مست ہے زندگی

فرح ناز  اتوار 1 مارچ 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

زندگیاں ہیں کہ کھیل تماشا بن کر رہ گئی ہیں صبح کچھ، شام میں کچھ،کم عقلی یا کم پختگی یا پھرکچھ اور21ویں صدی ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے، بابا قیامت کے نظارے ہیں سب بڑے بوڑھے آج بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتے ہیں سنتا مگر اب کوئی نہیں ان کی، خاص طور پر وہ لوگ جو ذرا خوشحالی کی طرف گامزن ہوں ان کو لگتا ہے کہ بہتر زندگی چیخ چیخ کر انھیں بلا رہی ہے اور یہ بھولی بسری یادیں بن کر رہ جانے والے لوگ انھیں ماضی سے نکلنے ہی نہیں دے رہی ہیں۔

مرد، عورت، بوڑھے، بچے سب کے سب گیہوں کے ساتھ گھن بن کر پسے چلے جا رہے ہیں۔ چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں مگر وقت کی چکی بری طرح ان سب کو پیسے چلی جا رہی ہے۔ کیا کیا جائے؟ کیا ہوگا؟ کیسے وقت کو بہتر بنایا جائے؟ کس کو فریاد کریں؟ کون سنے گا؟

کسی فلسفی نے کہا ہے کہ دوسروں کو بدلنے سے زیادہ بہتر ہے کہ اپنے آپ کو بدلو، ہمیں لگا کہ شاید ہم بدلیں گے تو شاید سامنے والا شرم و لحاظ میں خود ہی اپنے آپ کو بہتر کرے گا، مگر آج کل تو سب کا سب الٹا۔ آپ ادب ولحاظ میں اپنے آپ کو بدلے جا رہے ہیں اور سامنے والا اپنے آپ کو مزید ہشیار اور آپ کو مزید بے وقوف سمجھ رہا ہے کیا کیجیے؟

آپ کسی کی مدد کریں تو شکریہ ورنہ Never Mind۔

اچھا گھر، اچھی گاڑی، پلاسٹک منی Plastic Money اور تھوڑا گھومنے پھرنے کے شوق 10پرسنٹ سچ 90 پرسنٹ جھوٹ لو جی ہوگئی کہانی پوری، زندگی تو ویسے ہی گزرنی تھی ایسے گزر جائے تو اچھا ہوگا، جھوٹی سچی بڑی بڑی کہانیاں بناکر اپنے ہی بچوں پر رعب ڈالا جا رہا ہے، گھر والے بھی کنفیوژ رہتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا بندہ چاہتا کیا ہے؟ نہ لائق نہ قابلیت اور شوق کہ بقراط کا ٹائٹل مل جائے، تھوڑی آنکھیں گھما گھما کر باتیں کرلی تھوڑی ادھر ادھر کی کہانیاں جوڑ لیں لو جی بھیا ایک اور فلسفی تیار! ان کی بے کار اور فضول باتوں پر واہ واہ کیجیے۔

21 ویں صدی، جدید سہولتیں، زندگی آسان مگر بے حد پریشان تشنگی بڑھتی ہی چلی جائے 25 سال کا نوجوان سمجھے کہ اس نے اپنی تمام تر زندگی جی لی، اب کیا کیجیے؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ پوری دنیا اب ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے، جو معلومات چاہیے وہ اب فنگر ٹپ پر ہیں۔ صبح 10 بجے سے ایک بندہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتا ہے اور شام 5 بجے تک وہ اللہ جانے کتنوں کے ہی بخیے ادھیڑ کے رکھ دیتا ہے۔ کتنوں کی زندگیوں کے صفحے پلٹے جاتے ہیں اور کتنوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں۔

دنیا جہاں کی سیاست ای میل کی شکل میں موجود، نہ خط نہ لفافہ! بے تحاشا کام ہیں اب لوگوں کو کرنے کے لیے مگر پھر بھی فرصت ایسی کہ جب تک ادھر ادھر تانک جھانک نہ ہو لگے کہ دن ادھورا سا ہے شاید!کچھ ایسے focused کہ دوست و احباب مذاق اڑائیں کہ اپنی دھن میں مست۔ کیا پینا یا کھایا کوئی پرواہ نہیں بس اپنے goal کو حاصل کرنا کہ دنیا میں آئے ہیں تو کچھ کرکے جائیں۔ کچھ دلوں میں سما جائیں کچھ دماغوں میں بس جائیں، نہ اونچی شان نہ جھوٹا نام نہ وڈی وڈی باتیں نہ شعبدے بازی۔

کہیں دن ہے کہیں رات، کہیں غم کہیں خوشی کہیں زندگی کہیں موت کہ وقت کا پہیہ نہ رکا ہے نہ رکے گا کوئی آئے کوئی جائے دنیا اپنے مقررہ سسٹم پر چل رہی ہے اور جب تک حکم الٰہی ہے چلتی رہے گی۔ مگر ہر زندگی اپنی الگ کہانی رکھتی ہے۔ کچھ بزدل ہوتے ہیں بس جی کر چلے جاتے ہیں کچھ بہادر ہوتے ہیں اپنی زندگی جیتے ہیں، اور دوسروں کو بھی ان کی زندگی جینے میں مدد دیتے ہیں، راستے بتاتے ہیں، رکاوٹیں ہٹاتے ہیں،اپنی بات منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اللہ عالی شان کی دی گئی صلاحیتوں کو قابل فخر بناتے ہیں جینا جانتے ہیں، اور دوسروں کو بھی جینے دیتے ہیں اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حق کو بھی پہچانتے ہیں نہ غلام ہوتے ہیں نہ غلامی کو پسند کرتے ہیں، نہ ظلم سہتے ہیں نہ ظلم کرتے ہیں کہ خوشیوں پر تو سب کا حق برابر ہے مسکراہٹیں اور چمکتی ہوئی روشن آنکھیں یقینا خوفزدہ پیلے چہرے سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں۔

اور خوبصورتی کی بات ہو اور خواتین کا ذکر نہ ہو تو بات ادھوری رہ جاتی ہے اور ویسے بھی آج کے دور میں خواتین قدم بہ قدم مردوں کے ساتھ ساتھ تمام شعبہ زندگی میں نمایاں۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں دیکھ لیجیے کوئی ایسی جگہ ملنی مشکل ہے جہاں خواتین نے اپنے قدم نہ جمائے ہوئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہمارا معاشرہ، ہماری سوسائٹی ابھی تک کھینچا تانی میں مبتلا! کسی نہ کسی طرح خواتین کو نیچا دکھانے کا شوق آج بھی نمایاں۔

اب کیا کیجیے؟ کس کس جگہ کو ہم روئیں گے اور کہاں کہاں ہنسیں گے، جو حکمراں ہم پر مسلط کر دیے گئے یا خود ہوگئے یہ کیا گناہوں کی سزا ہے؟ جہالت کے اندھیرے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں بڑے بڑے پیٹ بھر کر ہی نہیں دے رہے، چہرے پر معصوم معصوم تاثرات، میٹھی میٹھی باتیں، ہر وعدہ قوم سے، ہر کام قوم کے لیے، سب کہہ رہے ہیں کہ یہ قوم ان کے ساتھ ہے، اور قوم ہے کہ گم صم، گم صم، خدا کی بستی بسی ہوئی ہے اور خدا ہی بستی چلا رہا ہے باقی سب چور، لٹیرے، ڈاکو گھات لگائے بیٹھے ہیں جو سربراہان ہیں وہ بھی اور جو سربراہان بننے کی خواہش رکھتے ہیں وہ بھی۔

سب کے سب شب و روز قوم کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، کیسی خدمت؟ بے وقوف بنانے کی خدمت۔ ایسے آڑے ٹیڑھے طریقے کہ اللہ کی پناہ، کوئی ضابطہ اخلاق نہیں، کوئی قول و فعل کا پاس نہیں، ادھر ایک بات کی ادھر مکر گئے، نہ شرم نہ حیا نہ جھوٹا ہونے کی فکر، کہ شاید جو سب سے بڑا جھوٹا وہی سب سے بڑا سیاسی۔شاید جب یہ آپس میں ملتے ہوں گے تب خوب خوب قہقہے لگاتے ہوں گے اور ایک دوسرے کو شاباشی دیتے ہوں گے کہ ایک دوسرے سے ہی نت نئے طریقے سیکھتے ہیں اور آزمانے کے لیے ہے موجود ’’میری قوم‘‘ اور قوم اپنا سر دھننے میں مصروف کیسے کیسے گلوبل کرائم ہو رہے ہیں ہمارے معاشرے میں کہ اللہ کی امان! عقل حیران و پریشان کہ کیا بچہ کیا بوڑھا کیا عورت اور کیا مرد ایسی نفسا نفسی کا عالم۔

محبتیں، اپنائیتیں، خلوص و وفا سب کتابی باتیں بن کر رہ گئیں کہ گویا لیلیٰ مجنوں کی کہانیاں ہوگئیں اور ہم تمام لوگ تلاش میں ہیں الٰہ دین کے چراغ کے۔

بدلاؤ اس طرح کا بھی ہے کہ ناچ و گانا بھی اب آہستہ آہستہ ہمارے تہوار اور تقریبات کا حصہ بنتا جا رہا ہے ۔ جس کو اچھے سے بے وقوف بنانا آگیا، زبردست جھوٹ بولنا وہ بھی میٹھا میٹھا، پتہ چلے کہ کامیاب انسان کے یہی گن ہیں آج کل، آہ کیسے کیسے مست ہے زندگی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔