بات کچھ اِدھر اُدھر کی سوچنا فائدہ مند ہے

معاشرے میں ہنر مند افراد کا قحط ہے۔ ڈگری ہولڈرز کے پاس تجربہ نہیں کیونکہ ہمارا نظام تعلیم صرف ڈگری دیتا ہے تجربہ نہیں۔


عقیل احمد December 30, 2014
کاروبار کے نئے انداز، طلباء کی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی مستقبل کیلئے اچھے مشورے دینے کیلئے ہمیں مشاورتی مراکز بنانے ہونگے۔ ترقی یافتہ ممالک ایسا ہی کرتے ہیں ہمیں بھی اب ایسا کرلینا چاہیے۔ فوٹو: اے ایف پی

KARACHI: ہر انسان کے دماغ میں ہمہ وقت مختلف اقسام کے خیالات اور سوچیں یلغار کرتی رہتی ہیں۔ کچھ لوگ ان میں سے کسی کار آمد سوچ پر عمل کرتے ہوئے اسے اپنی یا دوسروں کی بہتری کے لئے اپنی سعی شروع کر دیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اپنے خیالات کو وہیں دفن کردیتے ہیں وہ اپنا دماغ سے مختلف آپشنز پر غور تو کرتے ہیں مگر کچھ نیا شروع کرنے یا کسی ایک پر عمل کرنے کے بجائے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

زمانے کی جدت اور تیز رفتاری کو دیکھتے ہوئے دنیا میں کچھ ایسے ادارے بنائے گئے جن میں کام کرنے والے لوگوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ بیٹھ کر سوچیں اور بتائیں کہ ہم معاشرتی، نفسیاتی، دفاعی اور اسی نوعیت کے دوسرے مسائل کس طرح حل کر سکتے ہیں۔ امریکہ پر نائین الیون کے حملوں کے بعد ایسے ادارہ جات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا جو لوگوں کے لئے سوچتے تھے اور لوگوں کے دل و دماغ کو مثبت سمت میں رکھنے کے لئے میدان عمل میں آئے۔ انہی اداروں کو آج کل عرف عام میں تھنک ٹینکس کہا جاتا ہے۔

ہم پاکستانی نسبتاً غیر ترقی یافتہ لوگ ہیں اور معاشرے میں ہماری پہلی ترجیح دولت کمانا ہے۔اسی لئے اکثریت پاکستانیوں کی ابھی بھی حیران ہو کر پوچھتی ہے کہ کیا صرف سوچنے کے بھی پیسے ملتے ہیں؟

پاکستان کے بڑے شہروں کو چھوڑ کر اگر ہم باقی ملک پر نظر دوڑائیں تو لگتا ہے کہ یہ کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں۔ آج سے سو سال پرانے روایتی طور طریقے سے کاروبار کو چلایا جا رہا ہے۔ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لئے چالاکیوں، ریشہ دوانیوں یا غلط اطلاعات کا سہارا تو لیا جاسکتا ہے لیکن کوئی جدت، کسی نئے انداز سے مارکیٹنگ نہیں کی جاتی۔ جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں آپ کو چیز کی پروڈکشن سے لے کر صارف کے ہاتھ پہنچانے تک کے لئے بہترین آئیڈیاز والے دماغ چھوٹے چھوٹے تھنک ٹینکس کی صورت میں ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ جب کے پاکستان میں حالات اس سے قطعی مختلف ہیں۔ وکی پیڈیا کے مطابق اس وقت پورے ملک میں صرف 15 تھنک ٹینکس کام کر رہے ہیں اور ان میں سے بھی محض 10 مکمل طور پر فعال ہیں۔

ملک کے ان تمام چھوٹے چھوٹے نسبتاً غیر ترقی یافتہ شہروں سے دھڑا دھڑ بی اے اور ایم اے پاس نوجوان لڑکے لڑکیاں کی تعداد میں اضافہ تو ہو رہا ہے مگران کے لئے کوئی یہ نہیں سوچ رہا ہے کہ ان کے روزگار کے لئے مواقع کہاں سے پیدا ہوں گے؟ انہیں کیا پڑھنا چاہئے؟ کیا ان کے لئے بہتر ہو گا؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ سب کچھ بتانے کے لئے ایسے شہروں میں کوئی ادارہ ہی نہیں ہے۔ وہ این جی اوز جو تعلیم کے نام پر ڈالرز میں امداد لیتی ہیں انہوں نے بھی اس طرح کی رہنمائی کے لئے کوئی پلیٹ فارم مہیا کرنے کا نہیں سوچا۔

اس کے نتیجے میں جو نقصان ہو رہا ہے شاید اس کا ادراک ابھی ہمارے پالیسی سازوں کو ہے ہی نہیں۔ معاشرے میں ہنر مند افراد کا قحط ہے۔ جو ڈگری ہولڈر ہیں ان کے پاس کسی قسم کا تجربہ نہیں ہے کیونکہ ہمارا نظام تعلیم صرف ڈگری دیتا ہے تجربہ نہیں۔

وقت کی ضرورت یہ ہے کہ حکومتی طور پر نہ سہی ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت کم از کم ضلع کی سطح پر مشاورتی مراکز کا قیام عمل میں لانا ہو گا جہاں سے لوگوں کو کاروبار کے نئے انداز، طلباء کی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی مستقبل کی پڑھائی کے لئے اچھے مشورے دینے ہوں گے۔ حقیقت میں ہمیں اپنے اچھے خیالات اور افکار جن کی پیروی کر کے کسی آدمی کا اچھا مستقبل بن سکے وہ آئیڈیاز لوگوں کو بتانے ہوں گے۔

ہمیں اس دنیا کو ایسے دیکھنا ہو گا جیسے عامر خان اپنی نئی فلم پی کے میں اپنا ریموٹ گم ہونے کے بعد دیکھتا ہے وگرنہ ہوگا وہی جو ابھی ہورہا ہے یعنی صرف نقصان نقصان نقصان۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

مقبول خبریں