ہم خاموشی کے لیے بے تاب ہیں
ہر پاکستانی کے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ جو کام ہماری حکومت کو ازخود کرنے کے ہیں ان کی طرف فوجی سربراہ توجہ دلائے
ملک بھر کے سرکردہ صحافیوں کے ایک اجتماع میں وزیراعظم جناب میاں نواز شریف نے جو مجیب شامی کی اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے اپنے خطاب میں دل کھول کر رکھ دیا یا یوں کہیں کہ پھٹ پڑے اور صحافیوں سے اپیل کی کہ وہ دو سال کے لیے ان کے خلاف قلم کی زبان بند کر دیں یعنی انھیں سکون کے ساتھ حکومت کرنے دیں۔ مجھے پہلے تو یہ تعجب ہے کہ ان صحافیوں کی اکثریت نے سوائے خوشامد کے حکمرانوں کو کب تنگ کیا ہے ہاں خوشامد میں مبالغہ ہوتا ہو تو الگ بات ہے کیونکہ کبھی حد سے گزرتی ہوئی خوشامد بھی تنگ کرتی ہے اور اچھی نہیں لگتی اس سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔
اب صحافت کے وہ زمانے گزر گئے جب صحافی کا قلم ایک تلوار بن کر کسی حکمران کو زخمی کرتا تھا اب تو پھول برسائے جاتے ہیں اور ان کا ویلنٹائن ڈے ہمیشہ جاری رہتا ہے اصل بات یہ ہے کہ بعض حکمرانوں کو کسی تنقید سے نہیں اپنے آپ سے اور اپنے اعمال سے ڈر لگتا ہے وہ خود مضبوط ہو جائیں تو صحافی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔ موجودہ حکمرانوں کی اب تک کی حکمرانی تو اس قابل نہیں کہ اس کی تعریف کی جا سکے بلکہ عوام کی حالت دیکھیں تو اس پر تنقید کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ گزشتہ دنوں دو سرگرم پاکستانیوں نے سیاسی لیڈر بنکر اسلام آباد میں دھرنے شروع کر دیے یہ ایک مہمل اور بے مقصد قسم کی مشق تھی لیکن بہت بڑے پیمانے پر۔ مہینہ سوا مہینہ تک ہر روز شام کو یہ دھرنا شروع ہوتا اور مرد و خواتین دونوں اس میں بے پناہ جوش و خروش کا اظہار کرتے رہتے۔
یہ سلسلہ جاری و ساری تھا کہ ایک دھرنا باز کسی وجہ سے ملک سے باہر چلا گیا اور اب تک باہر ہی ہے علاج کرا رہا ہے دوسرا بھی شاید تھک کر دھرنے سے باز آ گیا اور اپنے سیکڑوں کنال کے اسلام آبادی گھر میں سمٹ گیا جہاں وہ ایک مطلقہ دلہن کے ساتھ آرام کر رہا ہے۔ ان دھرنوں میں شامل ہجوم ان دھرنے باز لیڈروں کے لیے نہیں بلکہ حکومت سے بے زاری کی وجہ سے موجود تھا۔ انھی دنوں عمران خان کراچی گئے اور ان کا وہاں زبردست استقبال ہوا تو اہل کراچی نے کہا کہ ہم کراچی کی ایک سیاسی پارٹی یا گروہ سے تنگ آ کر عمران کے پاس گئے ہیں ورنہ بطور ایک سیاسی لیڈر عمران خان اہل کراچی کے لیے کچھ زیادہ جانا پہچانا نہیں تھا۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست اب تک ردعمل پر چل رہی ہے، سیاست کی پاکستانی دنیا میں افسردگی سی پائی جاتی ہے اور کئی سیاستدان تو خاموش ہی ہو گئے ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن کی وجہ سے کچھ جان پڑی ہے لیکن ادھر سینیٹ کے الیکشن ختم ہوئے کہ ہمارے سیاسی قائدین پھر سے چپ ہو گئے۔ اس لاپرواہی اور عوام کے مسائل اور خواہشات سے تغافل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک اپنی روایتی سیاسی ہلچل سے محروم ہو گیا ہے۔
تعجب اس بات پر ہے کہ اس خاموشی میں اگر کوئی آواز سنائی دے رہی ہے تو وہ اس طرف سے آ رہی ہے جہاں سے اس کے آنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی۔ ہماری فوج اپنے دشمن کے خلاف باقاعدہ جنگ میں مصروف ہے اور ایسی صورت حال میں فوج کو کسی دوسری بات کا ہوش نہیں ہونا چاہیے لیکن لگتا ہے کہ وہ بھی بے عمل حکومت کی وجہ سے پریشان ہو گئی ہے۔ فوج بھی پاکستان کی ہی ہے اور اس کے سویلین رشتہ دار اس ملک کے شہری ہیں جو ان تمام مصائب اور مسائل سے دوچار ہیں جن سے ان کے ہم وطن گزر رہے ہیں اس لیے قومی مسائل کی فوج تک براہ راست رسائی ہوتی ہے اور فوج کے سربراہ اپنی فوج کے مسائل سے کیسے بے خبر اور لاتعلق رہ سکتے ہیں۔
وہ کوئی سیاستدان تو نہیں ہیں چنانچہ وہ بعض اوقات تو ہمت کر کے اور جنگ کے میدان سے فرصت پا کر حکمرانوں کو خبردار کر دیتے ہیں اور اس میں کسی تکلف سے کام نہیں لیتے۔ کھل کر برملا بات کر دیتے ہیں مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ مارشل لاء سے بچ کر وقت گزارنا اور اپنا کام کرنا چاہتے ہیں جب کہ مارشل لاء جس قدر آج کے حالات میں آسان ہے ایسا کبھی نہیں تھا مگر یہ ان کی ہمت ہے کہ وہ صبر سے کام لے رہے ہیں اور اسی حکومت سے ہر کام لینا چاہتے ہیں۔
جن دو بھائیوں کی حکمرانی میں ہم وقت کاٹ رہے ہیں یہ دونوں میرے مہربان رہے ہیں اور ان کی کرمفرمائیوں کا میں معترف اور احسان مند ہوں لیکن جب سے وہ جلا وطنی ختم کرکے وطن لوٹے ہیں ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ میں خوشامد کرنے کی بڑی کوشش کرتا ہوں جو ہر حکمران کو پسند ہوتی ہے خصوصاً ہمارے آج کے حکمران تو اس کے شدت کے ساتھ طلب گار بھی رہتے ہیں۔ ان کی خواہش مسلسل پوری ہوتی رہتی ہے اور کتنے ہی قلم ہیں جو قصیدہ خوانی کو عبادت سمجھتے ہیں لیکن میری بدقسمتی کہ میں نے صحافت کی تربیت جس ماحول میں پائی ہے اس میں خوشامد نہیں ہوتی صرف حالات کا اعتراف اور بیان ہوتا ہے اور میں اس تلاش میں رہتا ہوں کہ حکومت کوئی عوامی نیکی کا کام کرے اور میں اس کی تعریف شروع کر دوں جو انتظامیہ پتنگ بازوں کی دھاتی ڈور پر پابندی نافذ نہیں کر سکتی اور اپنے سامنے لوگوں کی گردنیں کٹتی دیکھتی ہے کوئی اس سے کیا کہے۔
ہر سویلین پاکستانی کے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ جو کام ہماری سول حکومت کو از خود کرنے کے ہیں اور جو اس کے فرائض میں شامل ہیں ان کی طرف فوجی سربراہ توجہ دلائے۔ مثلاً انھوں نے کراچی کی بدامنی کے حوالے سے کہا ہے کہ پولیس کو غیر سیاسی کر دیا جائے' کراچی والے کہتے ہیں کہ بات بالکل درست ہے اورکراچی کی پولیس سیاستدانوں نے بھرتی کی ہے بلکہ بعض تھانے بھی سیاستدان الاٹ کرتے ہیں۔ کراچی جیسے مرکزی شہر میں اگر پولیس جیسے بنیادی محکمے کا یہ حال ہو تو امن کہاں سے۔ پولیس تو پورے ملک کی ہی کسی نہ کسی طرح سیاسی ہے اور امن و امان کی بدتر صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
بہر کیف حکمران سے گزارش ہے کہ وہ ہماری زبان بند کرنے کا کوئی ایسا عمل کریں کہ ہم لوگ اسے دیکھ کر خود ہی چپ ہو جائیں اور ان کی تعریف پر مجبور ہوجائیں۔ یہ سب ان کے اختیار میں ہے ہمیں تو بات بات پر شور مچانے کا کوئی شوق نہیں، خوش نصیب ہیں ہمارے وہ ساتھی جو حکمرانوں کے ساتھ امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور دونوں خوش ہیں۔ ہم دوسرے صحافی تو چپ ہو جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ ہمیں کوئی چپ تو کرائے ورنہ ہم روتے ہی رہیں گے۔