ایک صوفی کی بے ہوشی اور ایک جعلی اخبار
اب چلتے ہیں سیاست کی طرف۔ میں ان دنوں ایک عجیب کیفیت دیکھ رہا ہوں۔
سیاست کا ذکر شروع کرنے سے پہلے آپ کی خدمت میں ایک بوڑھی اور ایک برگزیدہ صوفی کا مقابلہ پیش کرتا ہوں۔ یہ صوفی تھے اپنے وقت کے ایک ولی اللہ حضرت خواجہ حسن بصریؒ۔ یہ اپنی خانقاہ میں وعظ کر رہے تھے ان کے مؤدب سامعین میں ایک عمر رسیدہ خاتون بھی بیٹھی تھی اور وعظ سن رہی تھی۔
حضرت خواجہ نے فرمایا کہ اللہ تبارک تعالیٰ کے دروازے پر دستک دیتے رہا کرو کہ نہ جانے وہ کب کھل جائے اور تمہاری دعا اس میں اندر داخل ہو جائے اور یوں اللہ کے حضور تمہاری فریاد پہنچ جائے۔ خواجہ کے مقتدین وعظ پر سر دھن رہے تھے اور یک گونہ وجد کی کیفیت میں تھے کہ اس کیفیت میں مجمعے میں سے ایک بوڑھی خاتون اٹھی اور اس نے خواجہ سے سوال کیا کہ کیا کبھی اللہ تعالیٰ کا مغفرت کا دروازہ بند بھی ہوتا ہے۔ یہ سن کر خواجہ کی یہ حالت بے قابو ہو گئی، وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے، ان کے پاس اس بڑھیا کے سوال کا کوئی جواب سوائے ندامت کے نہ تھا۔ تصوف کی کتابوں میں صوفی کی اس حالت کا تذکرہ ملتا ہے جو اس سوال کا جواب دے دیتا ہے۔
اب چلتے ہیں سیاست کی طرف۔ میں ان دنوں ایک عجیب کیفیت دیکھ رہا ہوں۔ ہمارے کچھ صحافی بھائی حکومت کے حق میں رائے رکھتے ہیں اور انھیں اس کا پورا پورا حق حاصل ہے، وہ حکومت کے اقدامات کی تعریف کرتے ہیں اور ان پر مخالفوں کے اعتراضات کا ممکن حد تک دفاع بھی کرتے ہیں۔
ان کے ساتھ ایک دوسرا گروہ حکومت کا کھلا مخالف ہے اور وہ جس حد تک ممکن ہو حکومت پر تنقید کرتا ہے اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا لیکن میرے لیے تعجب کی بات یہ ہے کہ جو لوگ حکومت کے حق میں قلم اور جان کھپاتے ہیں حکمران ان کی تحریریں بھی نہیں پڑھتے ان کے پاس اس کا وقت ہی نہیں ہوتا زیادہ سے زیادہ ان کا متعلقہ اہلکار اخباری مندرجات کی ایک ضمنی تیار کر کے بھجوا دیتا ہے جو مختصر ہونے کے علاوہ خوش کن بھی ہوتی ہے اس میں مخالفانہ تحریروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ حکمران موڈ میں ہو اور فرصت ہو تو یہ سمری دیکھ لیتے ہیں۔
جہاں تک اخبار پڑھنے کا سوال ہے شاید ہی کوئی حکمران اس کی زحمت کرتا ہو یا اس کے پاس اس کا وقت ہوتا ہو دوسری طرف کے جو لکھنے والے ہیں ان کو عوام زیادہ وقعت نہیں دیتے کہ یہ حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں تو اس سے عوام کو کیا ملتا ہے نہ بجلی نہ گیس اور اب کبھی کبھی پٹرول بھی غائب' بازار میں جائیں تو قیمتیں توفیق سے باہر۔ امن و امان مفقود' بس اللہ کے حوالے ہیں اور اس کی پناہ میں وقت گزر رہا ہے۔
حکمرانوں کو صرف اتنا علم ہوتا ہے کہ فلاں ان کے حق میں اور فلاں ان کی مخالفت میں لکھتا ہے۔ لکھنے والے بعض اوقات ان کو بڑے نیک اور درست مشورے دیتے ہیں لیکن کسی کو اتنی فرصت ہو تو ان کی بات پر غور کرے۔
حکمرانوں اور صحافیوں کے اس ذکر سے ایک پرانا کلاسیکی واقعہ یاد آتا ہے۔ ایوب خان کا قہر آلود زمانہ تھا اور پریس سے متعلق وزیر اور افسران بالا ہر وقت سولی پر لٹکتے رہتے تھے۔ ایک ذہین اورجرات مند افسر کو ایک نادر ترکیب سوجھی، اس نے قابل اعتماد ساتھیوں کی مدد سے ایک جعلی اخبار شایع کرنے کا پروگرام بنایا جو صبح صبح صاحب کے سامنے پیش کیا جائے چنانچہ جو مخالف اخبار تھے بلکہ ایک آدھ ہی مخالف تھا اس کا ایک ایڈیشن صاحب کی پسند کی خبروں اور اداریوں سے تیار کیا جاتا ،کچھ مخالفانہ تحریریں بھی ڈال دی جاتیں تاکہ اس جعلی اخبار کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔
یہ جعلی اخبار بالکل اصلی اخبار کی طرح اور اس کی شکل و صورت میں چھاپا جاتا آیا کہ اصلی اخبار چھاپنے والے بھی دھوکا کھا جاتے تھے۔ یہ اخبار صبح سویرے دوسرے اخباروں کے ساتھ صاحب کی خواب گاہ میں رکھ دیا جاتا اور وہ اپنی صبح اپنے بستر سے ہی خوشگوار موڈ میں شروع کرتے اور ان کی ساری سیاسی تلخیاں ختم ہو جاتیں۔
ایک اہم سرکاری آدمی کو اس جعل سازی کا پتہ چل گیا لیکن جو سیکریٹری سطح کے لوگ اس میں ملوث تھے وہ اس سے ملے اور اسے صورت حال بتا کر خاموش رہنے کی تلقین کی۔ کچھ وقت تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر حالات ایسے بدلتے گئے کہ فیلڈ مارشل کو اس کے اصلی حال پر چھوڑ دیا گیا اور سارا الزام اصلی اخبار کے ایڈیٹر پر لگا دیا گیا کہ وہ اپنے وعدے سے پھر گیا ہے۔
موجودہ حکومت ایوب خان کی طرح اتنی منظم نہیں کہ اس میں کسی کو ایسی حرکت کی ضرورت پڑے اور نہ کوئی ایوب خان کے مشہور و معروف سیکریٹریوں کے برابر کا افسر ہے اس لیے حکومت کے حق میں لکھنے والوں کی اپنی ہمت ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے صاحبان اقتدار تک اپنی کاوشیں پہنچا سکیں یا دکھا سکیں۔ ہمارے ہاں شاید ہی کوئی حکومت ایسی گزری ہو جو پریس سے مطمئن ہو اور پریس کو ایسی حالت میں کبھی ہونا بھی نہیں چاہیے کہ حکومت اس سے مطمئن ہو جائے۔
پریس اور حکومت دو متحارب ادارے ہیں جو ایک دوسرے کے نقاد اور نکتہ چین ہیں۔ پریس کی اس پالیسی کی وجہ سے حکومت بڑی حد تک احتیاط برتتی ہے۔ عوام تو الیکشن میں ہی اپنا اظہار کرتے ہیں مگر روز مرہ کی زندگی میں پریس ہی عوام کی نمایندگی کرتا ہے اور یہ بہت بڑی خدمت ہے اور سچ بات یہ ہے کہ پریس کی تنقید حکومت کی مدد کرتی ہے اور اسے عوام کا حال معلوم رہتا ہے۔ ورنہ اشرافیہ جو حکومت کے قریب ہوتا ہے بلکہ اس کا حصہ دار ہوتا ہے حکومت کو صحیح صورت حال سے آگاہ نہیں کرتا بلکہ اشرافیہ کے ایک بہت پرانے زمانے کے لیڈر کہا کرتے تھے کہ ہم تو نہیں بدلتے حکومت خود بدل جاتی ہے اس لیے ہم بھی اس کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔
آج کی بات ہے کہ پٹرول کی قیمت کم کی گئی لیکن خبر یہ ملی ہے کہ کئی پٹرول پمپ اس نئے ریٹ پر پٹرول نہیں دے رہے اور حالت پھر پٹرول کی قلت والی ہو گئی ہے اور ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ٹرانسپورٹ والے پٹرول کی قیمتیں کم کرنے کے بعد کرائے بھی کم نہیں کر رہے۔ بہر کیف کوئی ایک بات ہو تو اس کا ذکر بھی کیا جائے۔
میاں صاحبان خاندانی طور پر اچھے رویے اور کلچر کے نمایندے ہیں اور افسوس کہ وہ اچھی حکومت نہیں دے سکے۔ اس کا افسوس رہے گا جب کہ لوگوں نے ان سے بڑی توقعات باندھ کر انھیں ووٹوں سے لاد دیا تھا۔ اب میاں صاحبان کی اپنی مرضی ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے سوائے اپنی کارکردگی کے جس میں نہ سزا ہے نہ جزا اور نہ فرض شناسی۔