قابل فخر رانا بھگوان داس

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 1 مارچ 2015
advo786@yahoo.com

[email protected]

جسٹس (ر) رانا بھگوان داس 23 فروری کو 73سال کی عمر میں راہی ملک عدم ہوکر قانونی، سیاسی، سماجی حلقوں اور اپنے حلقہ احباب کو سوگوار کر گئے۔ وہ ملک کی ان چیدہ چیدہ شخصیات میں سے تھے جو اپنے اپنے شعبوں کی شناخت اور اپنے پیشے کے وقار اور حرمت کی علامت سمجھی جاتی تھیں، جن کا خلا تادیر پورا نہیں کیا جا سکے گا۔ بھگوان داس ملک میں اے آر کارنیلئس کے بعد دوسرے غیر مسلم اور پہلے ہندو جسٹس تھے جو راجپوت برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی موت کی خبر سنتے ہی عدالتوں میں سوگ کا سماں ہوگیا، ججز، وکلا، سماجی و سیاسی اور حکومتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد ان کے گھر پہنچ گئے۔

رانا بھگوان داس سپریم کورٹ کے جج اور کئی مرتبہ قائم مقام چیف جسٹس رہے، کئی سال فیڈرل سروس کمیشن کے سربراہ رہے چیف الیکشن کمشنر کی ذمے داری قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ وہ ایک کھرے، نڈر، بے باک، دباؤ اور لالچ کے بغیر فیصلہ دینے والے انسان تھے۔ ان کے طویل تر پیشہ ورانہ کیرئیر میں کبھی کسی جانب سے کوئی انگلی اٹھائی گئی، نہ کسی قسم کی شکایت و تنقید سامنے آئی۔

تمام حلقوں میں ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا تھا جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں چیئرمین نیب کا منصب دینے کے لیے تمام حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتیں متفق و متحد تھیں اور انھیں اس عہدے پر متمکن کرنے کے لیے فیڈرل سروس کمیشن ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ بھی تیار کرلیا گیا تھا تاکہ چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا عہدہ سروس آف پاکستان کے زمرے سے نکال کر انھیں اس عہدے کا اہل بنا دیا جائے کیونکہ چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے عہدے پر رہنے والا قانونی طور پر چیئرمین نیب کے عہدے پر فائز ہونے کا اہل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن شاید انھوں نے اسے مستقبل کے لیے غلط نظیر بن جانے اور اس کے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ممکنہ استعمال کا ادراک کرتے ہوئے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

آنجہانی بھگوان داس عہدے، مال و متاع، شہرت و ستائش کی خواہش سے بے نیاز تھے۔ انھیں نزدیک سے جاننے والے، ان کے ساتھ اور ماتحت کام کرنے والے ان کی سادگی، سادہ طرز زندگی، شفقت و محبت، خدا ترسی کی تعریفیں کرتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے پرانے ماتحتوں کو بھی ناموں سے یاد رکھتے تھے ان کا حال احوال دریافت کرتے تھے سپریم کورٹ کے جسٹس بننے کے بعد بھی بال کٹوانے پرانے نائی کے پاس سردار ہوٹل بلڈنگ آتے تھے۔ میرے ایک دوست پاکستان کے بڑے صنعتی ادارے کی یونین کے عہدیدار تھے جو دو مرتبہ انتقاماً ملازمت سے نکالے گئے اپنا مقدمہ خود لڑتے رہے پہلی مرتبہ نوکری پر بحال ہوئے تو چند سال بعد پھر نوکری سے فارغ کردیے گئے۔

لیبر کورٹ، اپیلیٹ کورٹ، ہائیکورٹ ہر جگہ سے ان کے حق میں فیصلے ہوتے رہے لیکن انتظامیہ نے انھیں پورا سبق سکھانے اور انتقام لینے کی ٹھان رکھی تھی، یہ مقدمہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا۔ ایک طرف انتظامیہ کے وسائل و مستعد وکلا تھے تو دوسری جانب اپنے مقدمے کی پیروی خود کرتا یہ مفلوک الحال بیروزگار شخص۔ عید کے تیسرے دن سپریم کورٹ میں ان کا کیس لگا تھا، ان کے اصرار پر میں بھی کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ کیس پکارا گیا تو روٹرم پر ایک جانب یہ بیروزگار نحیف شخص کان میں آلہ سماعت لگائے ہاتھ میں بیگ اور اپنے کیس کی مواقعت میں چند عدالتی فیصلے تھامے کھڑا تھا تو دوسری جانب ایک بڑی لا فرم کے وکلا قانون اور عدالتی فیصلوں کی کتابوں کے ڈھیر کے ساتھ موجود تھے، جسٹس رانا بھگوان داس اور حامد علی مرزا تھے۔

ججز انہماک کے ساتھ کیس سنتے رہے اور سوالات کرتے رہے بالآخر بحث سمیٹتے ہوئے جسٹس رانا بھگوان داس نے کہا کہ جناب کیس کی موافقت و مخالفت میں بہت سے فیصلہ مل جائیں گے، ان کا کیس میرٹ پر ہے، آپ نے ایک کلرک کو اتنے عرصے سے اس کے حق سے محروم رکھا کہ وہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکا ہے، آپ کی اپیل مسترد اور اس کی بمعہ واجبات بحالی کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا ہے۔ فیصلہ سن کر ان صاحب اور عدالت میں موجود ان کی اہلیہ اور بیٹے کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلک گئے۔

رانا بھگوان داس صرف فیصلے ہی نہیں دیا کرتے تھے بلکہ انصاف کرنے کی کوششیں کیا کرتے تھے اس کے لیے دانش، فہم و فراست اور قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ عدل و انصاف اور انسانیت کی فلاح اور خدمت ان کا مطمع نظر تھا ان کا کہنا تھا کہ میرا مذہب انسانیت ہے۔ وہ قانون کے شعبے سے منسلک افراد کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 2007 کے عدالتی بحران میں قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت تمام قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے جو تاریخی فیصلہ سنایا تھا اس نے ان کی عزت و وقار میں مزید اضافہ کردیا۔

پاکستان میں کمیشن بنانے کی روایت عام رہی ہے، بعض اوقات کمیشن بھی کمیشن تک محدود رہتا ہے زیادہ تر ان کے مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے یا ان کی رپورٹس اور سفارشات محض ردی کے ڈھیر میں اضافے کا سبب بنتی ہے لیکن رانا بھگوان داس اس لحاظ سے خوش قسمت جج رہے کہ ان کی سفارشات اور فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا نظر آیا۔ سپریم کورٹ میں رانا بھگوان داس جوڈیشل کمیشن کی آئل و گیس کی قیمتوں سے متعلق 74 صفحات پر مشتمل جو رپورٹ پیش کی گئی تھی اسے ایک بہترین رپورٹ قرار دیا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت نے ہر چیز تیل کمپنیوں کی خواہش اور من مانی پر چھوڑ رکھی ہے۔

2009 میں قانون میں ترمیم کرتے ہوئے آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی (OCAC)کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جو ماورائے آئین و قانونی اقدام تھا OCACکے ممبرز آئل کے کاروبار سے منسلک اور اس سے براہ راست فائدہ اٹھانے والے ہیں، اس لیے ان سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ سکیں، اس رپورٹ میں حقائق کا جائزہ لے کر اور اعداد و شمار کی جمع تفریق کرکے یہاں تک بتا دیا گیا تھا کہ سی این جی 17 روپے فی کلو گرام کی قیمت پر فروخت کی جاسکتی ہے۔

جسٹس (ر) بھگوان داس آئین و قانون اور اسلامی علوم پر دسترس رکھتے تھے، قانون کی ڈگریوں کے علاوہ انھوں نے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر بھی کیا تھا۔ علمی، ادبی و فکری محفلوں میں شرکت کرتے تھے شعر و شاعری کا ذوق رکھتے تھے، نبیؐ کی شان میں محبت سے سرشار نعتیں بھی لکھیں۔ ان کے جج مقرر کیے جانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست بھی داخل ہوئی کہ اعلیٰ عدالت میں ہندو جج مقرر نہیں کیا جاسکتا، جس کو ہائیکورٹ نے مسترد کردیا، کیونکہ ایسا اسلامی شریعت میں بھی نہیں ہے، اس فیصلے کو ججز اور وکلا نے سراہا تھا۔ مرحوم نے اپنے عمل اور جدوجہد سے خود کو ملک و قوم اور عدلیہ کے لیے قابل فخر اور وقار کی علامت ثابت کیا۔ ان کے کردار کو عدالتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔