سانحہ یوحنا آباد ہماری ذمے داری

یوحنا آباد ایک عیسائی بستی ہے اس بستی کے چرچ میں خودکش حملہ آوروں نے گھسنے کی کوشش کی


Zaheer Akhter Bedari March 21, 2015
[email protected]

لاہور کے ایک علاقے یوحنا آباد میں چرچ پر دہشت گردوں نے دو خودکش حملے کیے جس میں 14 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے زخمی ہونے والوں میں 20 کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔

یوحنا آباد ایک عیسائی بستی ہے اس بستی کے چرچ میں خودکش حملہ آوروں نے گھسنے کی کوشش کی لیکن چرچ کے گیٹ پر موجود دو گارڈز نے دہشت گردوں کو روکا اور اندر داخل ہونے نہیں دیا۔ خودکش بمباروں کو اوپر سے یہ ہدایت ہوتی ہے کہ اگر مطلوبہ ہدف تک پہنچنے سے روکا جائے تو وہیں بلاسٹ کر دو جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جتنا جانی نقصان کرا سکتے ہو کرا دو اور خود بھی اپنے جسم کے چیتھڑے اڑا لو۔

سو چرچ میں داخل ہونے سے ناکام ہونے والے دہشت گردوں نے گیٹ پر ہی اپنے آپ کو اڑا لیا اس وجہ سے جانی نقصان نسبتاً کم ہوا۔ دہشت گرد اگرچہ اس سے پہلے بھی دوسری قوموں کی عبادت گاہوں پر حملے کرتے رہے ہیں لیکن لگتا ہے اب یہ انسان دشمن اور وحشی گروہ ایک پالیسی کے تحت غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حملے کر رہا ہے۔

اس خودکش حملے کے بعد ملک بھر میں مسیحی برادری نے پرتشدد احتجاج کیا، لاہور میں یہ احتجاج ایسے تشدد میں بدل گیا کہ دو بے گناہ لوگوں کو انتہائی وحشیانہ انداز میں زندہ جلا دیا گیا، جب میں نے ٹی وی پر ان جلنے والوں کا دھواں اٹھتے دیکھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ مذہبی نفرت جب شدت اختیار کرتی ہے تو کس قدر وحشی بن جاتی ہے جو دو لوگ مظاہرین کے ہاتھوں جلائے گئے وہ اپنے پیشہ ورانہ کاموں کے سلسلے میں یوحنا آباد آئے تھے کہ بپھرے ہوئے مظاہرین کے ہتھے چڑھ گئے۔

بے گناہ انسانوں کو محض مذہبی تفاوت کی وجہ سے وحشیانہ انداز میں قتل کر دینا کوئی نئی بات نہیں۔ یہ رسم جس کا آغاز صلیبی جنگوں سے ہوا تھا مختلف مقتلوں سے گزر کر اب لاہور کے یوحنا آباد تک پہنچی ہے۔ 1947ء میں 22 لاکھ بے گناہ انسان اس آگ کی نذر ہو گئے وسطی یورپ سے گزرتی ہوئی یہ آگ کشمیر اور فلسطین تک پہنچ چکی ہے اور اب تک لاکھوں انسانوں کی بھینٹ لے چکی ہے۔

یوحنا آباد میں وحشت کا مظاہرہ کرنے والے عام آدمی نہیں تھے بلکہ یہ وہ خاص لوگ ہیں جو ساری دنیا پر قبضہ چاہتے ہیں اور دنیا پر قبضے کی اس مہم میں وہ اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ خود مسلمانوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کرتے آ رہے ہیں۔ پاکستان میں اب تک 50 ہزار سے زیادہ مسلمان ان خون آلود چہروں والے بھیڑیوں کی نذر ہو چکے ہیں۔

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس وقت پورا ملک حالت جنگ میں ہے۔ ایسی صورتحال میں انتظامیہ کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے جس سے عوام میں اشتعال پھیلے لیکن دیکھا یہی جا رہا ہے کہ اختیارات رکھنے والے بے وقت اور امتیازی اقدامات کر کے عوام کو مشتعل کرنے کی احمقانہ کوششیں کر رہے ہیں۔

اگر موجودہ صورتحال میں عوام کسی بھی حوالے سے مشتعل ہوتے ہیں سڑکوں پر آتے ہیں تو اس کی ذمے داری انتظامیہ پر ہوتی ہے اور خود حکومت کی توجہ اس جنگ سے ہٹ جاتی ہے جس کا تعلق پاکستان کے مستقبل سے ہے۔ اگست2014ء کا سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی انتظامیہ کی حماقت ہی کہلا سکتا ہے۔ کراچی کے حالات بھی انتظامیہ کی نااہلی ہی کا نتیجہ ہیں حالت جنگ کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اپنی ساری توجہ اصل دشمن کی طرف مبذول کرے۔ کیا ایسا ہو رہا ہے؟

مذہبی منافرت کے لاوے میں بہنے والے اگر یہ سمجھ سکیں کہ مذہبی اختلافات کے باوجود دنیا کے سارے انسان ایک دوسرے کے بھائی اور آدم کی اولاد ہیں تو ان کے دل اور ذہن نفرتوں کی بھٹیاں بنے رہنے کے بجائے محبت اور بھائی چارے کی آبشار بن جائیں گے۔ ماضی بعید میں مذہبی نفرتیں اس لیے بھی شدید تھیں کہ عوام کی بھاری اکثریت ناخواندہ تھی اور مذہبی انتہا پسند بھی، اب جب کہ پسماندہ ملکوں کے عوام بھی علم و شعور سے آراستہ ہو رہے ہیں مذہبی اختلافات میں شدت کے بجائے اعتدال آنا چاہیے، مذہبی نفرتوں کے بجائے مذہبی یکجہتی کا کلچر مضبوط ہونا چاہیے۔

یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہماری مذہبی قیادت بھی مذہبی انتہا پسندی کی مخالفت کر رہی ہے اور مذہبی انتہا پسندوں کو انسان ماننے سے انکار کر رہی ہے لیکن موجودہ حالت جنگ کا تقاضا ہے کہ مذہبی اکابرین فرقہ وارانہ تنگ نظریوں سے نکل کر اس عفریت کے خلاف میدان میں آئیں جو نہ مسجدوں کو بخش رہا ہے نہ مندروں کو نہ گرجا گھروں کو۔ عبادت گاہیں خدا بھگوان اور گاڈ کا گھر کہلاتی ہیں ان کا تحفظ ہر مذہب کے لوگوں کی ذمے داری ہے۔ مسیحی تو ہمارے زیادہ قریب اس لیے ہیں کہ وہ اہل کتاب ہیں اور مسلمان حضرت عیسیٰ کو پیغمبر مانتے ہیں۔ مسیحیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ صرف دہشت گردوں کو ننگ انسانیت سمجھیں۔ عام آدمی کو خواہ اس کا مذہب کوئی بھی ہو اپنا بھائی سمجھیں۔

یوحنا آباد کے مسیحی بھائیوں کا اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے جانی نقصان پر مشتعل ہونا اگرچہ ایک فطری بات ہے لیکن مسیحی برادری نے سرکاری اور غیر سرکاری املاک اور گاڑیوں کو جلاتے دو بے گناہ انسانوں کو آگ لگاتے ہوئے اس حقیقت پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی کہ صرف ان کا چرچ ہی اس بے لگام دہشت گردی کی نذر نہیں ہوا بلکہ اب تک درجنوں مسجدیں درجنوں مزارات مسلم بچوں کے سیکڑوں اسکول ان حیوانوں نے تباہ کر دیے ہیں اور 50 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کر چکے ہیں اگر یوحنا آباد کی مسیحی کمیونٹی ان حقائق پر نظر ڈال لیتی تو پھر اس کا غصہ اس قدر شدید نہ ہوتا۔

اس حوالے سے یہ بات بڑی خوش آیند ہی نہیں حوصلہ افزا بھی ہے کہ نہ صرف مسیحی برادری کے رہنما بلکہ ہماری مذہبی جماعتوں کے اکابرین نے بھی نہ صرف یوحنا آباد المیے کی مذمت کی ہے بلکہ دہشت گردوں کو انسان ماننے سے بھی انکار کیا ہے۔

ہماری حکومت پنجاب نے اس انتباہ کا بھی نوٹس لینے کی زحمت نہیں کی جو خود ان کے وزیر داخلہ کی طرف سے دیا گیا تھا کہ ''دہشت گردوں کی طرف سے مسیحی عبادت گاہوں پر حملے کی اطلاعات ہیں'' ہمارے حکمران خاص طور پر پنجاب کے حکمران یہ کہتے رہتے ہیں کہ ''ہم حالت جنگ میں ہیں'' اور جب یہ جنگ مسجدوں مندروں گرجا گھروں تک پھیل گئی ہو تو انتظامیہ کی یہ ذمے داری اور فرض ہوتا ہے کہ وہ خدا کے گھروں کی سخت حفاظت کریں۔

معلوم ہوا کہ شیشے کا کام کرنے والے شخص کو پہلے پولیس کے اہلکاروں نے شک کی بنیاد پر پکڑا۔ اگر اس کو شک کی بنیاد پر پکڑا گیا تھا تو اس کی حفاظت کی ذمے داری پولیس پر عائد ہوتی ہے صورتحال کا تقاضا تھا کہ اس مبینہ مشکوک شخص کو فوری طور پر قریبی تھانے منتقل کر دیا جاتا کیونکہ عام آدمی میں بھی اتنی عقل ہوتی ہے کہ ایک مشتعل ہجوم کسی مشکوک قرار دیے جانے والے شخص پر تشدد کر سکتا ہے اور ہوا یہی کہ مشتعل ہجوم نے اس کو پولیس سے چھین لیا اور بے دردی سے جلا دیا جس کی ذمے داری مشتعل ہجوم سے زیادہ پولیس پر آتی ہے۔ ایسے موقعوں پر پولیس اہلکاروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیں۔

مقبول خبریں