کارواں بنتا گیا

فرح ناز  ہفتہ 14 مارچ 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

میں تو اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا

ہے نا زبردست شاعری اور شاعری بھی ایسی جو دل کو چھوجائے،کہیں باہر سے امپورٹ بھی نہیں کی گئی اپنا ہی شاعر اور اپنی ہی شاعری اور لفظ ہے کہ منزل پہ پہنچنے کا نسخہ۔

ہمارا ادب، ہمارے ادیب، شاعر بھی شاید زمانے کے ساتھ ساتھ خود غرض ہوگئے ہیں،اپنی ضرورتوں میں گم، لفظوں کو چھاپنے والے، سوچوں کوجلادینے کی بجائے اپنی ہی سوچوں میں گم شاید یہی وجہ ہے کہ فیض احمد فیض کے بعد کوئی انقلابی شاعری نظر نہیں آتی، ادب بہت پرورش کرتا ہے سلجھتے ہوئے معاشرے کی، طالب علموں کو کئی راستے دکھاتا ہے۔

بہت ہی سادہ مگر خوبصورت شاعری، اپنا شاعر اپنی شاعری اب یہ حال ہے کہ جو کمرشل بنتے ہیں اکثر ان کی شاعری بھی ان کمرشل کی ریکارڈنگ کی طرح دوسرے ملکوں میں اور ان ہی شاعر سے کروا لی جاتی ہے۔ اکثر یہ سننے میں بھی آتا ہے کہ ہمارے ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کو لگتا ہے کہ شاید زیادہ معنی خیز شاعری یا نثر اب ہم اپنے پڑوسی ملک سے لکھوا سکتے ہیں کہ ہمارا ادب اب ذرا ہلکا ہوگیا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میڈیا کے وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب اور ادب دونوں کو وسیع راہیں ملتی اور ادب اور ادیب دونوں کو بامعنی انداز میں بکھیرا جاتا تاکہ اچھی سوچ اور اچھے الفاظ زیادہ سے زیادہ دل و دماغ تک پہنچ سکیں۔منیر نیازی ایک سادہ شاعر مگر جو بصورت الفاظ ان کی شخصیت کو چست گلیمرائز Glamourise کرتے ہیں جیسے:

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
یہ مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا

یہ ایک ایسے الفاظ کا ذخیرہ ہے کہ آپ پڑھتے رہیں اور سوچتے رہیں۔ زندگی کا خالی پن، زندگی کی اداسی، اپنوں میں اجنبیت، زندگی کی سچائیاں نکھر کر سامنے آتی ہے۔

آرٹس کونسل کراچی میں یوتھ فیسٹیول منایا گیا، آرٹس سے متعلق ہر شعبے میں نوجوان نسل کے لیے مختلف مقابلے رکھے گئے، انعامات، نقد رقم اور سرٹیفکیٹ کا اہتمام کیا گیا اور نوجوانوں نے بھرپور انداز سے حصہ بھی لیا، ہر جگہ سے خوبصورت ٹیلنٹ سامنے آیا حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور یقینا جذبے بھی بڑھے، جن کو سپورٹ مل جاتی ہے وہ آگے بڑھ جاتے ہیں اور جو کوئی سپورٹ نہ رکھتے ہو وہ بہت زیادہ ٹیلنٹ رکھتے ہوئے بھی رہ جاتے ہیں۔

کسی بھی معاشرے کے لیے یا انفرادی شخصیت سازی کے لیے آرٹس کا شعبہ بہت اہمیت رکھتا ہے، وہ جذبوں اور سوچ کی بھرپور عکاسی کرتا ہے، زندگی سے منفی اثرات دور کرتا ہے اور ہر شخص کے لیے ہمدردی اور مثبت جذبہ پیدا کرتا ہے۔نوجوان طبقہ اپنی پسند کے شعبوں کا انتخاب کرتے ہیں، کوئی پینٹر بہت اچھا ہوتا ہے کوئی گلوکار، کوئی اچھی تقریر کرسکتا ہے تو کوئی بہت اچھی فوٹو گرافی، کوئی بہت اعلیٰ ڈانسر ہوتا ہے تو کوئی موسیقار، کوئی نثر نگاری کا شعبہ اپناتا ہے تو کوئی شاعری گو کہ جتنے ذہن اتنے ہی شعبے ہیں۔ اعلیٰ کارکردگی، مگر یہ سب ممکن تب ہی ہوگا جب یہ ادارے ہوں گے اور یہ اپنی پروسز عام لوگوں تک پہنچاتے ہیں، کامیاب ہوجائیں گے۔

عام آدمی تک صحیح معنوں میں آرٹس کا پیغام پہنچے اور زیادہ سے زیادہ سہولتوں کے ساتھ لوگوں کو اس جانب راغب کیاجائے۔خوشیوں پر کسی کی پابندی نہیں، سب کا حق مسکرانے اور خوش رہنے پہ برابر ہو، لوگ اپنی سوچ کے مطابق اپنے آپ کو سنوارسکیں۔

کہتے ہیں کہ قطرے قطرے سے سمندر بنتا ہے، اپنی اپنی انفرادی جد وجہد ہر ایک نے کرنی ہوگی اور جو خلا سا ہمارے تہذیب و تمدن میں آگیا جو خلا سا ہمارے اپنی رویوں میں آگیا ہے اسے صرف اور صرف مثبت سوچ اور مثبت رویے ہی بھرسکتے ہیں، آرٹس سے متعلق تمام شعبوں کی پزیرائی بہت ضروری ہے اچھا ادب وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہمارے ادیب اپنا اپنا حصہ ڈالیں اور معاشرے کو منفی اثرات سے پاک کریں۔

مسلمان ہونا کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے، ہم گا بھی سکتے ہیں، ہم بول بھی سکتے ہیں اور خوش بھی رہ سکتے ہیں، بس دیانت داری سے سب ہی لوگوں کو اپنی اپنی وفاداریاں نبھانی ہوگی۔ دیانت داری ایک ایسی نعمت ہے جو آپ کو زندگی کے تمام شعبوں میں کامیاب و کامران کرسکتی ہے۔ جب جب لوگوں کے احساسات کو دبایا جاتا ہے ان کے شوق اور ان میں موجود قابلیت کو دبایا جاتا ہے ہمیشہ منفی صورت حال کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے۔

اس کی ایک بہترین مثال ضیا الحق کا دور بھی رہا ہے ایک آمر کا دور جس میں مختلف شعبوں پر، مختلف لوگوں پر بلا وجہ پابندیاں لگائی گئی اور جبر کے زور پر معاشرے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی، زبردستی اور زور و جبر نے معاشرے میں ایسے منفی اثرات مرتب کیے جس کے اثرات آج تک تمام قوم بھگت رہی ہے۔خواتین کو خوامخواہ دبایا گیا ان کو ایک حد تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی، آرٹس کے شعبے پر کنٹرول رکھا گیا نتیجہ یہ رہا کہ آج تک اور شاید ہمیشہ اس دور کو بد ترین دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

زور و زبردستی نے ہمیشہ لوگوں پر اور معاشرے پر منفی اثر کیا۔ اب دوبارہ سے ڈرامہ انڈسٹری، فلم انڈسٹری، میوزک اور اسی طرح کی مختلف سرگرمیوں کی سرپرستی کی جارہی ہے تاکہ نوجوان طبقہ اور عوام الناس کو ایک تھکے ہوئے ماحول سے نکالا جاسکے۔ان کے اسٹریس اور ڈپریشن کو کم کیا جاسکے۔

صحت مند سرگرمیاں ہوں جس میں جسم اور ذہن دونوں کے لیے بہتری ہو، شروعات ہوتی ہے تو یقینا آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے اگر کوئی رکاوٹ نہ آئی تو اگر پھر سے جبر اور زور سے نہ روکا گیا تو بے شمار لوگ ایسے میں جو خداداد صلاحیتیں رکھتے ہیں اور ایسی ایسی صلاحیتیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جو نہ صرف ان کے اپنے لیے عالیشان ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی یہ لوگ لاثانی جذبے رکھتے ہیں، صرف اور صرف ان کو ایسے پلیٹ فارم چاہیے ہوتے ہیں۔

جہاں یہ بھرپور اور مثبت طریقوں سے اپنے آپ منواسکیں اور دوسروں کو بھی ساتھ لے کر چل سکیں، ہر ادارے میں ایسے لیڈر ہونا ضروری ہیں جو یہ صرف پریشر برداشت کرسکیں بلکہ دوسروں کے حق کے لیے لڑ بھی سکیں اور یہی لیڈر پھر ہمیں مزید اعلیٰ لیڈر بھی دے سکیں گے۔

فیض احمد فیض کہتے ہیں کہ:
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا ان الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

سو امیدیں شاندار رکھیے اپنے آپ سے بھی اور دوسروں سے بھی کہ اﷲ عالیشان انسانوں کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے آپ دوسروں کے لیے بہتر سوچیں گے بہتر کریں گے تو خود بخود آپ کے لیے بہتر ہوگا، ہم اور آپ ملکر ہی اپنی روایات، اپنی تہذیب کو سنوارسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔