجود ہے۔چناں چہ وہ کچھ ڈر سے گئے۔ ڈاکٹر اولف نے مذید تحقیق کی خاطر ایک اور تجربہ کیا۔انھوں نے اپنے چار ساتھیوں کو تجربہ گاہ میں کھڑا کر دیا۔پھر تجربے میں شامل مردوزن کو بتایا’’آپ جب مشینی ہاتھوں کے درمیان کھڑے ہوں گے،تو یہ ساتھی بھی آپ کو چھوئیں گے۔آپ نے بعد ازاں یہ بتانا ہے کہ آپ کو کتنی بار چھوا گیا؟‘‘

دوران تجربہ دس مردوزن پہ انگلی اور پچھلے مشینی ہاتھ کی حرکات یکساں رکھی گئیں۔یعنی ہاتھ کی حرکت میں دو تین سیکنڈ کا وقفہ نہیں دیا گیا۔بعد ازاں دس میں سے دو نے کہا کہ انہیں دو بار چھوا گیا۔ حالانکہ کسی محقق نے نہیں چھوا تھا۔اس تجربے کا بھی یہی نتیجہ نکلا کہ چار لوگوں کی موجودگی سے تو انسانی دماغ بھی تردد و گھبراہٹ کا شکار ہوگیا۔ اسی گھبراہٹ کے بطن سے پھر یہ تصّور جنم لیتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ہستی موجود ہے۔

گویا آئندہ کبھی آپ کو اردگرد کوئی ہیولا دکھائی دے، یا محسوس ہو، تو اسے نظرانداز کردیجیے۔ یہ صرف آپ کے دماغ کا فتور ہے جو پاریٹئل لوب میں پیغامات کے گڈمڈ اور بے ترتیب ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ اپنا دماغ درست کیجیے اور لو، ہیولا غائب ہوگیا۔ بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں: ’’اپنے خیالات بدل لو تو دیکھو گے کہ تمہاری دنیا بھی بدل جائے گی۔

دماغ کا اہم حصہ

ماہرین نے انسانی دماغ کو چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔پاریٹئل لوب دماغ کا دوسرا اہم حصہ ہے۔ یہ حصہ خصوصاً چھونے کے احساس سے متعلق ہے۔ اگر اس حصے کی نسوں میں کوئی خرابی جنم لے، تو انسانی جلد چھونے کی حس ہی کھو بیٹھتی ہے۔ اسی حصے میں موجود عصبی خلیے (نیورون) لکھنے، تصویر بنانے اور گنتی کرنے کے عمل کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔نیز یہ دیگر حصوں کے ساتھ مل کر دیکھنے اور سننے کی حسوں کو منضبط کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔