دفاعی ساز و سامان کی نمائش

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 10 دسمبر 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

شاید انسانی زندگی کی ابتدا ہی سے انسان کو خوراک اور اپنے تحفظ کے دو اہم ترین مسائل درپیش آئے ہوں گے۔ پہلے پہل اسے اپنی ذاتی کے تحفظ اور دفاع کا مسئلہ درپیش ہو گا۔ پھر یہ سلسلہ خاندان، قبیلہ، ذات، برادری، مذہب و ریاست کے تحفظ و دفاع سے ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا آج بین الاقوامی بلکہ کائناتی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ بڑی عالمی قوتیں زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں پر بھی اپنے مفادات، تسلط و بالادستی کے لیے سرگرداں ہیں۔ انسان کی دو بنیادی ضروریات خوراک اور تحفظ پھیل کر معیشت اور دفاع کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔

دنیا کی تمام سیاست، دوستیاں اور دشمنیاں بھی ان ہی کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ آج کی ترقی یافتہ سائنسی زندگی میں جنگیں، دفاع اور سامان حرب کی تیاری و فراہمی بھی یکسر مختلف صورت اختیار کر چکی ہے۔ اسلحہ دشمن ملکوں سے بھی خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ معاہدات دوستوں کے علاوہ دشمنوں و رقیبوں کے ساتھ بھی کیے جاتے ہیں، ان میں کچھ لو اور دو کا اصول اور سیاسی بلیک میلنگ اور مجبوری کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ دنیا کے ممالک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ دفاع کے لیے مختص کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی دفاعی و حربی صلاحیتوں اور سامان حرب پر بازی لے جانے کے لیے شب و روز کوشاں رہتے ہیں۔ ان کے سائنس دان و انجینئر نئی نئی تحقیق اور ایجادات میں سرگرداں رہتے ہیں تا کہ حربی صلاحیت کے لحاظ سے کسی دشمن ملک سے کسی طرح کم نہ رہیں۔ کمزور و کمتر دفاع اور معاشی صورتحال کے حامل ممالک کو زیر نگوں کرنے کے لیے بھی ان صلاحیتوں کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

اپنی دفاع اور حربی صلاحیتوں اور اس کے لیے مطلوبہ ضروریات سے پاکستان کبھی غافل نہیں رہا خاص طور پر اس کی جیوپولیٹیکل اور اسٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے ملک کے لیے دفاعی اعتبار سے خودکفیل ہونا اور ناقابل تسخیر اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہونا انتہائی ضروری ہے، اس کے تین پڑوسی ممالک چین، روس اور ہندوستان ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں۔ جنگوں کی نوبت بھی پہنچ چکی ہے۔

ہندوستان سے تو مسلسل کشیدگی و نبردآزمائی کی صورتحال جاری رہتی ہے۔ دنیا کے ممالک دو حصوں میں بٹ چکے ہیں ایک وہ جو اسلحہ و سامان حرب کی خریداری پر خطیر رقوم خرچ کر رہے ہیں اور دوسرے وہ ممالک جو اسلحہ اور جنگی ساز و سامان کی فروخت سے خطیر سرمایہ کما رہے ہیں اور اپنے سیاسی و معاشی مفادات اور مقاصد بھی حاصل کر رہے ہیں اور کمزور ملکوں کا معاشی، سیاسی اور عسکری دفاعی استحصال بھی کر رہے ہیں، لہٰذا پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی حفاظت اور قومی تشخص اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ کسی کا دست نگر بننے کے بجائے دفاعی و عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا جائے، اسی حکمت عملی کے تحت کراچی کے ایکسپو سینٹر میں دفاعی ساز و سامان سے متعلق آٹھویں بین الاقوامی نمائش آئیڈیاز 2014ء منعقد کی گئی اس چار روزہ نمائش میں ڈھائی سو سے زائد غیر ملکی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات نمائش کے لیے پیش کیں۔

نمائش میں 50 سے زائد ملکوں کے 88 وفود نے شرکت کی، جس کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’’ملک کی خودمختاری کا تحفظ آزاد ملک کی اولین ترجیح ہوتی ہے، قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ریاست کو ہر دم تیار رہنا ہے، جدید ترین دفاعی نظام صرف ترقی یافتہ ملکوں کا ہی استحقاق نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اس وقت ایک جدید ترین دفاعی نظام موجود ہے۔ پاکستان کے دفاعی ہتھیار جدید اور اعلیٰ معیار کے ہیں نمائش میں غیر ملکیوں کی آنکھیں کھلی رہ گئی ہیں کہ پاکستان دفاعی نظام میں اس قدر آگے نکل گیا ہے۔ پاکستانی اسلحہ اور دفاعی آلات معیار میں بہترین اور کم قیمت ہونے کی وجہ سے عالمی کمپنیوں کی دلچسپی کا محور بنے ہوئے ہیں۔‘‘

اس نمائش کا مقصد اپنی مصنوعات کو متعارف کرانے کے لیے عالمی سطح کا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا، اس کے کامیاب انعقاد سے ملک کا مثبت تشخص اجاگر ہوا اور پاکستان کی جدید ترقی کے حامل پرامن ملک کے طور پر شناخت ابھری جو عالمی برادری کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا ہے۔ نمائش میں شریک مندوبین حیران تھے کہ پاکستان اور کراچی ایک جدید پرامن جگہ ہے جس کے متعلق وہ غلط فہمی کا شکار تھے۔ پاکستان روایتی اور جدید ترین ہتھیار بنا رہا ہے اور برآمد بھی کر رہا ہے جس سے دفاعی صنعت سے بالواسطہ اور بلاواسطہ لاکھوں افراد کا روزگار بھی چل رہا ہے۔ نمائش میں زیادہ تعداد غیر ملکی کمپنیوں کی تھی جنھوں نے پاکستان کو درپیش سیکیورٹی خدشات کے مطابق سرویلنس سسٹم، جدید کمیونیکیشن سسٹم، دھماکا خیز مواد کی نشاندہی کرنے والے آلات، جیمرز، تابکاری کی نشاندہی کرنے، نگرانی والے آلات، واک تھروگیٹ، بلٹ پروف و بم پروف گاڑیاں اور حفاظتی جیکٹس وغیرہ نمائش کے لیے پیش کیں۔

پاکستان نے ٹینک الخالد، الضرار اور چین کے تعاون سے تیار کیے گئے JF-17 تھنڈر طیارے اور بکتر بند گاڑیاں و دیگر ہتھیار اور آلات نمائش کے لیے پیش کیے۔ کامرہ ایروناٹیکل کمپلیکس پچاس JF-17 طیارے تیار کر کے پاک فضائیہ کے حوالے کر چکی ہے مزید کھیپ تیار ہو رہی ہے جو فضائیہ کی ضروریات پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے نمائش کے دوران ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا اور ترکی کے درمیان دفاعی سامان کی تیاری اور ان میں اپ گریڈیشن کا معاہدہ طے پایا۔ روس پہلی مرتبہ اپنی مصنوعات کے ساتھ شریک ہوا اور اس سے مشترکہ منصوبوں کے سلسلے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

پاکستان کا بغیر پائلٹ طیارہ شہپر اور پی او ایف کی ’’یوف آئی‘‘ نامی بندوق عام لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہی، یہ بندوق 90 ڈگری تک گھوم کر دیوار کے پیچھے یا کسی کمرے میں موجود دشمن کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس میں آڈیو ویڈیو سسٹم، ڈیجیٹل کیمرہ، ایل سی ڈی ڈسپلے اسکرین ہدف کی نشاندہی کرنے والی لیزر لائٹ اور 5 سو میٹر تک یہ تمام سہولیات فراہم کرتی ہے اگلے مرحلے میں مزید تحقیق کے ذریعے اسے اندھیرے میں دیکھنے کی سہولت سے بھی مزین کیا جائے گا۔ اسرائیل کے بعد پاکستان دوسرا ملک ہے جس کے پاس اس قسم کی گن ہے جو معیار میں اسرائیلی گن سے زیادہ اور قیمت میں نصف ہے۔ دنیا کے ممالک اس میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں لیکن اولین ترجیح اسے مسلح افواج و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کرنا ہے جس کا وزیرستان آپریشن میں کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے۔

نمائش کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ عصر حاضر میں غیر ریاستی عناصر ریاستوں کے لیے بڑا خطرہ ہیں غیر ریاستی عناصر پر قابو نہیں پایا گیا تو صورتحال گمبھیر ہو سکتی ہے۔ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ملکی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں ملکی سیکیورٹی ہمسایہ ملکوں کی سیکیورٹی پر منحصر ہے انھوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل سے خطے کی سیکیورٹی خطرے میں پڑسکتی ہے اندرون سیکیورٹی سے ہی بیرونی خطرات سے نمٹنا آسان ہے صرف بارڈر سیکیورٹی سے ملک کی اندرونی سیکیورٹی ممکن نہیں ہمیں غربت، بیروزگاری، خوراک اور پانی کی کمی کے چیلنجز کا سامنا ہے مذہب اور گروہی شناخت بھی جنگوں کی نئی وجوہات بن رہی ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے نئے وژن کی ضرورت ہے جس کے لیے ہر ادارے کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

آرمی چیف کے خطاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علاقائی و بین الاقوامی سطح پر بدلتے ہوئے حالات اور سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔ دوسری جانب لندن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے خطرہ ہے، اس سلسلے میں بلاتفریق کارروائی کریں گے، اس موقعے پر انھوں نے 9 نکاتی پروگرام برائے ترقی و استحکام افغانستان پیش کیا جس میں افغانستان کی خودمختاری و علاقائی سالمیت، وہاں کے عوام کا احترام کرنا، مالیاتی امداد کے ذریعے محفوظ و خودکفیل افغانستان کی راہ ہموار کرنا، ترقیاتی عمل میں تعاون کرنا، منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کے خلاف کوششوں میں مدد کرنا، 50 لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے راہ ہموار کرنا، پشاور کابل موٹروے اور ریل رابطے جیسے منصوبوں میں مدد فراہم کرنا اور مواصلاتی اور توانائی کی راہداریوں کی حمایت کرکے افغانستان کو بطور ’’زمینی پل‘‘ تصور کرنے کا نفاذ کرنا شامل ہیں۔

ملک کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت جس عزم اور سیاسی بصیرت کا اظہار کر رہی ہے وہ نہایت حوصلہ افزا اور خوش آیند ہے اگر یہی جذبہ کارفرما رہا تو ملکی تحفظ، تشخص اور استحکام پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔