ریویو؛ ’’ڈولی کی ڈولی‘‘

حاجرہ افتخار  بدھ 11 فروری 2015
 فلم میں اس بات پر روز دیا گیا ہے کہ ہر جرم کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، کوئی بھی انسان مجرم پیدا نہیں ہوتا۔

فلم میں اس بات پر روز دیا گیا ہے کہ ہر جرم کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، کوئی بھی انسان مجرم پیدا نہیں ہوتا۔

فلم ’’ڈولی کی ڈولی‘‘ ان چند فلموں میں سے ایک ہے، جس کے ریلیز ہونے کا میں بے چینی سے انتظار کررہی تھی۔ وجہ تھی اس فلم کی مختلف اور منفرد کہانی۔ اور اچھی بات اِس فلم کی یہ ہے کہ فلم دیکھنے کے بعد بھی میرے خیالات میں تبدیلی نہیں آئی کہ درحقیقت کہانی واقعی کچھ ہٹ کر تھی۔ اِس فلم کی کہانی میں کیا کچھ مختلف تھا چلئے اب آپ کو بھی بتاتی ہوں۔

ڈولی کی ڈولی کے پروڈیوسر ہیں ارباز خان اور ملائکہ ارورہ خان ہیں، جبکہ ہدایت کار ابھیشک ڈوگرا ہیں۔ سونم کپور (ڈولی) ہیروئن ہیں اور ان کے ساتھ راجکمار راؤ (سونو شراوت)، پلکت سمراٹ (روبن سنگھ)، ورن شرما (منجوت سنگھ) اور محمد ذیشان ایوب (راجو) موجود ہیں۔ چھوٹے نواب سیف علی خان بھی اسپیشل اپیرینس میں راجکمار ادیتیا سنگھ کے طور پر نظر آئے ہیں۔ جبکہ موسیقی ساجد واجد کی ہے جس میں کل گانوں کی تعداد 5 ہے۔

فلم کی کہانی ڈولی عرف ’لٹیری دلہن‘ کے گرد گھومتی ہے، جو بے شمار لڑکوں سے شادیاں کرکے اسی رات دودھ میں نشہ آور دوائی ملا کر گھر والوں کو بے ہوش کرکے ان کا سارا پیسہ، زیور اور تمام قیمتی اشیاء چرا کر اپنے گینگ کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ ڈولی کے گینگ میں اس کے ساتھ چوبے جی اور ان کی بیوی شامل ہیں، جو کہ ڈولی کے والدین کا کردار نبھاتے ہیں، جبکہ راجو اس کا بھائی بن جاتا ہے اور دادی کے ساتھ ان کا پنڈت، فوٹو گرافر موجود ہوتا ہے۔

فوٹو؛ فیس بک پیج ڈولی کی ڈولی

یہ لوگ اپنا ٹارگٹ پورا ہوتے ہی حلیہ بدل لیتے ہیں لیکن ان کے خاندان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ راجو لڑکوں کے خاندان پر ریسرچ کرتا ہے، اس کے بعد جو خاندان انہیں سب سے بہتر لگتا ہے اسے پھنسا کر اس کی تمام جمع پونجی لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ اب باری آتی ہے دہلی کے منجوت سنگھ چڈا کی جس کی ماں ڈولی کو دیکھتے ہی انکار کردیتی ہے۔ ڈولی اپنی ہار تسلیم نہیں کر پاتی اور غصے میں فیصلہ کرتی ہے کہ وہ منجوت کو اپنا نشانہ ضرور بنائے گی۔ وہ مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن اس سے پہلے کے ڈولی وہاں سے فرار ہوتی اس کا پرانا شکار سونو شراوت وہاں آجاتا ہے جو کہ حقیقت میں ڈولی کی محبت میں گرفتار ہے۔ اب اس سے پہلے سونو کے ساتھ ڈولی نے کیا کھیل کھیلا ہے اس کے لئے تو آپ کو فلم دیکھنا پڑے گی۔

 فوٹو؛ فیس بک پیج ڈولی کی ڈولی

سونو ڈولی کو گھر واپس چلنے کو کہتا ہے لیکن ڈولی ایک بار پھر اسے بیوقوف بنا کر منجوت کی ساری دولت لوٹ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس بار ڈولی کی قسمت اس کا ساتھ نہیں دیتی، لوٹ مار کی یہ کہانی میڈیا پر نشر ہوجاتی ہے، جس کے بعد انسپیکٹر روبن سنگھ  ڈولی کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

 فوٹو؛ فیس بک پیج ڈولی کی ڈولی

پولیس کی حراست میں آتے ہی ڈولی کا تمام گینگ خاص طور پر راجو (ڈولی کا بھائی) جو اس سے محبت کرنے لگتا ہے، اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ ڈولی بھی خود سارا الزام قبول کر لیتی ہے۔ اسی دوران دکھایا گیا ہے کہ انسپیکٹر روبن اور ڈولی ماضی میں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ روبن اور ڈولی کیوں نہیں مل پائے؟ اور ڈولی کو جیل سے رہائی نصیب ہوئی یا نہیں؟ ان تمام سوالوں کے جواب جاننے کے لئے آج ہی سینما گھر میں بکنگ کرا لیجئے۔


فلم کو اگر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بہت سبق آموز ہے۔ فلم میں اس بات پر روز دیا گیا ہے کہ ہر جرم کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، کوئی بھی انسان مجرم پیدا نہیں ہوتا۔ ڈولی نے بھی دھوکا کھانے کے بعد ہی یہ فراڈ کا راستہ اختیار کیا۔

ایک طرف منجوت ہے جس کی صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ ڈولی جہاں چاہے چلی جائے، بس وہ اُس کے پیچھے پیچھے چلا جاتا ہے۔ ان ہی باتوں کی وجہ سے ڈولی ہر شخص کو ایک ہی ترازو میں تولتی ہے۔ لیکن دوسری جانب اس دنیا میں سونو جیسے لڑکے بھی ہیں جو اس کے ہر گناہ کو بھلا کر نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔

آج کل کے دھوکا دہی کے دور میں محبت بے حد نایاب ہوگئی ہے، لہذا جب کسی شخص کو سچی چاہت کے بدلے دھوکا ملتا ہے تو اس کا وہی حال ہوتا ہے جو ڈولی کا ہوا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

حاجرہ افتخار

حاجرہ افتخار

بی ایس ماس کمیونیکیشن کی طالبِ علم ہیں۔ لکھنا، پڑھنا اور ریسرچ کرنا ان کا شوق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔